عسکری اور سیاسی قیادت نے حصول انصاف کا عزم اگر برقرار رکھا تو انشاء اللہ ایک نئے دور کا آغاز جلد ہو گا ؎
آسمان ہو گا‘ سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
دونوں اگرجیت چکے تو پریشان کیوں ہیں؟ عمران خان کے لہجے میں کچھ بشاشت ہے۔ وفاقی وزرا کی پوری ٹولی مگر چڑ چڑے پن کا شکار ہے۔ کسی سے یاد اللہ ہوتی تو عرض کیا جاتا ع
جشنِ طرب منائو گے کہرام کی طرح
عمران خان کا ہدف ثمر خیز عدالتی کارروائی تھی۔ وہ حاصل کر لیاگیا۔ اب اس سے کیا بحث کہ کتنے لوگ گھروں سے نکلے؟ یہی صورتِ حال اگر میاں صاحب کو درپیش ہوتی؟ یاد ہے سب ذرا ذرا! 2007ء میں انہوں نے لندن سے اسلام آباد کا قصد کیاتھا۔ امریکہ اور برطانیہ کے ایما پر‘ جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو میں پیمان ہو چکا تھا۔ نوازشریف جدّہ میںپڑے رہتے۔ الیکشن 2008ء کے بعد بے نظیر واپس آتیں اور شریک اقتدار ہوتیں۔بدنام زمانہ این آر او کے تحت تمام مقدمات‘ ان کے خلاف واپس لے لئے گئے تھے۔ بے پناہ تشہیر اور کمال کرّوفر کے ساتھ میاں صاحب آخرکار چک لالہ کے ہوائی اڈے پر اترے ؎
وہ آئے بزم میں اتنا تو میرؔنے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
امریکی حمایت سے سعودی حکومت اور جنرل مشرف کامعاہدہ تحریری تھا ۔ دس سال تک شریف خاندان بیرونِ ملک مقیم رہے گا۔ جدّہ کے ایک متروک محل میں‘ اپنی کشادگی کے باوصف جو پولیس بیرکس سے مشابہہ تھا۔ نون لیگ کے قائد سے قبل‘ سعودی انٹلی جنس کے سربراہ پرنس مقرن پاکستان پہنچے۔ سپریم کورٹ میاں صاحب کے حق میں فیصلہ سنا چکی تھی۔ پاکستانی شہری کو وطن واپسی کا حق دے دیا گیا تھا۔ سعودی بادشاہوں نے عدالتی حکم کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ معاہدہ پکا تھا۔ اخبار نویسوں کے سامنے‘ شہزادہ مقرن نے ضمانت کی دستاویز لہرائی اور سوال کیا : سمجھوتہ پہلے ہوا یا عدالت کا فیصلہ؟
نون لیگ کے کارکنوں سے‘ ہوائی اڈے پر پہنچنے کی اپیل کی گئی تھی۔لیڈر سات برس بعد لوٹ رہا تھا۔ لگتا یہ تھا کہ 1986ء میں بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کی یادیں تازہ ہو ں گی۔ اِس کنارے سے اُس کنارے تک‘ جب لاہور کی شاہراہ قائداعظم پر‘ پیپلز پارٹی کی حکمرانی تھی۔ ہر طرف سے امڈتے‘ حدنظر تک انسانوں کے سر دکھائی دیتے۔ محسوس یہ ہو رہا تھا کہ نامقبول جنرل کی فوجی آمریت مسلم لیگی ہجوم کے قدموں تلے پامال ہو جائے گی۔ دہشت سے‘ اس کی موت واقع ہو جائے گی۔ کچھ بھی نہ ہوا ؎
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
چند سو کارکن بھی اسلام آباد کے ہوائی اڈے تک نہ پہنچ سکے۔ گردونواح کی آبادیوں میں بھی نہیں۔ حفاظتی انتظامات بے شک سخت تھے لیکن فقط ایک ہوائی اڈے کے اردگرد ۔موٹروے اور جی ٹی روڈ پر پنجاب پولیس مسلط نہ تھی۔ گھروں سے اکثر نکلے ہی نہیں کہ بعدازاں سینہ کوبی کر سکتے :
گلوئے عشق کو دار ورسن پہنچ نہ سکے
تو لوٹ آئے ترے سر بلند کیا کرتے
یاد نہیں‘ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف اس دن کہاں تھے۔ دانیال عزیز اور طلال چوہدری‘ البتہ جنرل مشرف کے ساتھ تھے‘ قاف لیگ کا سرمایہ تھے۔ شریف لیگ کے اخباری منشیوں اور محرّروں کی ایک قابل ذکر تعداد‘ ان دنوں چوہدری پرویز الٰہی کے دستر خوان پہ پائی جاتی تھی۔
میاں محمد نوازشریف اور ہمنوا‘ وی آئی پی لائونج میں کچھ دیر‘ خود ترسی کی تصویر بنے رہے۔ پھر ایک طیارے میں لاد کر جدّہ پہنچا دیئے گئے۔ فرید احمد پراچہ اتفاق سے اس دیارمیں تھے۔ سابق وزیراعظم سے ملنے گئے تو وہ خورونوش میں مگن تھے۔ ''یہ پیسٹریاںاوریہ PETTIES بہت اچھی ہیں‘‘۔ پراچہ صاحب بھی خوش خوراک ہیں مگر ایسے بھی نہیں کہ اتنے بڑے حادثے کے ہنگام‘ پیٹ پوجا کے لئے فکر مند ہوتے۔ حیرت کی تصویر بنے وہ لوٹ آئے۔
کئی سال قبل جناب آصف علی زرداری نے پنجاب کو فتح کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ دبئی سے اُڑ کر وہ لاہور پہنچے۔ اخبار نویسوں کا ایک انبوہ ان کے ہمراہ تھا۔ کسی ضمانت کے بغیر وہ آئے تھے۔ معمولی سا تماشا بھی ہونہ سکا۔ گئے تو واپس نہ آئے؛ تاآنکہ بے نظیر بھٹو قتل کر دی گئیں۔پھر ان کے سیاسی ہنی مون کا آغاز ہوا۔ امریکہ قیام کے برسوں میں حسین حقانی اینڈکو کی اعانت سے‘ موزوں لوگوں سے موزوں قسم کے مراسم انہوں نے استوار کر لئے تھے۔ باقی تاریخ ہے۔
یہ اخبار نویس‘ ان لوگوں میں شامل نہیں‘ اسلام آباد کے محاصرے سے‘ کسی انقلاب کی امید جنہوں نے باندھی تھی ع
جب تخت گرائے جائیں گے‘ جب تاج اچھالے جائیں گے
اس کی رائے میں پاناما لیکس پر تحقیقات کے لیے دبائو باقی رکھ کر‘ تحریک انصاف کو الیکشن 2018ء کی تیاری کرنا چاہیے تھی۔ اس منفرد سیاسی حکمت کار موہن داس کرم چند گاندھی نے کہا تھا:ایک بڑی جنگ جیتنے کے لیے‘ بہت سی چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہاری جا سکتی ہیں۔ آدمی کو باچا خان اور عبدالولی خان نہ ہونا چاہیے کہ مستقل پٹتے رہے‘ مستقل روتے رہے۔
عمران خان کو قدرت نے ایک اور سنہری موقع عطا کیا ہے۔ سپریم کورٹ میں‘ اپوزیشن کے ٹی او آرمانے جائیں گے یا عدالت ِ عظمیٰ خود مرتب کرے گی؟کچھ بھی ہو مبنی بر عدل فیصلے کے لیے‘ یہ ایک نہایت ہی موزوں صورتِ حال ہے۔ عدالت کو کیا پڑی ہے کہ ڈنڈی مارے۔ یوں بھی حالات سازگار ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت کے دوطرفہ ممکنہ دبائو میں جج حضرات اور بھی یکسوئی سے نفاذِ قانون پہ مائل ہوں گے۔ کروڑوں آنکھیں عدلیہ پہ نگراں ہوں گی۔
مقدمہ ہے کیا؟ آشکار ہے کہ دولت ملک سے باہر لے جائی گئی۔ سوال یہ ہو گا کہ ٹیکس ادا ہوا یا نہیں؟ سمندر پار لے جانے کی اجازت لی گئی یا نہیں؟ انتخابی گوشواروں میں اندراج تھا کہ نہیں ؟ وزیراعظم کے فرزند کا فرمان ہے کہ 1970ء کے عشرے میں فولاد کا ایک کارخانہ دبئی میں لگایا گیا‘ اسے بیچ کر سعودی عرب میں۔ آخر کار وہ بھی فروخت کر دیا گیا اور لندن کی جائیداد خریدی گئی۔ کتنی مالیت کی؟ 500 ملین پائونڈ کی۔ سات برس ہوتے ہیں‘اسی ناچیز نے انکشاف کیا تھا۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف نے ایک دن مدعو کیا اور خاندانی کاروبار کی تفصیل بتائی۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ میں خاموشی اختیار کر لوں! کیسے کر لیتا؟ دو گھنٹے چالیس منٹ کی یہ بات چیت آف دی ریکارڈ تھی‘تفصیل نہیں بتا سکتا۔ تاریخ اگرچہ اپنے سینے میں کوئی راز چھپا نہیں رکھتی۔
اللہ کا شکر ہے کہ تصادم نہ ہوا۔ آخر آخر جس نے پختون پنجابی کشمکش کی شکل اختیار کر لی تھی۔ وفاق کی جڑیں جس سے ہل کر رہ جاتیں۔ ہنگامہ ختم ہونے کے بعد کراچی کے بازار حصص کی بحالی‘ چھوٹی سی خوش خبری نہیں۔ فساد اگر جاری رہتا تو معیشت کھوکھلی ہو کر رہ جاتی۔ گزشتہ آٹھ برس میں کم از کم پندرہ بیس ارب ڈالر ملک سے فرار ہوچکے، یہ سلسلہ اور بھی بڑھ جاتا۔
بھارتیوں اور امریکیوں نے پاکستان میں جڑیں جما لی ہیں۔ درجنوں سیاستدان اور اخبار نویس آلہ کار ہیں۔ ملک کے مستقبل کو مخدوش ثابت کر کے بے یقینی پھیلائی جا رہی ہے۔ ڈان لیکس ایسا ہی ایک منصوبہ تھا۔ اس ناچیز کے خلاف بی بی سی پر گرد اڑائی جائے یا کہیں اور‘ رتی برابر مجھے شبہ نہیں کہ سرل المیڈا قصور وار ہیں اور اخبار بھی۔ نیوز پیپر انڈسٹری نے معاملے کو ناک کا مسئلہ بنا لیا ہے‘ برادری کا۔ کمیٹی بننے والی ہے۔ تفصیلات سامنے آ جائیں گی۔ دو تین سرکاری شخصیات بھی ملوث ہیں۔ کوئی دن میں‘ دودھ کا دودھ‘ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اخباری دوستوںکے سب ارشادات سر آنکھوں پر‘ پنجابی محاورے کے مطابق آنکھوں دیکھی مکھّی کون نگل سکتا ہے۔
امید ہے پاناما لیکس کا فیصلہ جلد ہو گا اور ڈان لیکس کا بھی۔ سپریم کورٹ نے عدل اور اعتدال کا دامن اگر تھامے رکھا ‘اور مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں۔عسکری اور سیاسی قیادت نے حصول انصاف کا عزم اگر برقرار رکھا تو انشاء اللہ ایک نئے دور کا آغاز جلد ہو گا ؎
آسمان ہو گا‘ سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
پسِ تحریر : عمران خان کا جلسہ اتنا بڑا تھا کہ نوازشریف پوری سیاسی زندگی میں ایک بھی ایسا عوامی اجتماع نہیں کر سکے۔ (2) قبل ازوقت انتخابات کا امکان پیدا ہو چکا۔ تحریکِ انصاف کو تیاری کرنی چاہیے (3) مولانا فضل الرحمن نے فرمایا : پرویز خٹک پر غدّاری کا مقدمہ چلایا جائے۔ عالی جناب پر کیوں نہیں‘ جنہوں نے بھارت میں ارشاد کیا تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کو بھارت میں مدغم کر دیا جائے۔ اس کے بعدکشمیر کمیٹی کے وہ چیئرمین بنائے گئے۔