وہ ایک اور جہان ہے۔ پہناتا ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں‘ کار کُشا‘ کارساز
اللہ کی کائنات میں کتنا زیاں ہے؟... قبیلوں اور قوموں کی کتنی توانائی کتنے زمانوں تک برباد ہوتی رہتی ہے۔ آدمی کو فرصت ہی نہیں ملتی کہ رک کر سوچے۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے۔ اپنے آپ سے پوچھے کہ جس راہ پر بے تکان وہ بھاگا چلا جاتا ہے‘ اس کی منزل کیا ہے؟... مراد کیا ہے؟ نیک نام پولیس افسر کو زرداری صاحب نے چلتا کیا۔ نازک قومی معاملات کے نگران پانچ آزاد اداروں کو وزیرِ اعظم نے وزارتوں کی زنجیریں پہنا دیں۔
ڈھنگ کے لوگ نہیں رہیں گے‘ زرداری صاحب کے ساتھ۔ کچھ چلے گئے، باقی چلے جائیں گے۔ خرد یہ کہتی ہے کہ ایک دن آئے گا‘ ان سے یہ پنڈ چھڑا لیں گے۔ یہ ادارے میاں صاحب کے دستِ نگر نہ رہیں گے۔ ایک دن آئے گا کہ اقتدار ہی باقی نہ رہے گا۔ یادیں رہ جائیں گی اور حسرتیں۔
آخری دنوں میں‘ ہسپتال کے بستر پر پڑے میاں محمود علی قصوری گاہے پھوٹ پھوٹ کر رو دیا کرتے: اپنی زندگی‘ کن چیزوں میں برباد کر دی۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ ہمارے آج کے سیاست دانوں اور دانشوروں سے بدرجہا بہتر تھے۔ 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے وزیر قانون تھے‘ جب عبوری آئین کی تدوین انہیں سونپی گئی۔ 1973ء کے دستور کو متشکل ہونے میں ایک برس باقی تھا‘ بار بار سول حکمرانوں کو جس سے انحراف کرنا تھا‘ فوجی بوٹوں کو جسے کچلنا تھا۔ صدرِ مملکت اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات پر، تر دماغ بھٹو سے ان کا اختلاف ہوا۔ جی ہاں‘ اپنے عصر کا یہ یگانہ روزگار‘ کچھ عرصہ تاریخ کا واحد سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی رہا۔ ساری زندگی قصوری مرحوم بنیادی حقوق کی جنگ میں جُتے رہے تھے۔ سیاست دان اسیر ہوتے یا ان کی پارٹیوں پر پابندی لگتی تو سیاسی کارکن ان کا دروازہ کھٹکھٹاتے۔ خوش دلی سے یہ دروازہ کھلتا۔ قانون دان، عدالت کے کواڑ کھٹکھٹاتا اور کھٹکھٹاتا چلا جاتا، جب تک زندانوں کے دروازے نہ کھل جاتے۔
عبوری آئین میں صدر کو غیر معمولی اختیارات دینے سے انہوں نے انکار کر دیا۔ صاف اور سچا انکار۔ بھٹو ذہین آدمی تھے۔ بہلانے‘ پھسلانے کی کوشش کی۔ اسے وہ کیا لبھاتے‘ جس کی ساری عمر تنازعات کی گتھیاں سلجھاتے گزری تھی۔ پھر ایک اور پیچ آ پڑا۔ مصطفی کھر نے کہ عمر بھر بگٹٹ رہے‘ ایک عدد ناتراشیدہ بیان قصوری صاحب کے خلاف داغ دیا۔ معمول کا ایک سیاسی حربہ کہ دبائو ڈال کر بات منوائی جائے‘ ہراساں کر کے۔ اُکتا وہ پہلے ہی چکے تھے۔ استعفیٰ لکھا اور ارسال کر دیا۔ انہی دنوں بھٹو لاہور کے دورے پر آئے۔ لارنس گارڈن کے گلستانِ فاطمہ میں کہ‘ ملک بھر میں شاید سب سے زیادہ آراستہ چمن ہے‘ کارکنوں کو جمع کیا کہ مہمیز کریں۔
کارکنوں سے ہمیشہ بھٹو رابطہ رکھتے۔ خوب جانتے تھے کہ پارٹی کی متاع وہی ہوتے ہیں۔ ہوا کا رخ دیکھتے رہنے والے نام نہاد لیڈر نہیں۔ وہ جو اُدھر کی ہوا چلے تو سوشلسٹ ہو جاتے ہیں اور اِدھر کی تو نظریہء پاکستان کے علمبردار۔ اس اجلاس کی رپورٹ مجھے لکھنا تھی۔ خیال آیا کہ وقت کافی ہے، ابھی بجھتی شام ہے۔ صدر صاحب کی تقریر کے نوٹس تو کسی اور سے بھی نقل کئے جا سکتے ہیں۔ قصوری صاحب کا موقف معلوم کیا جائے کہ کہانی مکمل ہو۔ ہائیکورٹ کے پچھواڑے، شتابی سے ان کے گھر کی راہ لی‘ الطاف حسن قریشی نے جسے محل قرار دیا تھا۔ کیا واقعی وہ ایک محل تھا؟... وسعت ضرور مگر آج کے معیار سے‘ اوسط درجے کا ایک مکان۔ سادہ سا فرنیچر‘ کہنہ سے در و بام۔ شوکت مگر سادگی، اپنے مکین کی مانند۔
گول کمرہ کھلا رہتا اور ایک خادم حاضر۔ چند منٹ میں وہ آ موجود ہوئے۔ صدر صاحب کی جتنی تقریر سن چکا تھا‘ اس کا خلاصہ بیان کیا۔ خیال و خواب میں گم‘ چپ چاپ وہ سنتے رہے۔ مصطفی کھر اور قصوری صاحب کے مناقشے کا حوالہ دیتے ہوئے‘ بھٹو نے کہا تھا: تھوڑا بہت اختلاف میاں بیوی میں بھی ہو جاتا ہے ''ہونہہ! میاں بیوی‘‘۔ تشبیہ کے افلاس پر‘ فصیح آدمی بڑبڑایا: جی نہیں‘ یہ میاں بیوی کا اختلاف نہیں‘ اصول کا ہے۔ لائحہء عمل ابھی مرتب نہ کیا تھا۔ آج کل کے باہمت رپورٹروں سے‘ راکھ کرید کر بہرحال جو چنگاری ڈھونڈ نکالتے ہیں، اگر نہ ہو تو خود ڈال دیتے ہیں‘ وہ عہد قدرے مختلف تھا۔ سوال کا جواب مل چکا تھا۔ آدمی کا مزاج معلوم تھا۔ خبر مکمل ہو چکی تھی۔ اجازت طلب کی اور لوٹ آیا۔ خیال و فکر کی پہنائیوں میں وہ گم تھے۔ شیشے میں بال آ چکا تھا۔
دو عشرے کے بعد‘ ٹھیک یہی رسم‘ ان کے فرزند خورشید احمد قصوری نے ادا کی۔ اسی صاف گوئی‘ اسی شائستہ جلال و جمال کے ساتھ۔ نومنتخب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے آئین کی پندرہویں ترمیم کے بل پر‘ جب امیرالمومنین بننے کی آرزو کی۔ چند ہفتے ادھر مدیرانِ اخبارات کی تنظیم کا استقبالیہ۔ ان کے نمائندے کی حیثیت سے جواں سال عارف نظامی نے وزیر اعظم پر آزادیء صحافت کی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ وہ بھڑکے مگر احتیاط کے ساتھ۔ چمکے‘ مگر اتنے ہی کہ وہ بھی جوان وزیر اعظم ہیں۔ انہی دنوں ارشاد کیا تھا کہ 25 برس تک ملک پر وہ حکومت کریں گے۔ پچیس برس کیا‘ تیس ماہ ہی گزار پائے اور اگلی بار‘ سیف الرحمن کی ہمہ وقت بے نیام رہنے والی تلوار کے ساتھ‘ صرف چالیس ماہ۔ سبق سیکھنے کی توفیق البتہ نہ ہو سکی۔ افسوس کہ اب بھی نہیں۔ اب بھی اختیار کی حرص ہے، فرض ادا کرنے کی فکر لاحق نہیں۔
تیرہویں ترمیم کا خلاصہ یہ تھا کہ وزیر اعظم کو دستور کا کوئی بھی حصّہ منسوخ کرنے کا اختیار ہو گا۔ جی ہاں‘ کوئی بھی حصّہ... ایوان وزیر اعظم میں دھرے‘ کاغذوں کے کسی بھی انبار میں سے ایک کاغذ پر‘ چند سطور رقم فرما کر۔ خورشید قصوری اور ان کے ساتھی ڈٹ گئے۔ اس آتشیں تجویز کو ایوان کی روشنی نصیب نہ ہو سکی۔ جگ ہنسائی سے ملک بچ رہا۔
آنکھیں دی ہیں، اللہ نے دماغ بخشا ہے۔ وہ سمجھتے کیوں نہیں؟ وہ ادراک کیوں نہیں کرتے؟ رہنما کی قوت اس کی ساکھ ، اس پر قوم کے بھروسے میں ہوتی ہے۔
قائد اعظمؒ کو کون سا غیر معمولی اختیار حاصل تھا؟ جو حاصل تھا‘ اسے بھی کتنا استعمال کیا کرتے؟ کابینہ کے اجلاسوں میں‘ چائے تک تو پیش نہ کی جاتی۔ مختار مسعود نے لکھا ہے: اتوار کے دن‘ وزیر اعظم چوہدری محمد علی کے گھر پر کابینہ کا اجلاس ہوا تو کھانا ان کی اہلیہ نے خود پکایا۔ کچھ تاخیر ہو گئی۔ چوہدری صاحب نے کہا: باورچی اگرچہ موجود ہے‘ مہمانوں کے باب میں اس پر وہ بھروسہ نہیں کرتیں۔ چپاتیاں پکاتی‘ وہ نمودار ہوئیں اور یہ کہا: آئو‘ بھرائو روٹی کھا لو۔
کالوں کی آزادی کے لیے ابراہم لنکن کی تجویز دستور ساز ادارے نے مسترد کر دی تھی۔ دوسرے صدارتی دور کے اختتام پر ان کے تجویز کردہ جانشین‘ جانسن کو قبول کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ حریف کیا، خانہ جنگی کے پندرہ برسوں میں لنکن کے رفیق بھی ایک کے بعد دوسرا مسئلہ ان کے لیے کھڑا کرتے رہے۔ کبھی نہ بھڑکے۔ فکرمند رہے تو اصولوں کے لیے‘ اقدار کے لیے۔ اپنے عہد کے سارے ہیجان میں کہ ریاست ہائے متحدہ کا مستقبل دائو پر لگا تھا‘ خود ترحمی کبھی ان پہ طاری نہ ہو سکی۔ لوہے کی لاٹھ، تن کر وہ کھڑے رہے۔ اخلاق کا پیکر‘ قوانینِ قدرت کا عارف۔ استدلال‘ اور منطق‘ دلیل اور الفت کے ساتھ‘ تقریباً اپنے تمام اہداف اس نے حاصل کر لیے۔ تاریخ کے ماتھے پر یہ مہتاب دمکتا رہے گا۔
رہنما کی قوت اعتبار سے ہوتی ہے‘ اختیار سے نہیں۔ سرکاری یا درباری دولت کے بل پر جمع کئے گئے ہجوم سے نہیں۔ دینِِ فطرت کی نہیں، ایمان اور توکل کی بات نہیں‘ یہ تو فقط دیانت دارانہ اندازِ فکر سے محرومی کا ماتم ہے۔ بنیاد ہی نہیں تو عمارت کیسی۔ وہ تو ایک اور جہان ہے۔ پہناتا ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں‘ کار کُشا‘ کارساز