خودشکن ایسے ہی ہوتے ہیں‘ عاقبت نااندیش ایسے ہی۔ سیاسی لیڈر کانٹے بو رہے اور گلاب چننے کے خواب دیکھتے ہیں۔ ملک بالآخر ادبار سے نکل آئے گا۔ رہنما شاید کھیت رہیں۔
معاملے کو وہ الجھاتے چلے جا رہے ہیں ،قوم جب زیادہ مشکلات میں مبتلا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ کی طرف سے دو بار رابطہ کرنے کے باوجود‘ صدر اشرف غنی فضا آلودہ کر رہے ہیں، بلیک میلنگ! بھارتی فوج کے سربراہ نے سرجیکل سٹرائیکس کی دھمکی دہرائی ہے۔ کشمیر سے توجہ ہٹانے کا آرزومند‘ گجرات کا قاتل نریندر مودی‘ پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش پر تلا ہے۔
ٹھیک اسی وقت، وزیراعظم نے ایک عدد وزیر مملکت کی قیادت میں کمیٹی قائم کی ہے کہ کون سی بھارتی فلمیں درآمد ہوں ۔ ان لوگوں کی مجال کیا ہے کہ دربار کی ترجیحات سے انحراف کریں۔ پاکستانی معاشرے کو بھارتی فلموں کی ضرورت ہی کیا ہے۔ بھارتی ڈوموں ‘ میراثیوں اور بھانڈوں کے بغیر‘ کون سا کام ہمارا رکا ہوا ہے۔ غلیظ گانوں اور بازاری زبان پر مشتمل ان فلموں کا جمالیاتی مزاج کیا ایسا ہے کہ بالیدگی عطا کرے؟ہماری فلمی صنعت پھر سے زندہ ہو رہی ہے۔ ایک خاتون فلمساز کو‘ آسکرایوارڈ جو جیت چکی ، ڈیووس میں مدعو کیا گیا ۔ مغرب کے شہ دماغ بھی اس سے متاثر ہیں۔
دنیا بھر میں دو ہزار تک ایسی فلمیں ہیں،ذوق و شوق سے ہمیشہ جو دیکھی جاتی ہیں‘ سماجیات اور تاریخ جن کا موضوع ہے۔ اُردو میں انہیں عام کیا جا سکتا ہے۔ ایران میں بعض شاہکار تصویریں بنی ہیں۔ ترکی‘ جاپان‘ چین اور کوریا میں بھی۔ ثقافت اور ماضی کو منور کرتی ہوئی۔ اصول یہ ہے : خذ ما صفا و دع ماقدر۔ جو اچھا ہے‘ وہ لے لو ، جو ناقص ہے‘ چھوڑ دو۔
ایک سرکاری فلمی ادارے کی ضرورت ہے‘ جیسا بھٹو دور میں
بنا تھا۔ پاکستانی ڈرامہ کبھی ایک لہکتا ہوا استعارہ تھا۔ بھارتی فلمیں چھچھورے پن‘ تشدد اور جرائم کے جواز سے بھری ہوتی ہیں۔ اپنے معاشرے کو اس نے کیادیا ؟سرِ عام خواتین سے درندگی کے واقعات ! گنتی کی کچھ آرٹ فلمیں ہیں۔ اکثر وہ بھی پست ہمتی اور بے بسی کے حوالے کرنے والی۔اپنا دروازہ چوپٹ کھول کر بیباکی‘ بے حیائی اور ژولیدہ فکری کے سوا ہم نے کیا پایا ۔خود اپنی صنعت تباہ کر لی ۔خوش بخت زندگی‘ اپنی ثقافت‘ تہذیب‘ تمدن اور روایات سے جڑے رہنے میں ہوتی ہے۔ درختوں کی جڑیں دھرتی میں ہوتی ہیں اور سماجی و سیاسی اداروں کی تاریخ میں۔ بھارت سے وزیرِ اعظم مرعوب ہیں۔ عام بازاری فلم اور ڈرامہ وہ پسند کرتے ہیں۔ ترکیہ کے وزیراعظم طیب اردوان سے ایک بار انہوں نے اس پر بات کی تو وہ ششدرہ رہ گئے ۔
مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہے ۔ دہلی کے سامنے اب دو راستے ہیں۔ مذاکرات یا ایک قتل عام۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی رہنما کونسل کے رکن یشونت سنہا کی وہ رپورٹ‘ہر کہیں زیر بحث ہے جو کہتی ہے کہ بات چیت کے سوا اب کوئی چارہ نہیں۔ بھارت نواز نیشنل کانفرنس اور بی جے پی کی اتحادی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی سمیت‘ سبھی مذاکرات کے حامی ہیں ۔ ستمبر‘ اکتوبر اور دسمبر میں‘ کشمیر کا دورہ کرنے والی یشونت سنہا کی ٹیم میں تمام بڑی پارٹیوں کے حامی شریک تھے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ صدیوں سے چلا آتا خوف کا حصار ٹوٹ چکا۔ ہر شہر میں اب گنج ہائے شہیداںآباد ہیں ۔ ایک ایک گلی کوچے‘ ایک ایک دیوار اور ہر چہرے پہ چمکتی آنکھوں میں یہ لکھا ہے۔ ؎
آئو کہ میں نے نوچ دی آنکھوں سے غم کی شال
آئو کہ میں نے درد سے بازو چھڑا لیا
تیس برس ہوتے ہیں‘ ایک نثری نظم لکھی تھی۔
سب پہاڑ اور شجر منتظر ہیں/سب آسمان اور ستارے/اپنا سر ہتھیلی پر رکھے/کب سے میں انتظار میں ہوں/ جیسے قربان گاہ قربانیوں کا/اور دہلیز صاحب خانہ کا انتظار کرتی ہے/آسمان جھک کر میرے کندھوں کے برابر آ گیا ہے/ اور زمین اب میرا بوجھ نہیں اٹھا سکتی/آئو‘ آ جائو‘ میں جانتا ہوں‘ تمہیں میرا سر چاہیے۔
اپنے سب سے شیریں کلام آدمی‘ جنرل ناصر جنجوعہ کو ہم نے وحشت زدہ اجیت دوول سے مذاکرات پر مامور کیا۔ اس کا اندازِ فکر یہ ہے کہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر قتل عام کر کے ذہنوں ، زمینوں اور زمانوں کو خوف سے بھر دیا جائے ۔ اگر ایسا ہواتوپاکستان میں بھارت کے وکیلوں سمیت ہر چیز طوفان میں بہہ جائے گی۔ منظر ہی بدل جائے گا۔الطاف حسین مارے گئے۔ ایسے میں باقی بھی رسوا ہوں گے ۔
ایک خونیں شفق آفاق کو محیط ہو جائے گی۔ حکومت پاکستان امن چاہتی ہے مگر جانتی نہیں کہ حاصل کیسے کیا جائے۔لجاجت سے نہیں‘ بیک وقت خوف اور امید پیدا کر کے۔ سو فیصد قابلِ اعتماد ایک ذریعے کے مطابق عسکری قیادت نے جنرل جنجوعہ کو بتایا ہے : بھارتیوں سے کہہ دیجیے کہ نفرت اور کشیدگی ہم ختم کردینا چاہتے ہیں مگربلوچستان میں نقب زنی اور سازش انہیں روکنا ہو گی۔ بھارتی کیا سنیں گے جنرل کی‘ ہمارے وزیراعظم نہیں سنتے۔ تین چار گھنٹے ملک کے ممتاز اخبار نویسوں سے وہ بات کرتے رہے۔ آخر کو ایک سرکاری افسر نے ان کے کان میں سرگوشی کی: ساری گفتگو خفیہ یعنی آف دی ریکارڈ قرار پائی۔ اجیت دوول اور نریندر مودی کے دفاتر کے درمیان ایک دروازہ کھلا رہتاہے ۔ جنرل جنجوعہ کا مختصر سا کمرہ، جی ایچ کیو اور ایوان وزیراعظم سے دور واقع ہے۔ نہیں جناب! اس طرح نہیں ہوتا۔ ان دونوں اداروں کو ان کی پشت پر کھڑا ہونا چاہیے۔ ہمہ وقتی وزیر خارجہ چاہیئے‘ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مگر حکمت و تحمل اور تیاری و تدبیر کے ساتھ حریفوں اور حلیفوں سے جو بات کر سکے۔ وزیراعظم اپنے کاروبار میں کسی کو رعایت نہیں دیتے۔سرکاری لین دین میں‘ ہر بات چینی کمپنیوں کی مان لیتے ہیں۔ بس چلے تو بھارت کی بھی مان لیں۔
ایسی آندھی کشمیر میں اٹھنے والی ہے کہ کچھ دکھائی نہ دے گا۔ عمران خان اور سینیٹر سراج الحق کو توفیق نہ ہو سکی۔ پاکستان اور کشمیریوں کی محبت میں ٹسوے بہانے اور ٹارزن بن دکھانے کے کسی قہرمان کو نہیں۔ دلاور اور بے باک‘ سچے اور کھرے سید علی گیلانی نے آخر کار صاف صاف مطالبہ کر دیا کہ کشمیر کمیٹی سے مولانا فضل الرحمن کو الگ کیا جائے۔ ان کے ہم نفس فضل الرحمن خلیل نے اسی روز یہ کہا کہ آزادی کشمیر کے دشمن‘ حضرت مولانا کو ہٹا نے کے خواہش مند ہیں۔ سبحان اللہ‘کشمیر کے وہ فدائی ہیں اور علی گیلانی مخالف؟ اب مولاناوزیراعظم کوزیادہ عزیز ہیں یا گولیوں کی بوچھاڑ میں سبز پرچم لہرانے والے؟ آزادی کے لیے اپنی آنکھیں بونے والے یا دائم اپنے ٰ مفادات کے خوگر۔
میاں صاحب کو پاکستان کا درخشندہ مستقبل درکار ہے‘ یا محض اقتدار؟کشمیر کا کوئی بھی بے وفا‘ پاکستان کا بے وفا ہو گا۔ ہم نہیں‘ یہ قائداعظمؒ نے کہا تھا : کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ ایسے میں وزیراعظم کو بھارتی فلموں کی سوجھ رہی ہے۔ بھارتی چھچھوروں‘ میراثیوں اور مراثنوں کی۔ پاکستان میں ان کی کیا کمی ہے؟مقتل میں کھڑے کشمیریوں کو کیا یہ پیغام آپ دینا چاہتے ہیں کہ ہمیں تمہاری کوئی پروا نہیں ۔
بے شک انتقام کی خو میں عمران خان بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ چیخ چیخ کر خواجہ سعد رفیق نے آسمان سر پہ اٹھا لیا کہ ذہنی طور پر وہ نابالغ ہیں۔حضور ، آپ اگر بالغ ہیں تو اس قدر چیختے کیوں ہیں؟تحریک انصاف نے اگر آپ کا کچا چٹھہ بیان کرنے کا فیصلہ کر لیاتو کیاہوگا؟ اس سے زیادہ وحشت کیساتھ رانا ثناء اللہ نے فرمایا کہ بھٹو کو پھانسی دینے والے میاں محمد نوازشریف کے درپے ہیں۔ رانا صاحب کیا یہ فرما رہے ہیں کہ سپریم کورٹ اور عسکری قیادت نے ایکا کر لیا ہے؟ عالی جناب کا جواب جاننے کے لیے پانچ گھنٹے کالم میں تاخیر کی ؛حتیٰ کہ سورج ڈوب گیا؛حتیٰ کہ آسمان ستاروں سے بھر گیا۔
خودشکن ایسے ہی ہوتے ہیں‘ عاقبت نا اندیش ایسے ہی۔ سیاسی لیڈر کانٹے بو رہے اور گلاب چننے کے خواب دیکھتے ہیں۔ ملک ادبار سے نکلتا نظر آتاہے ۔ یہ رہنما شاید کھیت رہیں۔