"HRC" (space) message & send to 7575

بیرونِ دریا کچھ نہیں

حافظِ شیراز نے کہا تھا: بارہا گفتہ ام و بارِ دگر می گویم۔ بھلائی ہم آہنگی میں ہوتی ہے‘ فساد اور انتشار میں نہیں۔ ؎
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
عمران خان کی طرف سے محاصرے کی بجائے جلسے کے اعلان سے پہلے‘ ایک دانا آدمی کا خیال یہ تھا کہ میاں محمد نواز شریف اور عمران خان سے خلقِ خدا بیزار ہو جائے گی۔ کچھ دن میں سیاسی منظر یکسر بدل جائے گا۔ اچھا ہوا کہ دونوں نے سپریم کورٹ میں سر تسلیم خم کر دیا۔ علامہ طاہرالقادری کو صدمہ ضرور پہنچا۔ موقع سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ آخری تجزیے میں ان کا جھگڑا ذاتی ہے۔ مقاصد بھی ذاتی ہیں۔ کبھی وہ اس خاندان کے ممنونِ احسان تھے۔ آج اس کی مکمل پامالی کے آرزومند ہیں۔ شریف خاندان سے اختلاف بجا۔ اس کا مطلب یہ کیسے ہوا کہ اگر وہ ایک اچھا فیصلہ کریں تو اس میں بھی کیڑے ڈالے جائیں۔ جی نہیں‘ فرمان یہ ہے: الصلّح خیر‘ بھلائی صلح صفائی میں ہوتی ہے۔ 
ایجی ٹیشن‘ دس بارہ دن اگر مزید جاری رہتا تو ہر چیز ہاتھ سے نکل جاتی۔ پاکستان کو نہیں‘ اس کا فائدہ دشمن کو پہنچتا۔ امریکہ ہمارے اندر داخل ہو گیا ہے‘ اور بھارت بھی۔ بلا خوف و خطر ان کے کارندے سرگرم عمل ہیں۔ خدانخواستہ اسی آزادی سے اگر وہ بروئے کار رہے تو صورتِ حال خطرناک ہو سکتی ہے۔ عرب محاورے کے مطابق‘ جب زمین کا پیٹ‘ اس کی پیٹھ سے بہتر ہو جاتا ہے۔ اس لافانی شاعر میاں محمد بخش کی اصطلاح میں زندگی کیکر کے درختوں پر لٹکی دھجیوں جیسی ہو جاتی ہے۔
راستہ ابھی نکلا نہیں۔ ابھی فقط امکان نے جنم لیا ہے۔ ابھی یہ طے ہونا ہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کس طرح ہو گی۔ کمیشن اگر وجود پاتا ہے تو اس کا دائرہ کار اور اس کے اختیارات کیا ہوں گے۔ پیپلز پارٹی سمیت‘ اپوزیشن تحقیقات کے لیے ٹی او آرز‘ حدود اور قرینہ طے کر چکی۔ ظاہر ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی‘ ان ٹی او آرز پہ اصرار کریں گے۔ حالات سازگار ہیں کہ وہ ڈٹ جائیں۔ ہوش مندی شاید اس میں ہو گی کہ لچک پیدا کی جائے اور ایک آدھ ترمیم گوارا کر لی جائے‘ جس سے منصفانہ تحقیقات کا مقصد حاصل ہو جائے۔ نون لیگ بھی محسوس کرے کہ کوئی چیز اس پر مسلط نہیں کی گئی۔ کسی ایک فریق کی نہیں‘ عدل کی بالادستی ہونی چاہیے۔ ابدیت سفر کو ہے‘ مسافر کو نہیں۔ سب چلے جاتے ہیں اور ملک باقی رہتا ہے۔ سیاست دان فیصلہ نہ کر سکیں تو عدالت کرے۔ قوم اس کی شکر گزار ہو گی۔
زیادہ بڑی تصویر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ملحوظ‘ مستقبل کو رکھنا چاہیے۔ نواز شریف کل نہیں ہوں گے‘ عمران خان اور آصف علی زرداری بھی نہیں ہوں گے۔ ہم میں سے کوئی بھی نہ ہو گا۔ ملک کو باقی رہنا ہے۔ عدل اور اعتدال کے ساتھ ہی وہ شادمان اور نمو پذیر ہو سکتا ہے۔
اللہ کے آخری رسولﷺ نے بدترین لوگوں کو معاف کر دیا تھا۔ اللہ اور رسولﷺ سے جنہوں نے دشمنی کی تھی۔ فتح مکّہ کے دن‘ کہہ دیا گیا کہ ان سے کوئی باز پرس نہ ہو گی۔ عام معافی کا نتیجہ تھا کہ چاروں طرف چراغ جل اُٹھے۔
جب آ پہنچی اللہ کی مدد اور فتح کامل
اور تو نے‘ فوج در فوج لوگوں کو‘ اللہ کے دین میں داخل ہوتے دیکھ لیا۔
پس اپنے رب کی حمد و تسبیح کر اور استغفار کر
بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔
کسی کا مقصد اگر نواز شریف کو دفن کرنا ہے۔ کسی کا مقصد اگر عمران خان کو تباہ کرنا ہے تو فساد وہ جاری رکھے۔ حق کی آواز امن اور بھلائی کی آواز ہے۔ اللہ کا شکر ہمیں ادا کرنا چاہیے۔ ساری صلاحیت اس پر لگا دینی چاہیے کہ ملک دلدل سے باہر نکل سکے۔ ایسے حالات میں میڈیا کی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ہوتی ہے۔
زندگی کا کھلا میدان جب جنگل جیسا ہو جاتا ہے تو سچائی کے ساتھ ساتھ صبر کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ تحمل اگر نہ ہو‘ تنگ نظری کا اگر تہیہ کر لیا جائے تو آدم زاد وحشی جانور سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ مولانا روم نے کہا تھا: آدمی کی شخصیت فقط اس کا اندازِ فکر ہی ہوتی ہے‘ باقی تو گوشت اور ہڈیاں ہیں۔ تحریکِ انصاف کی جمعیت بکھر رہی تھی۔ عمران خان کنفیوژن کا شکار تھے۔ گھر سے وہ باہر نہ نکل سکے۔ دس لاکھ تو کیا‘ ایک لاکھ آدمی بھی اسلام آباد نہ پہنچ سکتے۔ شریف خاندان گھبراہٹ کا شکار تھا۔ محترمہ مریم نواز کچھ دن سے لاہور میں ہیں۔ جاتی عمرہ کے پڑوسیوں کا کہنا ہے‘ اتوار کو چار بار اسلام آباد سے آنے والا ہیلی کاپٹر وہاں اترا اور واپس گیا۔ قیاس یہ تھا کہ ایوان وزیر اعظم سے اہم فائلیں لاہور منتقل کی جا رہی ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف کی پولیس پختون خوا میں داخل ہو گئی۔ دوسرے صوبے کے وزیر اعلیٰ پر انہوں نے اذیت پہنچانے والی آنسو گیس برسائی۔ اندر سے میاں صاحب خوف زدہ تھے۔ ایسے میں اکثر وہ غلط فیصلہ کرتے ہیں۔ پرویز خٹک کو لبھانے کے لیے انہوں نے فون کیا۔ بھول گئے کہ ان کا دل زخمی ہے۔ بھول گئے کہ ان کے وہ فیض یافتہ نہیں۔ وہ محمود اچکزئی‘ مولانا فضل الرحمن‘ فاروق ستار یا اسفند یار نہیں۔ فراموش کر دیا کہ ایسے میں پختون مزاج کا خاصہ کیا ہوتا ہے۔
ایک بات تکرار کے ساتھ‘ ناچیز کہتا رہا۔ عدالت کا فیصلہ سبھی کو تسلیم کرنا چاہیے۔ عمران خان کو دارالحکومت کے محاصرے کا منصوبہ ختم کر دینا چاہیے۔ حکومت کو کنٹینر ہٹانے چاہئیں اور گرفتاریوں کا سلسلہ موقوف کرنا چاہیے۔ وقت بدل گیا ہے۔ حالات کے تقاضے اب مختلف ہیں۔ ایک دوسرے کو گوارا کرنا ہو گا۔ تشکیل پاتے جمہوری نظام میں ہر ایک کے حقوق ہیں‘ مگر ذمہ داریاں بھی۔ اوّل اوّل آزادی میں غیر ذمہ داری ہوتی ہے مگر تا بہ کے؟ آخرکار سبھی کو ڈسپلن قبول کرنا پڑتا ہے۔ ؎
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا گیا کہ تقدیر کیا ہے۔ سوال کرنے والے سے انہوں نے کہا کہ ایک ٹانگ اوپر اٹھا لو۔ ارشاد کیا‘ اب دوسری بھی۔ ''امیرالمومنین یہ تو ناممکن ہے‘‘ اس نے کہا۔ فرمایا: یہی تقدیر ہے۔
بعض اخبارات زہر پھیلا رہے ہیں۔ اخبار نویسوں کی قابل ذکر تعداد‘ قومی مفاد کو فراموش کر چکی۔ بعض اخبار یکسر بے لگام ہیں۔ سرل المیڈا اور اس کے اخبار کا ماتم ابھی جاری تھا۔ اب ایک دوسرے انگریزی اخبار کے مضمون کا چرچا ہے۔ ایک محترمہ نے پاک فوج کی قیادت کو دہشت گردوں کا سرپرست قرار دیا ہے۔ یہ مضمون کیسے چھپ گیا؟ کچھ لوگ شریف خاندان کی تباہی کے لیے ہر جائز و ناجائز حربے کے قائل ہیں۔ اس طرح کچھ دوسرے پاک فوج کو کمزور‘ رسوا اور بے بس کرنا چاہتے ہیں۔ یہ این جی اوز والے ہیں‘ بھارت اور امریکہ کے دورے کرنے والے۔ وہ بین الاقوامی شہری ہیں۔ پاکستان ان کا وطن اور محبت نہیں۔ بہت سے ملکوں میں سے‘ وہ اسے ایک ملک سمجھتے ہیں۔ ان کی کوئی جذباتی وابستگی اس سے نہیں۔ یہ ان کا گھر نہیں۔ پاک فوج کے بارے میں وہ سی آئی اے اور افغانستان کی کسی بھی افواہ‘ کسی بھی یک طرفہ تجزیے کو قبول کر سکتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ سالانہ 100 ارب روپے ان تنظیموں پر صرف کرتے ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی تحریریں بھارت‘ اسرائیل اور امریکہ کے کام آتی ہیں۔
فوج اور سول کی کشیدگی‘ اس خرابی کی جڑ ہے۔ فوج کو باقی رہنا ہے اور سیاستدانوں کو بھی۔ مفاہمت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ بقا اور زندگی کا یہی ایک راستہ ہے‘ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم سب ہیجان کا شکار ہیں۔ ہم سب خود شکنی پر تُلے ہیں۔ ملک باقی رہے گا۔ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ ایسی سعید روحوں نے اس کی بنا استوار کی۔ تین چوتھائی ووٹروں نے ان کی تائید کی۔ خسارے میں وہ لوگ جائیں گے‘ اس سے جو بے وفائی کا ارتکاب کریں گے۔
کیا وہ دیکھتے نہیں کہ 1971ء میں‘ پاکستان توڑنے والوں کا انجام کیا ہوا؟ کیا ہوا ان کا انجام؟ 
حافظِ شیراز نے کہا تھا: بارہا گفتہ ام و بارِ دگر می گویم۔ بھلائی ہم آہنگی میں ہوتی ہے‘ فساد اور انتشار میں نہیں۔ ؎
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں