اصول واضح ہے‘ عدل ایک سچی تلوار کی طرح ہوتا ہے‘ صیقل اور آبدار۔ جرم کی جو جڑ کاٹ دے۔ بندے ہی وساوس میں مبتلا اور مخمصے کا شکار ہوتے ہیں۔ اصول میں ابہام کوئی نہیں۔
روز‘ ہر روز بتایا اور یاد دلایا جاتا ہے‘ صرف انصاف ہوتا نہیں‘ ہوتا دکھائی بھی دینا چاہیے۔ خلقِ خدا اسی پر اپنا تاثر قائم کرے گی۔ معاشرے کی یہ فطرت ہے اور فطرت کبھی بدلتی نہیں۔
سوشل میڈیا کے شورش پسندوں کا تو ذکر ہی کیا۔ جتنا بھی وہ ہنگامہ کریں‘ اتنا ہی کم ہے۔ جس کی ذمہ داری کوئی نہ ہو‘ اس کی حد بھی کوئی نہیں ہوتی۔ المیہ یہ ہے کہ بدترین غیر ذمہ داری کا اتنا ہی مظاہرہ سیاسی رہنمائوں نے کیا اور دانشوروں نے بھی۔
پروفیسر ساجد میر ایک سنجیدہ آدمی ہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف کے بارے میں‘ کیسے سنگین الزام پر مشتمل ایک بیان آپ نے جاری فرمایا۔ کمال شد و مد اور اصرار کے ساتھ۔ اگلے ہی دن واپس لے لیا۔ غیر ذمہ داری ہے اور پرلے درجے کی غیر ذمہ داری۔ خود ہی انہیں ارشاد فرمانا چاہیے کہ پہلی بار اس کا ارتکاب کیا‘ دوسری بار یا دونوں دفعہ۔ قوم سے انہیں معافی مانگنی چاہیے‘ بالکل واضح الفاظ میں۔ بائیس کروڑ انسانوں کو وساوس کے حوالے کرکے‘ آرام کی نیند آپ سو کیسے گئے؟
پاناما کیس کی سماعت میں بھی شعار یہی ہے۔ ایسی ایسی قیاس آرائیاں‘ ایسے ایسے الزامات کہ رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ حیران ہوتے رہیے کہ ہر نئی ایجاد‘ جہلا کی تفریح ہوتی ہے اور سوچنے سمجھنے والے کے لیے وہ ایک عذاب بن جاتے ہیں۔
معاملہ نازک ہے۔ فارسی کے شاعر نے کہا تھا: عشق آساں نمود اوّل ولے افتاد مشکلہا...اور غالبؔ نے یہ کہا تھا ؎
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
نازک اور گمبھیر۔ ملک کی تاریخ کے اہم ترین مقدمات میں سے اہم ترین مقدمہ۔ ملک کے مستقبل کا جو فیصلہ کر دے۔ نتیجہ اگر وہ نکلتا ہے‘ کپتان جس کا آرزومند ہے تو شریف خاندان کا سورج‘ ہمیشہ کے لیے ڈوب جائے گا۔ اگر وہ فیصلہ صادر ہوتا ہے‘ سحر و شام جس کی پیشگوئی طلال چوہدری اور دانیال عزیز کرتے ہیں‘ چیخ چیخ کر‘ تو دھچکا تحریک انصاف کو لگے گا۔ ایسا دھچکا کہ آسانی سے سنبھل نہ سکے گی۔
سامنے کا سوال یہ ہے کہ وقت سے پہلے تسخیر کا علم لہرا کر‘ جشن کا اشارہ دے کر‘ کپتان نے کیا حاصل کیا...مقدمے کا التوا؟ ظفرمندی کے جھنڈے لہراتے وہ طلال چوہدری کی سطح پر آ گئے۔ اب طلال کا تو پیشہ ہی حکومت کی وکالت ہے۔ کبھی چوہدری پرویز الٰہی کی گاڑی کے سامنے‘ والہانہ وہ بھنگڑا ڈالتے تھے‘ اب میڈیا سنٹر کے اشارۂِ ابرو پہ۔ اگر تحریک انصاف کے جید لیڈر ان کے مدمقابل بیٹھنے کے خواہاں تھے تو انہیں مبارک ہو۔
ساری توجہ کیس پر مرکوز چاہیے تھی۔ نظر بظاہر یہ ایک مضبوط مقدمہ ہے۔ شریف خاندان بتا نہیں سکا کہ لندن کی جائیداد کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا۔ شاید بتا سکتا ہی نہیں۔ پھبتیاں کسنے والے اپنی ذہانت کے دلائل تراشنے میں کھپاتے۔ باہم جڑے دلائل کا ایک ہار پروتے اور شریف خاندان کے گلے میں ڈال دیتے۔ فتح یا شکست‘ ابدالآباد تک اس ہار کے گل مہکتے رہتے۔ رائے ونڈ روڈ پر‘ خوشبو مسافروں کی بلائیں لیا کرتی۔ ہیجان کے مارے لوگ مگر یہ بات کیسے سمجھیں۔ آدمی کے عظیم ترین المیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی ذہانت اور توانائی کا بڑا حصہ رائیگاں رہتا ہے۔ جنونی کی بات دوسری ہے‘ ہوش مند اس کے متحمل نہیں ہوتے کہ ؎
کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے
غبارِ قیس خود اٹھتا ہے‘ خود برباد ہوتا ہے
بے ثمر مسافت کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ ہاتھ خالی رہ جاتے ہیں اور دل ویران۔ امید کھو دی جاتی ہے۔ زندگی بے برگ و ثمر دکھائی دینے لگتی ہے۔ اس آدمی کا انجام برا اور اس قبیلے کا مستقبل ناپید‘ جس کی کوئی سمت‘ کوئی منزل اور کوئی امید باقی نہ رہے۔
اپنی زندگی آدمی ضائع کرتا چلا جاتا ہے۔ بھلا دیتا ہے‘ فراموش کئے رکھتا ہے کہ وقت ہی سب سے قیمتی دولت ہے۔ اگر اسے کھو دیا تو سب کچھ کھو دیا۔ پھر حسرت و درماندگی رہ جاتی ہے۔ پھر سینہ کوبی ہے اور نا مرادی۔ علاج اس کا بھی ممکن ہوتا ہے۔ سیاست دانوں کا نہیں مگر یہ اہل عرفان کا کام ہے۔ فقط سیاست تو سطحی لوگوں کا کام ہے۔ اقتدار کے بھوکوں کا ؎
اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا
ایک تو وہی بات کہ سپریم کورٹ کے ججوں کو وقفوں کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ انسانی ذہن کی تشکیل پروردگار نے اس طرح کی ہے کہ جتنا بوجھ اس پہ ڈالا جائے‘ اتنی ہی سرعت اور اتنے ہی کمال کے ساتھ وہ بروئے کار آتا اور کبھی تو جادوگری کرتا ہے۔ وقفہ اگر نہ کیا جاتا۔ دونوں طرف کا واجب بار‘ دونوں طرف کے وکلا پر لاد دیا جاتا تو بھرپور توانائی‘ پوری توجہ اور انہماک سے وہ ابھرتے۔ ممکن ہے کہ ان کے جوہر ششدر کر دینے والے جمال کے ساتھ چمکتے۔
معاملے کی نوعیت اور نزاکت کو ججوں نے بھانپ لیا تھا۔ فریقین کے اندازِ استدلال کی خامیاں آغاز ہی میں واضح کر دی تھیں۔ پھر شش و پنج کہاں سے در آیا۔ کیا وہ مخمصے کا شکار ہو گئے۔ شاعر کی طرح ؎
ارادے باندھتا ہوں‘ سوچتا ہوں‘ توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ایسا نہ ہو جائے
ازخود نوٹس لے کر ذمہ داری عدالت عظمیٰ نے قبول کر لی ہے۔ اس کے سوا تمام راستے بند ہیں کہ سپریم کورٹ کے جج اپنے ضمیر اور قانون کی روشنی میں وہ فیصلہ رقم کریں‘ تاریخ کو جس پر مہر تصدیق ثبت کرنی پڑے۔ رائے عامہ کیا‘ مخالفت کیا اور حمایت کیا‘ حکومت کیا اور حکومت کے مخالف کیا ؎
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری
حمایت اور مخالفت کی پروا کئے بغیر‘ ایسا قولِ فیصل رقم ہو جائے کہ آنے والے وقتوں کو نظیر ہو تو اللہ کی رحمت‘ فیصلہ کرنے والوں پہ سایہ فگن ہو گی۔ عزت اور ذلت اگر اللہ کے ہاتھ میں ہے اور یقیناً اسی کے ہاتھ میں تو گمان کیا اور اندیشہ کیا۔ وہ بھی اقتدار کے بھکاریوں سے۔
جہاں تک چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کا تعلق ہے‘ مقدمہ سنا یا نہیں سنا‘ تاریخ میں ان کا تذکرہ ہو کر رہے گا۔ دوسروں سے زیادہ وہ خود جانتے ہیں کہ کس طرح۔ یہ سوال دہرایا جاتا رہے گا کہ سبکدوشی کی تاریخ انہیں معلوم تھی۔ پھر بنچ کا وہ حصہ کیوں بنے۔
حیرت ہے کہ اب تک کی سماعت کو حذف کرنے کا حکم صادر ہوا۔ کیا چیز حذف ہو جائے گی۔ وقت کے ورق سے کبھی کچھ مٹایا نہیں جا سکتا۔ اس میں کوئی ماضی‘ کوئی حال اور کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ دلیلِ کم نظری قصہِ قدیم و جدید۔ تعجب اس پر بھی ہے کہ کھلے عام حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے سامنے‘ کارروائی پر ذمہ دارانہ اور غیر ذمہ دارانہ تبصروں کی اجازت کیسے عطا ہوئی۔ ایسی آزادی تو گائوں کی پنچایت نہیں دیا کرتی کہ دونوں طرف والے اپنے ڈھول بجانے والے‘ اپنے اپنے طلال چوہدری لوگ لے آئیں۔
پاناما کیس کی اصل اہمیت یہ نہیں کہ شریف خاندان کا اقتدار باقی و برقرار رہتا ہے یا ان کی کشتی طوفان میں ڈوب جاتی ہے۔ اس لیے کہ شریف خاندان کے بعد کوئی ٹیپو سلطان‘ کوئی صلاح الدین متوقع نہیں۔ اہمیت اس کی ہے کہ عدل ہوتا ہے اور ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ نہیں۔ سوشل میڈیا اور حکمرانوں کی پسند اور ناپسند نہیں‘ انصاف اور کھرا انصاف۔ سب جانتے ہیں اور جج حضرات زیادہ جانتے ہیں کہ فیصلے بولا کرتے ہیں اور اب کی بار تو چیخ چیخ کر بولیں گے۔ عامی کیا‘ ماہرین کیا‘اب کی بار شاید ہوا‘ پہاڑ‘ بادل اور ستارے بھی خاموش نہ رہیں۔ ایک اعتبار سے یہ بڑی ہی خوش بختی کی بات ہے کہ عدل کے سوا سب قرینے پامال ہیں۔ خالص اور کھنکتے ہوئے انصاف کے سوا کوئی گنجائش ہی نہیں۔ کھوٹے سکّے کا سوال ہی نہیں۔ کوئی مرتکب ہے تو سزا پائے۔ کوئی کاذب ہے تو دھتکارا جائے۔ جہاں جہاں‘ جو جو درست ہے‘ اس کی تصدیق ہو۔ جہاں جہاں‘ جو جو جھوٹا ہے‘ رد کیا جائے اور پوری قوت کے ساتھ۔ انگریزی میں کہتے ہیں That's All ۔ کوئی کتنا ہی بڑا تیس مار خان ہو قانون سے بڑا نہیں ہوتا۔ عدالت سے بڑا نہیں ہوتا‘ اگر واقعی وہ عدالت ہو۔
اصول واضح ہے‘ عدل ایک سچی تلوار کی طرح ہوتا ہے‘ صیقل اور آبدار۔ جرم کی جو جڑ کاٹ دے۔ بندے ہی وساوس میں مبتلا اور مخمصے کا شکار ہوتے ہیں۔ اصول میں ابہام کوئی نہیں۔