کلیجہ سبھی کا ہوتا ہے‘ سبھی کا پھٹتا ہے۔ دوسروں کی جگہ خود کو رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ سرکار ﷺ کا ارشاد یہ ہے: صبر وہ ہے جو پہلی چوٹ پڑنے پر کیا جائے۔
جنرل راحیل شریف اس وقت کابل میں تشریف فرما تھے‘ جب ان کے نائب کو میں نے فون کیا۔ مؤدبانہ ان کی خدمت میں گزارش کی کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بارے میں افواہوں کی تردید کر دی جائے۔ الزام تھا کہ آسٹریلیا کا انہوں نے قصد کیا تھا۔ راولپنڈی کے ہوائی اڈے پر روک لیے گئے۔ پھر اس پر ردّے چڑھائے گئے کہ گھر پہ انہیںنظر بند کر دیا گیا ہے۔
کردار کشی کی ایک مہم پہلے ہی برپا تھی۔ یہ سبکدوش فوجی افسروں کا ایک گروہ تھا‘ جس کی فرمائشیں پوری کرنے سے جنرل نے انکار کر دیا تھا۔ جنرل راحیل شریف کے نائب کا جواب یہ تھا: اس معاملے میں آپ کو نہ پڑنا چاہیے۔ میں کیوں نہ پڑتا؟ مجھے معلوم تھا کہ یہ جھوٹ ہے۔ جنرل کے بھائیوں پر اعتراضات تھے۔ قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کی جا سکتی تھی۔ بھنا کر میں نے کہا: خدانخواستہ پاک فوج کیا ٹھگّوں اور چوروں کا ٹولہ ہے؟ یہ بھی گزارش کی آج جو سلوک پیش رو کے ساتھ کیا جا رہا ہے، کل وہی ان کے جانشین کے ساتھ ہو گا۔ آئی ایس پی آر نے بہرحال خاموشی اختیار کئے رکھی‘ حتیٰ کہ وزارتِ خارجہ کو تردید کرنا پڑی۔
کچھ دن میں جنرل سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا: بیرون ملک آدمی کیسے جاتا ہے؟ ویزے کے لیے درخواست دیتا ہے۔ سفارت خانے کی مہر لگتی ہے۔ تب ہوائی اڈے کا رخ کرتا ہے۔ ویزے کے لیے میں نے درخواست ہی نہیں دی تو ہوائی اڈے پر کیسے جا پہنچا؟ ہمیشہ کی طرح لہجہ ان کا دھیما تھا۔ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کیا جنرل راحیل شریف ان سے ناراض ہیں؟ چھ برس میں بے شمار اور طویل ملاقاتیں ان سے ہوئی تھیں، مزاج کا ادراک تھا۔ براہ راست سوال کرنے کی بجائے‘ بالواسطہ انداز میں استفسار کیا۔ ان کے جواب نے حیرت زدہ کر دیا: ''مجھے ان کے بارے میں بات نہ کرنی چاہیے‘‘ آزردہ وہ یقیناً تھے مگر خود کو تھام رکھا تھا۔
سچ بولنے کے دعویدار بہت ہیں لیکن سچائی کے اظہار کا ایک وقت ہوتا ہے۔ بے بس ہونے کے بعد تو کسی تیمور، کسی چنگیز خاں کا مذاق بھی اڑایا جا سکتا ہے۔ جنرل کیانی کو گالی دینا تو بہت آسان تھا کہ اکثر وہ خاموش رہتے، اب بھی نہیں بولتے۔
سپہ سالار تھے‘ جب ان کے بھائیوں کے بارے میں اس ناچیز نے بات کی۔ ٹیلی ویژن کے ایک مشہور پروگرام میں پوچھا گیا کہ جنرل کیانی کیا لاہور میں محل بنا رہے ہیں۔ عرض کیا: بالکل نہیں۔ سوال ہوا کہ ان کے بھائی؟ گزارش کی کہ تاثر ان کا خراب ہے۔ اگلے ہی روز ان کے بھائیوں نے مجھ سے رابطہ کیا۔ بڑے بھائی کو بتایا لاہور کی راہ میں ہوں۔ دوسرے کا پیغام ملا اور ایک مشفق و مہربان کے توسط سے۔ اسی روز یا شاید اگلے دن‘ پانچ گھنٹے‘ شب ایک بجے تک اس کی بات سنی۔ پھر اخبار میں لکھا کہ جنرل کے بھائیوں نے ان کی عزت میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ وہ احتجاج کرتا رہا۔ میں نے جواب ہی نہ دیا۔ رائے میری یہ تھی کہ ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی اور پنجاب حکومت کے ساتھ انہیں کام نہ
کرنا چاہیے تھا۔ ان کا کوئی قصور ہو یا نہ ہو‘ الزام جنرل پہ آئے گا۔ اس کالم میں لکھا:''جنرل کیانی کے خلاف، جنرل راحیل شریف کے بعض ماتحتوں کی زبانیں بہت لمبی ہو گئیں‘‘۔
کچھ دن میں جنرل سے مفصّل ملاقات ہوئی۔ انہوں نے شکریہ ادا کیا کہ ایک دوست کی طرح میں نے اپنا فرض پورا کر دیا۔ پھر یہ کہا کہ اپنے بچوں کی طرح اپنے بھائیوں کو انہوں نے پالا ہے۔ چھوٹے کی عمر دو برس تھی‘ جب والد کا انتقال ہو گیا۔ میں جانتا تھا اور خوب جانتا تھا کہ جواں سال کپتان نے کیسا ایثار اپنے خاندان کے لیے کیا ہے۔ بعض اوقات دوپہر کا کھانا تک نہ کھاتے۔ رفتہ رفتہ یہ عادت ہوگئی۔ جب چاہے کھانا کم کر دیتے۔ ایک بار شام ڈھلے ملنے گیا تو انہیں کچھ کمزور پایا۔ پوچھا کیا آپ علیل رہے؟ بولے: بالکل نہیں۔ وزن کم کر رہا تھا۔ ''کس طرح؟‘‘ خیال تھا کہ ورزش بڑھا دی ہوگی۔ بتایا کہ ایک وقت کا کھانا‘ کچھ دن چھوڑے رکھا۔
بھائیوں کے کاروبار سے کوئی تعلق ان کا نہ تھا، میں یہ جانتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جس روز چیف آف آرمی سٹاف کا منصب سنبھالا‘ انہیں بلایا اور یہ کہا: جو کچھ میرے بس میں تھا‘ آپ لوگوں کے لیے میں نے کیا۔ Now I belong to Pakistan army ۔۔۔اب میں فوج کے لیے وقف ہوں۔ صرف پہلے سے طے شدہ وقت پر ان سے ملاقات کرتے۔ 2008ء میں نون لیگ کی حکومت بن چکی تو میاں محمد شہبازشریف سے کہیں ان کی ملاقات ہوئی۔ وزیراعلیٰ نے جتلایا: آپ کا بھائی‘ ہمارے ساتھ کام کر رہا ہے۔ جنرل نے کہا: قاعدے قانون کی وہ پابندی کرے تو ٹھیک وگرنہ Kick him out ۔۔۔ اسے مار بھگائیے۔ میاں صاحب کو بات بڑھانے کی ہمت نہ ہو سکی۔ جنرل نے یہ بھی کہا کہ اپنے بھائیوں کے لیے کبھی کسی شخص کو انہوں نے فون کیا اور نہ رقعہ لکھا۔ مزید یہ کہ کبھی ایک روپیہ بھی ان سے قبول نہ کیا۔ خوددار آدمی کی آواز میں جذبات کی آنچ تھی۔ ایک موقع پر مجھ سے یہ بھی کہا: ہارون صاحب! اس صبر کا کیا فائدہ؟ عرض کیا: اللہ کی کتاب میں لکھا ہے: ان اللہ مع الصابرین‘ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ صرف ثواب نہیں‘ ان کے حق میں وہ ایک پارٹی بن جاتا ہے۔ امتحان سے آدمی گزرتا ہے اور کبھی بہت دن تک۔ آخر کار سچائی کو لوگ پا لیتے ہیں۔ لائبریری میں بہت قریب ہم بیٹھے تھے۔ محسوس کیا کہ اس بات سے کچھ قرار انہیں آ گیا۔
ایک بار جب اکلوتے صاحبزادے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کا میں ذمہ دار ہوں۔ بتایا کہ سروش کیانی کو نوکری ان کی سفارش سے ملی؛ چنانچہ اس کی تنخواہ کے برابر رقم‘ ہر ماہ ایک چیک کے ذریعے فوج کے ایک رفاہی ادارے کو بھیج دیتے ہیں۔ معلوم تھا کہ دبئی کے پرنس محمّد نے مشرق وسطیٰ میں اس کے لیے بندوبست کی پیشکش کی تھی۔ انہوں نے انکار کر دیا۔صرف یہی نہیں ہلیری کلنٹن نے‘ اس شرط کے ساتھ‘ قبائلی علاقوں کے لیے 200 ملین ڈالر کی پیشکش کی کہ روپیہ وہ خود خرچ کریں گے۔ انہوں نے جواب دیا کہ فوج فقط نگرانی کر سکتی ہے‘ منصوبہ حکومت کو بنانا ہو گا۔ اس رقم سے 700کلومیٹر دوہری سڑک تعمیر کی۔ افغان سرحد کا فاصلہ جس سے کئی گھنٹے کم ہو گیا۔ اس کے باوجود اخراجات کم آئے کہ قبائلیوں کو مزدوری دوگنادی گئی۔
میرے ذرائع معتبر ہیں‘ ایک مرحلے پر سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر دینا چاہے۔ شرط وہی تھی کہ جنرل کی مرضی اور منشا سے خرچ ہوں گے۔ صاف جواب انہوں نے دے دیا۔ زرداری اینڈ کمپنی پرعربوں کو اعتبار نہ تھا۔ بعد ازاں 500 ملین ڈالر کا اضافہ کر کے‘ یہی رقم شریف حکومت کو دی گئی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کچھ دن چھپاتے رہے‘ حالانکہ بالآخر قومی بجٹ کا حصّہ بنی۔
جنرل راحیل شریف کو الاٹ کی جانے والی زمین کے بارے میں افسوسناک پروپیگنڈہ مہم جاری ہے۔ کسی بھی قابلِ ذکر اخبار میں شائع ہونے سے پہلے‘ یہ اطلاع میرے پاس موجود تھی۔ جس دوست نے بھیجی تھی‘ اسے میں نے لکھا: جھوٹی لگتی ہے۔ بعد میں یہ بات واضح بھی ہو گئی۔ یہ بھی کہ بدنام کرنے کی مہم میں بعض سرکاری لوگ بھی شامل ہیں۔ حکومت کے حامی اخبارات نے زیادہ اچھالی۔ جنرل کیانی کے برعکس جناب راحیل شریف تاب نہ لا سکے۔ ایک دوست کی زبان سے ٹی وی پر کہلوایا: الزام تراشی سے بہت دکھ ہوا‘ کلیجہ پھٹ گیا۔
کلیجہ سبھی کا ہوتا ہے‘ سبھی کا پھٹتا ہے۔ دوسروں کی جگہ خود کو رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ سرکار ﷺ کا ارشاد یہ ہے: صبر وہ ہے جو پہلی چوٹ پڑنے پر کیا جائے۔