آئی اے رحمن نے لکھا تھا: روزِ اوّل سے مسلمان علم دشمن ہیں۔ جو قوم آئی اے رحمانوں، سیرل المیڈوں، افراسیاب خٹکوں اور محمود اچکزیوں کو گوارا کرتی ہے، ایک دن اسے کسی شیخ مجیب الرحمن کی بھی تاب لانا پڑتی ہے۔ جو قوم اپنی عزت نہیں کرتی، کوئی دوسرا کیوں اس کی عزت کرے؟
پروفیسر حسن عسکری کا لہجہ دھیما اور شائستہ ہے۔ انہوں نے کہا، ایوانِ وزیرِ اعظم کا انداز قاعدے قانون کے برعکس ہے۔ جناب سرتاج عزیز کو بھارت بھیجنے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں اعلامیہ جاری کرتے ہوئے وزارتِ خارجہ سے مشورہ چاہیے تھا۔ استاد اسی لہجے میں بات کیا کرتا ہے۔ واقعہ یہ ہے‘ میاں محمد نواز شریف اور ان کے میڈیا سیل نے دشمنوں کو پاکستان کا تمسخر اڑانے کا موقع دیا۔ تاریخ میں شاید ہی کوئی دوسری ایسی مثال ہو گی۔
ذلت کے احساس سے دوچار 20 کروڑ کی قوم‘ بیچ چوراہے میں حیران کھڑی پوچھتی ہے: غلطی قابلِ فہم مگر اس پر ملال کیوں نہیں، شرمندگی کیوں نہیں؟ ملک ایک طرف ہے‘ وزیر اعظم اور ان کے فدائین دوسری طرف۔ عمران خاں اور آزاد اخبار نویسوں کو شائستگی کا درس دینے والے کہاں ہیں؟ ترے ضمیر میں ابھری کوئی صدا کہ نہیں؟ ؎
کدھر گئے شبِ ہجراں کے جاگنے والے
ستارۂ سحری ہے انتظار میں کب سے
دو ملکوں کے لیڈر بات کریں تو اتفاق رائے سے مسوّدہ بنتا ہے۔ یہاں میڈیا سیل کے شاعروں نے قصیدہ لکھ دیا۔ ان کا تو کیا بگڑا کہ وضاحت کر دیں گے‘ معافی مانگ لیں گے۔ حریفوں کے خلاف کچھ زیادہ تیزوتند جملے تراش کر تلافی کر دیں گے۔ اقصائے عالم میں جو سبکی ملک کی ہوئی‘ اس کا اندمال کیسے ہو گا؟ ؎
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
شاعر رو دیا تھا: منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے، کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔ آہستہ نہیں یہ دائروں کا سفر ہے۔ بنی اسرائیل کی طرح‘ چالیس برس تک جو صحرا میں بھٹکتے رہے۔ اس لئے کہ قوم سوئی پڑی ہے۔ آغا محمد یحییٰ خان کو اس کے ساتھی جنرلوں نے‘ اس کے حلیف لیڈروں نے، اس کی قوم نے مہلت دی تو ملک ٹوٹ گیا۔ پیدائشی غدار وہ نہیں تھا اور کرپٹ تو بالکل ہی نہیں۔ تصویرِ بتاں کے سوا اس کے گھر میں کچھ بھی نہیں تھا۔ کوئی سمندر پار کمپنی، کوئی سرے محل اور نہ لندن کے فلیٹ۔
نواز شریف کو اپوزیشن لیڈر ''مودی کا یار‘‘ کہہ کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں۔ آزاد خارجہ پالیسی کا خاکہ کوئی پیش نہیں کرتا۔ دشمن کو للکارتا کوئی نہیں۔ کشمیر کو وہ بھول گئے تھے۔ کسی نے ڈھنگ کا ایک سیمینار اور سلیقے کی ایک دستاویز تک مرتب نہ کی۔ حتیٰ کہ کشمیریوں نے افق تابہ افق اپنے لہو سے آفتاب اگا دئیے۔ وہ شتر مرغ ہیں، سب کے سب شتر مرغ۔ شعبدہ باز اور نعرہ فروش۔ ہر روز مجروح ہوتے‘ ہر روز مرتے کشمیریوں کا درد کسی کے دل میں نہیں۔ کوئی آہ کسی سینے سے نکلتی‘ کوئی سیاپا کرتا۔ غم ایک غصے میں ڈھلتا اور ایک طوفان بنتا۔ وقت کے سمندر میں ایک موج اٹھتی۔ قوم کوئی خواب دیکھتی۔ سب کے سب اقتدار کے بھکاری۔
پالے ہوئے، بھوکے پرندوں کی طرح وہ دانا دنکا مانگتے ہیں بلکہ منّ و سلویٰ۔ یہی حال ہم اخبار نویسوں کا ہے۔ سری نگر کی وادیوں پر قیامت بیت گئی۔ سرخ ہو کر چناروں کے پتے آگ اگلنے لگے۔ ہر بستی‘ ہر قصبے میں گنج ہائے شہیداں آباد ہوتے گئے۔ گن پائوڈر چھڑک کر مارکیٹیں نذر آتش کی جاتی رہیں۔ سیب کے باغ اور زعفران کے کھیت اجاڑ دئیے گئے۔ جو باقی بچے‘ ثمر ان کی ٹہنیوں پر سوکھتے‘ درماندہ ہوتے اور پکارتے رہے۔ یارب! کس دیار میں تو نے ہمیں پیدا کیا؟ پیلے پتوں کے ساتھ مٹی میں مل کر ہم مٹی ہو جائیں گے۔ کھاد بن جائیں گے؟
کشمیر کی قیامت صغریٰ پر سلیقے کا ایک تجزیہ اور رپورٹ کسی ایک بھی اخبار میں نہ چھپی۔ دلوں کو گداز اور حرارت عطا کرنے والا ایک پروگرام بھی کسی ٹی وی چینل سے نہ ہو سکا۔ دریائے جہلم کے کنارے‘ پاکستانی پرچموں کے سائے میں‘ کشمیری بچوں کے چہرے خون آلود ہوتے رہے۔ ان کی نیلی آنکھوں میں لوہا اترتا رہا۔ ایک مشال یاسین کے سوا کوئی نہ رویا۔ اس کی ماں کے سوا کسی ماں نے بین نہ کیا۔ کسی باپ کی غیرت نہ جاگی۔ بولے تو افراسیاب خٹک بولے: پڑوسی ملکوں سے اپنے وعدے ہم نے پورے نہ کیے۔ کہا تو اچکزئی نے کہا: پختون خوا‘ افغانستان کا حصہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے مگرمچھ کے آنسو بہائے۔ کشمیری قتل ہوتے رہے۔ فکرمندی ان کی یہ رہی کہ مولانا محمد خاں شیرانی کو ایک بار پھر اسلامی نظریاتی کونسل کا سربراہ بنوا دیں۔ کیسے کیسے جبّہ و دستار ہیں، کوئی نہیں بولتا کہ اس آدمی کو ملک کو نظریاتی نگہبان کیسے بنایا جا سکتا ہے‘ فقہ کی کلاسیکی کتب کا ایک ورق بھی جو پڑھ نہیں سکتا۔ انگریزی کا ایک لفظ سنبھال نہیں سکتا‘ پچھلے دو سو برس کا بیشتر علمی خزانہ، جس میں ہے۔
اتنا ہی میاں محمد نواز شریف نے کیا ہوتا کہ مولانا فضل الرحمن کی جگہ، دردِ دل رکھنے والے کسی متحرک لیڈر کو کشمیر کمیٹی سونپ دیتے۔ ہر روز تحریکیں چلتی ہیں، طوفانی جلسے ہوتے اور جلوس نکلتے ہیں۔ اس پر کیوں نہیں؟ کوئی اپنا گریبان چاک نہیں کرتا، حتیٰ کہ سینیٹر سراج الحق بھی نہیں۔ عشروں سے جن کے ہم نفس وادی کے مقتل میں سربکف کھڑے ہیں۔ بنگلہ دیش میں جن کے پیش روئوں نے کبھی دادِ شجاعت دی تھی۔ کشمیر کو بھول کر وہ بھی پاکستان کی بے ثمر سیاست کا رزق ہو گئے۔ ؎
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
اخبار نویس کا یہ کام نہیں لیکن آئیے سراج الحق صاحب! فریاد و فغاں کرنے والوں کا ایک قافلہ لاہور سے لے کر نکلیں، اسلام آباد کے پریڈ گرائونڈ تک؛ حتیٰ کہ کشمیر کمیٹی کو ایک مرد نصیب نہ ہو۔ اللہ کے بھروسے پر، آپ سے وعدہ ہے کہ پوٹھوہار سے کم از کم دس ہزار اہلِ ہمت کو لے کر آئوں گا۔ ؎
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
''تمہارے‘‘ نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
اگر نہیں، اگر کشمیر کمیٹی کو اس عالمِ دین سے نجات دلانے کے لیے ہم نہیں اٹھتے تو ہم کون ہیں؟ چار سو برس ہوتے ہیں، مولانا فضل الرحمن جیسا ایک شیخ الاسلام شہنشاہ اکبر کے دربار میں ہوا کرتا تھا۔ شاعر شاہ حسین نے ایک پیغام اسے لکھ بھیجا تھا۔ ؎
اندر آلودہ، باہر پاکیزہ تے توں شیخ کہاویں
راہ عشق دا، سوئی دا نکّہ، دھاگہ ہوویں تاں جاویں
ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ پاکستانی کشمیر کو بھلا دیں یا بھارت کو۔ کشمیر اگر پاکستان کا حصہ ہے اور خدا کی قسم اس کا حصہ ہے، تو اسے بھول کر دشمن سے دوستی ہم کیسے کر سکتے ہیں؟
نئی دہلی سے پاکستانی سفیر واپس کیوں نہیں بلا لیا جاتا، جب تک بدتمیزی نہ کرنے کی وہ ضمانت نہیں دیتے۔ دو بلین ڈالر کی بجائے، تجارت کا حجم ایک بلین کیوں نہیں کر دیا جاتا کہ فیض دشمن کو پہنچتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی خوشنودی کے لیے؟ پنجاب اور کراچی کے بھوکے صنعت کاروں کے لیے، جن میں سے ایک کو سستی گیس فراہم کی جاتی ہے کہ لاڈلا ہے۔ پارچہ بافی کی صنعت کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ برآمدات پانچ بلین ڈالر کم ہو گئیں۔ وزیرِ تجارت خرم دستگیر کیا اس لیے برقرار ہیں کہ ذات برادری کا رشتہ ہے؟ اب اس شعر نے معنی کا نیا پیراہن اوڑھا۔ ؎
ہر حال میں میرا دل بے قید ہے خرّم
کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوقِ شکرخند
مایوسی اور توہین میں مبتلا کرکے، قوم کی ہمت توڑی جا رہی ہے۔ کیوں؟ آخر کس لیے؟ کیا ان لیڈروں کو اس دن کے لیے ہم نے پالا تھا۔ امتحان کا وقت آئے تو ان کے ہاتھ خالی اور دل ویران ہوں۔ رزم گاہ کی طرف وہ پیٹھ کرکے کھڑے رہیں؟
جو قوم آئی اے رحمانوں، سیرل المیڈوں، افراسیاب خٹکوں اور محمود اچکزیوں کو گوارا کرتی ہے، ایک دن اسے کسی شیخ مجیب الرحمن کی بھی تاب لانا پڑتی ہے۔ جو قوم اپنی عزت نہیں کرتی، کوئی دوسرا کیوں اس کی عزت کرے ؟