"HRC" (space) message & send to 7575

ڈونلڈ ٹرمپ کس کھیت کی مولی ہیں

اقوام لیڈروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں‘ جیسے کہ ہم ہیں۔ لیڈر اقوام کی صوابدید پر ہوتے ہیں‘ جیسے کہ امریکی۔ ''بے شک غور کرنے والوں کے لیے ہر چیزمیں نشانیاں ہیں‘‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ‘ نوازشریف بات چیت میں دفتر خارجہ کے کردار کا ذکر تھا۔ سانچے میں ڈھلے‘ شمشاد احمد خان دوسرا مصرع بھول گئے۔ انسانی یادداشت شاذ ہی مکمل طور پر ختم ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ‘ البتہ کمزور پڑتی جاتی ہے‘ خاص طور پر اس وقت‘ جب عجلت سوار ہو۔ پورا شعر یوں ہے ؎
ہم فقیروں سے دوستی کر لو
گر سکھا دیں گے‘ بادشاہی کا
نکتہ ان کا یہ تھا کہ جس کا کام‘ اسی کو ساجھے۔ خارجہ امور کی نزاکتوں کا ادراک تربیت یافتہ افسروں کا کام ہے‘ محترمہ مریم نواز اور عرفان صدیقی کا نہیں۔ شمشاد خان‘ مہذ ب آدمی ہیں‘ بعض پہلوئوں پر بات کرنے سے انہوں نے گریز کیا ۔ کہا : معلومات نہیں‘ تبصرہ نہیں کروں گا۔
ایک باخبر کا کہنا ہے کہ چار عدد نائبین وزیراعظم کے دائیں بائیں براجمان تھے‘ جب ڈونلڈ ٹرمپ سے میاں صاحب بات کر رہے تھے‘ انگریزی زبان میں۔ کاغذ کی چٹوں پر جوابات لکھ کر وہ وزیراعظم کو دے رہے تھے‘ غالباً ترتیب وار۔ پہلے جملے کا جواب ایک نے لکھا تو دوسرے کا‘ اس کے ساتھی نے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا لہجہ سمجھنا ایک پاکستانی کے لیے دشوار ہو گا۔ انگریزی میاں صاحب بول سکتے ہیں؛ اگرچہ روانی کے ساتھ نہیں۔ ذہن اب چوکس نہیں رہا۔ یادداشت بھی پہلی سی ہرگز نہیں۔ تفکرات نے آن گھیرا ہے۔ آخر کو یہی ہوتا ہے۔ صدر اوبامہ سے ملاقات کے ہنگام‘ اسی لیے کاغذ کے پرزوں پر نوٹس لکھ لیے تھے۔ جو واحد جملہ فی البدیہہ کہا‘ وہ نکتہ چینی کا باعث بنا ''پہلے ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا چاہیے‘‘۔ اس طرح کی بات میڈیا کے سامنے ہرگز نہیں کہی جاتی۔ اچھا ہے کہ لوگوں کو دائیں بائیں بٹھا رکھتے ہیں‘ وگرنہ کوئی بڑا گھپلا ہو جائے‘ اور بھی جگ ہنسائی ہو۔
ڈونلڈ ٹرمپ سے رابطے کا مشورہ جن لوگوں نے دیا یہ ناچیز بھی ان میں شامل تھا۔ آن ریکارڈ تو وہی ایک۔ خبر جاری کرنے میں کوئی حرج نہ تھا‘ لیکن دونوں طرف کی بات لکھی ہوتی اور جیسا کہ دستور ہے‘ فقط خلاصہ۔ جن لوگوں سے انہوں نے مشورہ کیا‘ ان کی استعداد معمولی تھی اور تجربہ تو بہت ہی محدود۔ 
ہر کام کے لیے موزوں لوگ ہوا کرتے ہیں۔ تربیت انہیں صیقل کرتی ہے۔ سیاست اور سفارت کاری‘ ہمیشہ سے پیچیدہ کام رہے ہیں۔ اب اور بھی مشکل ہیں۔ 
ڈونلڈ ٹرمپ نے میاں صاحب کی ستائش میں جو جملے کہے‘ کارپوریٹ یعنی بڑے کاروبار میں‘ وہ ایک رسمی سی چیز ہے۔ ماحول کو خوشگوار اور مخاطب کو آسودہ کرنے کے لیے‘ تمہید کے طور پر ایسی ہی باتیں کی جاتی ہیں۔ میاں صاحب خوب سمجھتے ہیں۔ ان کی سیاسی تربیت مگر اس طرح کی ہے کہ موقع سے فائدہ اٹھانے میں کبھی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ کاروباری پس منظر اسی طرح کا ہے اور سیاسی بھی۔
جنرل محمد ضیاء الحق نے 1985ء کے غیر جماعتی الیکشن کا اعلان کیا تو سیاسی پارٹیوں نے بائیکاٹ کی حماقت کی۔ دھاندلی کا انہیں اندیشہ تھا۔ اندیشوں پر فیصلے نہیں کئے جاتے بلکہ مضمرات کو ملحوظ رکھ کر۔ انتخابی مہم کو ایجی ٹیشن میں بدلا جا سکتا تھا۔ فضا اگر سازگار کر لی جاتی۔ سیاسی پارٹیوں کے امیدوار مسترد کئے جاتے تو قوم سے بائیکاٹ کی اپیل کی جا سکتی تھی۔ ایبٹ آباد میں ائیر مارشل اصغر خان کے ہاں منعقد ہونے والے‘ ایم آر ڈی کے اجلاس میں بعض رہنمائوں نے ایسی تجاویز دی تھیں۔ اصغر خان اور بعض دوسرے لیڈر نہ مانے۔ تب ناتجربہ کار محترمہ بے نظیر بھٹو بھی بائیکاٹ کے حق میں تھیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ بلدیاتی سطح کی قیادت ملک پر مسلط ہو گئی۔ برادریوں کے بل پر الیکشن لڑنے والے۔ سستی شہرت کے آرزومند جو پارلیمانی سیاست کا تجربہ اور ذوق نہ رکھتے تھے۔ ملک کی اقتصادی حالت اچھی تھی‘ روپیہ فراواں۔ بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے تو رہے ایک طرف‘ ایک ایک گلی پر لیڈروں کے بورڈ جگمگانے لگے۔ شریف خاندان اس فن میں رفتہ رفتہ طاق ہوتا گیا اور اب تو ایسا رواں کہ خدا کی پناہ۔ اسی شعار کے ساتھ وہ اخبار نویسوں کے دلوں اور دماغوں پر حکومت کرتا ہے۔ 
دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ ہیں‘ امریکہ کے نوازشریف‘ لیکن بہرحال امریکہ کے۔ وہ کبھی کسی پارٹی کے رہنما نہ تھے۔ کبھی کسی الیکشن میں حصہ نہ لیا۔ مگر کارپوریٹ بزنس کے تجربے کی بنا پر‘ انسانی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا ہنر رکھتے ہیں۔ اکثریتی گوری آبادی کے انداز فکر کو خوب سمجھتے ہیں۔ یہ اندازہ بھی انہیں تھا کہ سرمایہ بیرون ملک منتقل ہونے اور تارکین وطن کی مسلسل آمد سے امریکی نوجوان ناخوش ہیں۔پھر یہ کہ تبدیلی کی خواہش ہر معاشرے میں ہوتی ہے۔ ہر عوامی لیڈر یہ بات جانتا ہے‘ حتیٰ کہ عمران خان بھی۔ فرق یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی معاشرے کی ساخت کا گہرا ادراک رکھتے ہیں‘ تنظیمی صلاحیت بھی۔ہر طرح کے کاروبار انہوں نے کیے ہیں ۔ ہر طرح کے لوگوں سے انہیں واسطہ رہا ۔
جب میاں محمد نواز شریف کے بارے میں فراہم کردہ معلومات کا جائزہ لیا تو کیا وہ ان سے متاثر ہو گئے؟ جی نہیں‘ جیسا کہ عرض کیا ہے‘ گفتگو کے آغاز میں‘ دوسرے کے مثبت نکات بیان کیے جاتے ہیں۔ دوسری بات ڈونلڈ ٹرمپ نے بالکل ٹھیک کہی‘ باون تولے‘ پائو رتی۔یہ کہ جن پاکستانیوں سے ‘ اس کا واسطہ رہا‘ ان میں سے بعض اپنی صلاحیتوں سے ممتاز ہیں۔ امریکہ ہی نہیں دنیا بھر میں پاکستانیوں نے اپنا لوہا منوایا ہے۔ بعض عالمی مطالعوں میں پاکستان کو دنیا بھر کی سات ذہین ترین اقوام میں شامل بتایا گیا ہے۔ فرانس اور برطانیہ میں‘ چوٹی کے سائنس دانوں میں‘ پاکستانی شامل رہے۔ مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک اور امریکی معاشرے میں‘ پاکستانی ڈاکٹروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انفرمیشن ٹیکنالوجی کو نواز شریف کے اوّلین دو ادوار‘ بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں اور بڑی حد تک جنرل مشرف کے دور میںبھی نظر انداز کیا گیا۔ کوئی اچھا سرکاری کالج اور نہ یونیورسٹی۔ ان ادوار میں اگر کچھ بنے تو نجی اور فوجی ادارے‘ سرکاری چند ایک اور خام۔اس کے باوجود اس میدان میں پاکستانی پسندیدہ ہیں۔
جدید ملائشیا کے بانی ڈاکٹر مہاتیر محمد کا کہنا ہے کہ جو ہنر ان کے ہم وطن سال بھر میں سیکھتے ہیں‘ ایک پاکستانی چھ ماہ میں۔ مشرق بعید ہی نہیں‘ دنیا بھر میں وہ بھارتیوں‘ بنگلہ دیشیوں اور عربوں سے زیادہ معاوضے پاتے ہیں۔ بعض اوقات مغربیوںسے بھی۔
ایسی ذہین قوم پر ترقی اور بالیدگی کا دروازہ کیوں نہ کھلا؟ اس نظام کے طفیل‘ جس کی دلدل‘ ان کی صلاحیت چاٹ جاتی ہے‘ کم تر تعلیم اور غیر سائنسی انداز فکر کے طفیل‘ قیادت کے انتخاب میں اپنے انداز فکر کی بنا پر۔ لیڈروں کی اخلاقی حالت کی وہ کوئی پروا نہیں کرتے۔ ایک خود غرض لیڈر‘ معاشرے کے لیے کیوں ریاضت اور ایثار کرے گا؟ اپنی سیاست اور اپنا کاروبار و چمکائے گا یا عام لوگوں کی حالت بہتر بنانے کی کوشش کرے گا؟
میاں صاحب نے تاثر دینے کی کوشش کی کہ ڈونلڈ ٹرمپ‘ پاکستان‘ پاکستانیوں اور خود ان سے متاثر ہیں۔ ہرگز ایسا نہیں۔ ہوتا بھی تو اقوام کے باہمی تعلق کا انحصارفقط ان کے مفادات پر ہوتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک بے رحم کاروباری ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ بہت طاقتور ہے۔ جیسا کہ شمشاد احمد خان نے کہا 20جنوری کے بعد منتخب صدر کا لہجہ بدل جائے گا۔ لہجہ ہی نہیں‘ ترجیحات بھی۔ اس خطے میں امریکی مفادات‘ بھارت سے وابستہ ہیں۔
انسان فقط دانش نہیںجذبات سے بھی بنے ہیں۔افراد کی طرح اقوام بھی‘ بعض معاملات میں جذباتی ہوا کرتی ہیں۔ غلبے کی خواہش ان میں بھی ویسی ہی ہوتی ہے‘ جیسا کہ افراد میں۔ دنیا کو اپنی پسند کے مطابق چلانے کے خواب سے واشنگٹن دستبردار نہیں ہوا۔ امریکی سیاستدان‘ افواج‘ سی آئی اے اور نہ ان کا دفتر خارجہ۔ جان ایف کینیڈی کو امریکی اسٹیبلشمنٹ نے راہ سے ہٹایا۔ نکسن کو اسی نے چلتا کیا تھا۔وہ بڑے رہنما تھے‘ ڈونلڈ ٹرمپ کس کھیت کی مولی ہیں کہ دنیا کی جدید ترین‘ بے حد منظم اور فعال اسٹیبلشمنٹ پہ غالب آئیں۔ وہ اس کی راہ چلیں گے یا اس کے شکنجے میں جکڑ کر ‘ پسپا کر دیے جائیں گے۔
اقوام لیڈروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں‘ جیسے کہ ہم ہیں۔ لیڈر اقوام کی صوابدید پر ہوتے ہیں‘ جیسے کہ امریکی۔ ''بے شک غور کرنے والوں کے لیے ہر چیزمیں نشانیاں ہیں‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں