"HRC" (space) message & send to 7575

کامیابی کا گُر

زندگی امید اور خوف کے درمیان پنپتی ہے۔ وسوسے قطاراندر قطار آتے ہیں۔ فیصلہ مگر ان پر نہیں کیا جاتا۔ بلکہ عزم و ہمت کے ساتھ ‘ سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے ساتھ‘ جوہری جس طرح ہیرا تراشتا ہے۔
قرآن مجید ''طول امل‘‘ کہتا ہے‘ امیدوں کی درازی۔ کتاب کہتی ہے کہ اسی اندازِ فکر سے آدمی‘ خود کو ہلاک کرتا ہے۔ یہ انسان کی فطرت اور سرشت میں ہے۔ اسی کے ساتھ تو اسے لڑنا ہوتا ہے‘ عمر بھر۔ جبلی خواہشات کی وحشت پر قابو پا کر‘ صحیح راستے کا انتخاب۔ درست تجزیہ اور پھر ایک قابلِ عمل حکمتِ عملی۔
یہی وہ بات ہے‘ جو دیوجانسن کلبی جانتا تھا اور سکندرِ اعظم نہیں۔ لکڑی کے بڑے سے ڈبے میں بیٹھا وہ دھوپ سیکتا رہتا۔ شاگردوں کے سوالات سنتا اور جواب دیا کرتا۔ سکندر اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ کہا: ''آپ کی میں کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘۔ ''کچھ بھی نہیں‘‘۔ درویش عالم نے کہا اور بڑا عالم وہی ہوتا ہے‘ علم جسے بے نیازی عطا کرے‘ سادگی بخش دے۔ ''تم میرے غلاموں کے غلام ہو‘‘ اس نے کہا۔ بادشاہ حیرت زدہ رہ گیا۔ تب استاد نے وضاحت کی: اپنی آرزوئوں پر میں نے قابو پا لیا ہے اور اپنی خواہشات کے تم غلام ہو۔ اسی گفتگو کے آخر میں‘ وہ جملہ اس نے کہا تھا‘ اڑھائی ہزار برس سے جو دہرایا جا رہا ہے: بس اتنی مدد تم میری کر سکتے ہو کہ دھوپ کی کرنوں کو مجھ تک پہنچنے دو‘ جن کے راستے میں تم حائل کھڑے ہو۔
شیخ رشید اور تحریک انصاف کے پیمان نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔ پی ٹی آئی کے وکلا کرام نے بھی۔ حامد علی خاں بیزار اور لاتعلق نظر آئے۔ بہت امیدیں نعیم بخاری سے وابستہ کی گئیں لیکن وہی لا ابالی پن ان پہ غالب آ گیا‘ جس کا اندیشہ تھا۔ تحریک انصاف کے ایک ممتاز لیڈر نے جو ان کا بہت مداح تھا‘ مجھ سے کہا: وہ استوار دکھائی نہیں دیتا۔ اس جملے پر غور کرتے کئی دن بیت گئے۔ ابھی تک سمجھ میں نہیں آ سکا ''مقدمہ موکل ہارتا ہے وکیل نہیں‘‘۔ کوئی جنگ‘ امید اور امنگ کے ساتھ لڑی جاتی ہے‘ شکست کا ذکر ہی کیوں؟ صرف تسخیر کا ولولہ ظفرمندی تک لے جا سکتا ہے۔ عملیت پسندی ‘اگرچہ لازم ہے۔ بی بی سی کی لفظ بہ لفظ رپورٹ دیکھیے اور سونامی برپا کرنے کے آرزومند وں کی قنوطیت پہ ماتم کیجیے:
''شریف خاندان کے زیرِ استعمال پارک لین کے فلیٹس کی ملکیت نوے کی دہائی سے تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ پاناما لیکس میں سامنے آنے والی دو آف شور کمپنیوں، نیلسن اور نیسکول نے لندن کے مہنگے ترین علاقے مے فیئر میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی فیملی کے زیر تصرف فلیٹس انیس سو نوے کی دہائی میں خریدے تھے اور اس کے بعد سے اب تک ان کی ملکیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
بی بی سی اردو کو حاصل شدہ سرکاری دستاویزات کے مطابق انیس سو نوے کی دہائی سے یہ چار فلیٹس نیسکول اور نیلسن کے نام پر ہی ہیں اور ان دونوں کمپنیوں کی ملکیت کا اعتراف وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کر چکے ہیں۔
پاناما پیپرز میں نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کی ملکیت کے بارے میں انکشاف کے بعد سے پاکستان میں حکمران جماعت کے سربراہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کو کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے اور انہی انکشافات کی بنیاد پر حزب اختلاف کی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف، جماعتِ اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کی درخواستیں سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرِ سماعت ہیں۔
وزیر اعظم کی فیملی کی طرف سے ان الزامات کے بارے میں جو وضاحتیں اب تک پیش کی گئی ہیں ‘ جن میں قطر کے شہزادے کا خط بھی ہے، اِن کو حزب اختلاف نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور انہیں باہم متضاد قرار دیا ہے۔ حسن نواز کی کمپنیوں پر بھی پارک لین کے فلیٹ کا پتہ درج ہے۔
بی بی سی کو ملنے والی دستاویزات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مے فیئر اپارٹمنٹس کے اسی بلاک میں ایک اور فلیٹ ''بارہ اے‘‘ ایک برطانوی کمپنی، فلیگ شپ انویسٹمنٹ لمیٹڈ کی ملکیت ہے۔ اس کمپنی کی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اس کمپنی کے ڈائریکٹر وزیرِ اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز ہیں۔ فلیگ شپ انویسٹمنٹ نے ایون فیلڈ ہاؤس میں فلیٹ نمبر بارہ اے انتیس جنوری 2004ء میں خریدا تھا۔
برطانیہ میں کاروباری کمپنیوں کا ریکارڈ رکھنے والے سرکاری ادارے کی دستاویزات کے مطابق حسن نواز نے فلیگ شپ انویسٹمنٹ لمیٹڈ کمپنی 2001 ء میں کھولی تھی‘ اور اس پر ان کا جو پتہ درج ہے وہ پارک لین کے فلیٹ کا ہی ہے۔
اس کے علاوہ حسن نواز چار دیگر کمپنیوں کوئنٹ پیڈنگٹن لمیٹڈ، کوئنٹ گلاسٹر پیلس لمیٹڈ، فلیگ شپ سکیوریٹیز لمیٹڈ اور کیو ہولڈنگز لمیٹڈ کے بھی ڈائریکٹر ہیں اور ان سب کمپنیوں پر بھی ایون فیلڈ ہاؤس کے فلیٹ کا پتہ ہی دیا گیا ہے۔
لندن میں جائیداد کی خرید و فروخت کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے سے حاصل کردہ دستاویزات میں مرکزی لندن کے علاقے مے فیئر میں پہلا فلیٹ سترہ ایون فیلڈ ہاؤس، یکم جون انیس سو ترانوے میں نیسکول لمیٹڈ نے خریدا تھا۔ ایون فیلڈ ہاؤس ہی کی عمارت میں دوسرا فلیٹ نمبر سولہ، اکتیس جولائی سنہ انیس سو پچانوے میں نیلسن انٹر پرائز لمیٹڈ نے خریدا۔
جلا وطنی کے دوران وزیرِ اعظم نواز شریف کا قیام پارک لین کے فلیٹس میں ہی رہا۔ اسی عمارت میں تیسرے فلیٹ سولہ اے کی خریداری بھی اسی تاریخ کو عمل میں آئی اور یہ فلیٹ بھی نیلسن انٹر پرائز لمیٹڈ ہی نے خریدا۔ چوتھا فلیٹ سترہ اے23 جولائی 1996ء کو نیسکول لمیٹڈ نے خریدا۔
اس حوالے سے بی بی سی نے وزیر ِاعظم پاکستان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز سے تحریری طور پر رابطہ کیا تھا اور ان سے ان فلیٹس کی ملکیت اور خریداری کی تاریخ سے متعلق اْن کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی لیکن دو ہفتے گزر جانے کے باوجود اْن کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
حسین نواز کو لکھے گئے خط میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ وہ یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ یہ فلیٹ سنہ 2006ء میں خریدے گئے تھے لیکن برطانوی حکومت کے محکمہ لینڈ رجسٹری کے ریکارڈ کے مطابق ان فلیٹس کی ملکیت نوے کی دہائی سے تبدیل نہیں ہوئی ہے، اس حوالے سے ان کا کیا موقف ہے۔
بی بی سی کی طرف سے پوچھے گئے سوالات میں آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کے بارے میں بھی سوال شامل تھا جس میں سب سے اہم بات ان کمپنیوں کی خریداری کی تاریخ کے حوالے سے تھی۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق انیس سو نوے کی دہائی سے یہ چار فلیٹس نیسکول اور نیلسن کے نام پر ہی ہیں۔ یہ وہی فلیٹس ہیں جہاں جلا وطنی کی زندگی بسر کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی یا میثاقِ جمہوریت کو حتمی شکل دی تھی۔
یاد رہے کہ اس سال اپریل میں پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے پاناما پیپرز سامنے آنے کے بعد ایک عوامی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا اور کرپشن کے خلاف احتجاج کے طور پر انھوں نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کو جام کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان پاناما پیپرز میں سامنے آنے والی کمپنیوں اور ان کمپنیوں کو بنانے میں مبینہ طور پر کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات پر مبنی مقدمے کی سماعت کر رہی ہے‘‘
تحریک انصاف اور شیخ رشید مقدمہ جیتنے کے خواہش مند ہیں یا وزیراعظم کی برطرفی کے؟ سپریم کورٹ ان کے حق میں اگر فیصلہ کرتی ہے تو باقی محض تفصیلات ہیں۔ بھرپور دلائل سے ججوں کو قائل کرنے کی بجائے‘ دبائو بڑھانے اور برقرار رکھنے پہ زیادہ توجہ آخر کیوں ہے؟ بے ڈھب اصرار کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ امید اور یقین سے آپ محروم ہیں۔ رونے پیٹنے میں نہیں‘ کامرانی سعی و کاوش میں ہوتی ہے۔ 
زندگی امید اور خوف کے درمیان پنپتی ہے۔ وسوسے قطاراندر قطار آتے ہیں۔ فیصلہ مگران پر نہیں کیا جاتا۔ بلکہ عزم و ہمت کے ساتھ ‘ سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے ساتھ‘ جوہری جس طرح ہیرا تراشتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں