زندگی بھی اسی میں ہے۔ دائم باقی و برقرار رہنے والی لافانی زندگی۔ غیب کی آواز سننے والے شاعر نے کہا تھا ؎
ہو اگر خود نگر و خود گَر و خود گِیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
قائداعظمؒ کی خیرہ کن کامیابیوں کا راز کیا ہے؟ غیر معمولی جذباتی توازن ایک اہم پہلو ہے۔ انہیں ایک مضمحل‘ پچھڑی ہوئی اور پریشان قوم کی قیادت کا فرض ادا کرنا پڑا‘ جس پر جذباتیت کا شدید غلبہ تھا۔ ابوالکلام آزاد‘ محمد علی جوہر‘ ظفر علی خان اور عطاء اللہ شاہ بخاری‘ اس ہجوم کے لیڈر تھے‘ خطابت کی جادوگری سے مسحور کر دینے والے۔ معاشی طور پہ پسماندہ اور فرقوں میں بٹے ہوئے۔ جاگیردار ان پر مسلّط تھے یا عبدالغفار خان ایسے علاقائی رہنما جو گاندھی سے مفاہمت کر سکتے تھے‘ مسلمان قیادت سے نہیں۔
اس کے باوجود مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے اپنا قائد انہیں کیونکر تسلیم کر لیا؟ اس کے بہترین لوگوں‘ علامہ اقبالؔ ‘ بہادر یار جنگ‘ مولانا حسرت موہانی اور آخرکار محمد علی جوہر نے بھی‘ ابوالکلام جن سے نالاں رہا کرتے۔ کیسے کڑے تیوروں کے آدمی تھے۔ رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے : بولتے تو یوں لگتا کہ کارخانے میں توپیں ڈھل رہی ہوں یا ابوالہول کی آواز اہرام مصر سے ٹکرا رہی ہو۔ جلسہ عام میں کہہ دیا کہ بدترین مسلمان بھی مہاتما سے افضل ہے۔ یہ کہ ایمان کی دولت کا کوئی بدل نہیں۔ اس ارشاد کی ضرورت کیا تھی؟ غلامی کے طویل مہ و سال کے بعد‘ اظہار کے مواقع ارزاں ہوئے تھے‘ اس میں دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا شعار تھا۔ ترجیحات کا تعین کر کے‘ زینہ زینہ ایک طے شدہ حکمت عملی کو بتدریج بروئے کار لانے کا بہت کم۔
اقبالؔ تک سے الجھ جاتے۔ بھنائے ہوئے‘ ایک بار اقبال منزل آئے اور یہ کہا : تمہاری شاعری پڑھ کر‘ ہم جیل جانے کو تیار ہو جاتے ہیں اور تم یہاں حقہ گڑگڑایا کرتے ہو۔ کہا: پاگل ہوئے ہو‘ محمد علی۔ کبھی قوال کو بھی وجد آتا ہے؟
سبحان اللہ‘ کیا خالص و مخلص‘ بے ساختہ اور بے ریا لوگ تھے۔ آج کے لیڈر کیسے ایک دوسرے سے ملتے ہیں‘ کیسے شائستہ اور والہانہ انداز میں۔ غیاب میں ان کا رویہ کیا ہوتا ہے؟
کیسے کیسے بلند و بانگ ان کے دعوے ہیں۔ سینیٹر سراج الحق سمیت سبھی کشمیریوں کی محبت میں مرے جاتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو مولانا فضل الرحمن سے یہ کہنے کی توفیق نہیں کہ ان حرماں نصیبوں سے تمہارا کیا تعلق؟ ہزار اسباب اللہ نے رزق کے عالی جناب کو دیئے ہیں۔ ان کے لہُو سے لقمہ کیوں تر کرتے ہو؟ نغمہ وہ کوئی اور گاتے ہیں‘ ان کے دلوں میں حسرتیں‘ کسی اور زندگی‘ کسی اور دیار کی ہیں۔
کبھی نہ تھکنے والے‘ سربکف‘ سید علی گیلانی‘ حیرت سے کبھی پوچھتے ہیں۔ پاکستان سے ایسی محبت ہم نے کی۔ اس کا صلہ یہ کیوں ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو ہم پر مسلّط کر دیا۔ وہ آدمی‘ سب سے پہلے جس نے طالبان کو پہچانا اور یہ کہا تھا: پاکستان کی وہ جڑیں کھود رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کی قیادت مخمصے میں تھی۔ سید منور حسن نے‘ جب حکیم اللہ محسود کو شہید کہا تھا۔ سید علی گیلانی کو چاہیے کہ کسی دن سینیٹر سراج الحق‘ عمران خان اور میاں محمد نوازشریف کو فون کر کے‘ براہ راست یہ سوال ان سے پوچھیں۔ کچھ نامور پاکستانی ایڈیٹروں اور دانشوروں سے بھی کہ یہ ہمارے کس گناہ کی سزا ہے۔
افراد کی طرح‘ اقوام کو بھی کنفیوژن مار ڈالتا ہے۔ یہ اقبالؔ تھے‘ پاکستان اور قائداعظمؒ کے بارے میں‘ جن کا ذہن سب سے پہلے اور پوری طرح واضح ہوا۔ شاعر کے آخری برسوں کی روداد ڈاکٹر چغتائی نے لکھی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک پارٹی میں یکجا ہو جانا چاہیے‘ جو مسلم لیگ ہے۔ ایک لیڈر کی قیادت میں متحد ہو جانا چاہیے اور وہ قائداعظمؒ ہیں۔ ایک آدمی سے وہ مسلسل ناخوش رہے۔ اس کا نام حسین احمد مدنی تھا۔ حیرت ہے کہ آج بھی کچھ لوگ انہیں شیخ العرب والعجم کہتے ہیں۔ مفتی محمد شفیع مرحوم نے‘ تحریک پاکستان میں ایک ولولہ انگیز کردار ادا کیا۔ ان کی اولاد اب احساسِ جرم کا شکار ہے۔ دیوبند سے ہر ممکن مفاہمت کی کوشش میں‘ اصلاً جو ایک سیاسی تحریک ہے اور مولانا فضل الرحمن جس کے قائد ہیں۔ وگرنہ فقہ حنفی کا جہاں ِتک تعلق ہے تو مسلم برصغیر کی اکثریت، اسی کی قائل ہے۔ ایک اعتدال اس باب میں خود ان میں بھی کارفرما ہے۔
جب قائداعظم نہیں، وہ مسٹرجناح تھے، تب بھی ان کی ناقابل شکست دیانت، خلوص اوربے باکی کی دھوم تھی۔ اقبالؔ، جوہرؔ اور بہادر یارجنگ سمیت، سبھی پر رفتہ رفتہ منکشف ہوا کہ وہی ایک شحص ہیں، جو انگریز اورکانگریس کو نمٹا سکتے ہیں۔ انہی میں وہ حکمت اور سلیقہ مندی ہے۔ کانگریس کی فیصلہ ساز قیادت کا جواب وہی ہیں۔ مستقل طور پر وہی ڈٹ کر کھڑے رہ سکتے ہیں۔ پھر حسرت موہانی بھی ان سے آ ملے، کبھی جناح کے بارے میں جنہوں نے کہا تھا: اس کا لباس اسلامی ہے اور نہ زبان۔ حتیٰ کہ مولانا ظفر علی خان بھی، جن کے تلوّن کی کوئی حدود نہ تھیں۔
لیڈر وہ شخص ہوتا ہے، جوماضی کو چھان سکتا، حال کے تیور پہچانتا اور مستقبل میں امکانات کے سبھی رنگوں کو دیکھ سکتا ہو۔ گزرے ہوئے ادوار میں نہیں جو آج کی شورش میں زندہ رہتا ہے۔ گزرے زمانوں میں وہ گم نہیں ہوتا۔ اس سے سبق سیکھتا اور اس کے حاصل سے‘ مستقبل تراشنے کی سعی کرتا ہے۔ جو کسی ذات، قبیلے، خطے اور گروہ کا نہیں ہوتا۔ جو بڑی تصویر دیکھتا ہے۔ جس کا کوئی تعصب نہیں ہوتا۔ جو ہر تقسیم سے بالا ہو کر، خود اپنی پسند و ناپسند کی نفی کرکے، تنوع کو اکائی میں ڈھالتا ہے۔ سب رنگوں کا ایک رنگ۔
قائداعظمؒ کا ایک خاندان تھا۔ اس خاندان کی ایک زبان اور کچھ عقائد۔ خاندان تو خیر کہ اس سے آدمی جدا نہیں ہوتا، مگر اس محدود زبان اور ان محدود عقائد سے وہ اوپر اٹھے اور ایک دن بی بی سی کے‘ سوال سے پریشان کرنے پر تلے‘ نامہ نگار کو بتایا: میرا تعلق رحمۃ للعالمینؐ کے مکتبِ فکر سے ہے۔ سبھی مکاتب فکر کے لوگ بالآخر پروانوں کی طرح ان کی طرف لپکے، حتیٰ کہ کچھ دیوبند کے بھی؛ اگرچہ اکثریت نہیں۔ معلوم نہیںکہ اس مکتب فکر کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔ فکری طور پر وہ اعتدال کا علمبردار ہے، گھر لیکن اکثرالگ۔ کیا یہ شخصیت پرستی کا ثمر ہے؟
زندگی کو قائداعظمؒ نے اپنی آنکھ سے دیکھا۔ جو بات غالب ؔنے شاعری کی زبان میں کہی تھی، وہ اپنے عمل میں انہوں نے رقم دی ؎
ہزار دام سے نکلا ہوں، ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
ایسی شاہکار زندگیوں کو اقبال ؔنے ایک دوسرے رخ سے دیکھا۔ ایک دوسری تصویر بنائی ؎
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی؟
فقط ذوق پرواز ہے زندگی
ہم ماضی پرست ہیں‘ قدامت پسند‘ قسمت پر شاکر ۔ اپنے آپ پہ ہمیں ترس آتا ہے۔ پھر وہ احساس کمتری اور مایوسی میں مبتلا کرتا ہے۔ زندگی کو جناح نے بلندی سے دیکھا۔ تضادات کوجھٹک کر وہ بلند ہوگئے۔ اپنے زمانے کو پہچانا۔ غور و فکر کو شعار کیا۔ ایسا ہی آدمی، قیادت، سرفرازی، سرخروئی اور رہنمائی کا اہل ہوتا ہے۔ اعتدال اور رواداری ان کا شیوہ و شعار تھا۔ وہ سبھی کے تھے، سبھی ان کے۔
جاگیردار‘ ملّا اور ترقی پسند، سبھی ان کے خلاف تھے۔ اپنی دنیا انہوں نے خود تراشی‘ نسلِ نو کے جلو میں۔ اپنی غیر معمولی ساکھ‘ ریاضت اور اس خلوص کے ساتھ‘ جس میں کبھی کوئی کھوٹ نہ تھا۔
اپنے عہد کو انہوں نے شکست دی، حتیٰ کہ عظمت ٹوٹ ٹوٹ کر ان پر برسنے لگی۔ اکتسابِ فیض کی اگرتمنا ہو تو ضدی‘ چڑچڑے‘ مرعوب اور ذہنی طور پر غیر سائنسی مسلم برصغیر کے لیے‘ جناح کی زندگی میں ہزار نشانیاں ہیں۔
شعور اور علم کے راستے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ خود سے جدا ہونا پڑتا ہے۔ ایثار کی اس راہ پر، اپنے خلاف ہی جنگ برپا کرنا پڑتی ہے۔ عارف نے کہا تھا: راہِ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتا ہے۔ آج سویر‘ شعر ایک دوست نے لکھ بھیجا ؎
آگہی موت کے برابر ہے
جان جاتی ہے، جان لینے میں
زندگی بھی اسی میں ہے۔ دائم باقی و برقرار رہنے والی لافانی زندگی۔ غیب کی آواز سننے والے شاعر نے کہا تھا ؎
ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے