مظلوم اور مضطرب کی وہ دعا سنتاہے۔ کشمیر کی پیاسی دھرتی پہ ابرِ کرم ایک دن برس کے رہے گا۔ مگر ہمارا کیا ہوگا، بے وفائوں کا؟
اسلام آباد کلب میں یٰسین ملک نے اخبار نویسوں سے اچانک سوال کیا: آپ کے خیال میں مقبوضہ کشمیر میں سب سے مقبول پاکستانی لیڈر کون ہے؟ پھر خود ہی بتایا کہ عمران خان۔ اس لیے کہ پاکستان میں وہ مضبوط قیادت کے آرزومند ہیں اور کپتان میں انہیں اس کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس واقعے کی روداد کہی، ربع صدی پہلے سری نگر میں جب ویسٹ انڈیز اور بھارت کے میچ میں چھپائی گئی عمران خان کی تصاویر لہرا دی گئی تھیں۔
یٰسین ملک میرے ساتھ عمران خان کے ساتھ جا کر ملے۔ 2005ء کے رمضان المبارک کا زلزلہ آیا تو فیصلہ ہوا کہ عید کا دن مظفر آباد میں گزارا جائے۔ فرشتہ صفت احسن رشید مرحوم، عمران خان اور یٰسین ملک کے ہمراہ نصف شب ہم اس شہر میں پہنچے، سردار سکندر حیات نے جس کے بارے میں کہا تھا: ایسا لگتاہے کہ میں ایک قبرستان کا وزیرِ اعظم ہوں۔
کتنے برس بیت گئے، عمران خاں نے کشمیر کے لیے کچھ نہ کیا، کچھ بھی نہیں۔ آج بھی ان کی ساری توجہ وزیرِ اعظم نواز شریف کو شکست دینے پر مرکوز ہے۔ نون لیگ کا حال یہ ہے کہ یومِ کشمیر سے فوراً پہلے بھارتی فلموں کی اجازت دے دی گئی۔ درخواست عدالت میں ہے کہ بھارتی ڈراموں کو بھی اذن عطا ہو ۔ پاکستانی قوم اس کے بغیر آسودہ نہیں رہ سکتی ۔ فلم انڈسٹری پھل پھول نہیں سکتی ۔ بھاری بجٹ کی درجنوں فلمیں بالی وڈ نے پاکستان کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے بنائی ہیں ۔ ملک کو ان فلموں کی مارکیٹ بنا دیاگیا تو اس کانتیجہ کیا ہوگا؟گھروں اور دلوں میں
داخل ہو جانے والوں کے اثرات کیا ہوا کرتے ہیں؟ کوئی اپنے دشمن کو گھر میں داخل ہونے اور آنگن میں کھڑے ہو کر کردار کشی کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ ملک کے نجی چینلوں نے وتیرہ بنا لیا ہے کہ بھارتی فلمی سرگرمیوں کا ہر نیوز بلیٹن میں ذکر کیا جائے۔ بعض چینل بھارت کے ساتھ مل کر فلمیں بنانے اور ملک میں ان کی تشہیر کرنے لگے۔ بے شرمی کی کوئی آخری حد بھی ہوتی ہے؟ نہیں ہوتی۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے فرمایا تھا:بے شرم اپنی مرضی کرے۔ ایسے لوگوں کو قانون کا ہاتھ روکتا ہے، ریاست کی قوت۔ اگر وہی غیر متعلق ہو جائے؟ 1980ء کے عشرے سے بھارتی ایجنڈا یہ رہا ہے کہ پاکستان پر ثقافتی یلغار کی جائے، اس میں فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دی جائے اور پاکستان کے فعال طبقات میں اثر و رسوخ پیدا کیا جائے۔
مغرب کے راتب پر پلنے والی بعض این جی اوز اس میں مددگار ہیں۔ بعض کاروباری لوگوں کو چکما یہ دیا گیا ہے کہ پاکستان ڈھب پہ آجائے تو اربوں روپے وہ کما سکتے ہیں۔
بھارتی منڈی ان کے لیے کھلی ہوگی۔ چند افراد کو فائدہ پہنچا کر پاکستانی صنعت کو وہ تباہ کر دینا چاہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ وزیرِ اعظم کی جان کو اٹکے ہوئے ہیں ۔ بھارت کی بعض کاروباری شخصیات سے خود وزیرِ اعظم کے ذاتی مراسم ہیں ۔ بھارت کے ساتھ لین دین کا حاصل کیا ہے؟ ڈیڑھ بلین ڈالر کا فائدہ بھارت کو پہنچتا ہے۔ پاکستان سے ایسی اشیا بھی وہ درآمد کرنے سے گریز کرتے ہیں ، جن کی بے حد مانگ ہے ، مثلاًگھریلو پارچہ بافی ، شلوار قمیض ، بستر کی چادریں ، پردے ۔ فیصل آباد کے ایک ممتاز صنعت کار نے مجھے بتایا : بھارتی سکھ پاگل ہو رہا تھا ۔ اس نے کہا : کنٹینر بھر بھر کے بھجواتے جائیے ۔ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ۔ بھارتی سبزیاں درآمد کرنے کی اجازت دے کر پاکستانی کاشتکار کو تباہ کر دیا گیا، جو کھیت ڈھانپ کر فصل اگایا کرتے ستر ہزار ایکڑ سے سمٹ کر چار پانچ ہزار ایکڑ رہ گئے۔
مقبوضہ کشمیر کے تین عشروں سے مقتل میں کھڑے مسلمانوں کے لیے اگر کسی نے کچھ کیا تو جماعتِ اسلامی نے ۔ ٹھیکے دار بننے کی بجائے تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی ۔ مہاجرین کو سنبھالا اور اس طرح ، جیسے کوئی اپنے اجڑے ہوئے عزیز رشتہ داروں کو سنبھالتا ہے ۔ تب میاں صاحب بھی مددگار تھے۔ اب ان کی ترجیح صرف سیاست اور کاروبار ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کی خاطر کشمیرکمیٹی کا پلیٹ فارم تباہ کر کے رکھ دیا گیا۔ کبھی نواب زادہ نصر اللہ اس کے سربراہ تھے ۔ 1931ء میں تحریکِ آزادیٔ کشمیر میں گرفتاری سے عملی سیاست کا آغاز انہوں نے کیا تھا ۔ پیرانہ سالی کے باوجود سال بھر سفر میں رہتے ۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈر ساتھ لے کر جاتے ۔ حکومت کو چوکنا رکھتے ۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو جانتی تھیں کہ انہیں ٹالا نہیں جا سکتا۔ بات کہنے کا ڈھنگ وہ جانتے تھے ۔ دنیا میں ہر کہیں ان کی سنی جاتی۔
نیلسن منڈیلا بڑے لیڈر تھے ۔ تاریخ مگر شہادت دے گی کہ اپنی استقامت ، شجاعت اور نظریاتی یکسوئی میں سید علی گیلانی ان سے بڑھ کر ہیں۔ صاحب ِ حکمت و تدبیر بھی۔
وقت بدلا تو عسکریت ترک کر کے انہوں نے سیاسی تحریک میں زیادہ انہماک پیدا کیا۔ اب وہ پریشان ہیں ۔۔۔۔ اور میں سنی سنائی نہیں کہہ رہا ۔۔۔۔ کہ حافظ سعید ایسے لیڈر جب آزادیٔ کشمیر کا علم لے کر اٹھتے ہیں تو کشمیری عوام کی پوزیشن خراب ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ بھارت اور مغرب میں انہیں دہشت گرد سمجھا جاتا ہے ۔ اللہ تمہیں عقلِ سلیم عطا کرے ، اللہ کے بندو ، اتنی سی بات کیا تم نہیں سمجھتے کہ سیاست میں تاثر کی اہمیت ہر چیز سے زیادہ ہوتی ہے۔
تنگ آکر علی الاعلان مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں سید علی گیلانی نے کہہ دیا کہ انہیں کشمیر کمیٹی کا چئیرمین نہ ہونا چاہیے۔ وزیرِ اعظم کو کس چیز کا انتظار ہے؟
عمران خان اس پر خاموش کیوں ہیں؟ جماعتِ اسلامی کیا اس لیے مہر بلب ہے کہ پختونخوا میں مستقبل کے انتخابی امکانات میں کمی نہ آنے پائے؟ اپنی عظیم الشان قربانیوں کو کیوں برباد کرتے ہو ۔ یہی روش رہی تو ایک دن اس بڑھیا کی طرح ہو جائو گے، جس نے سوت کاتا اور ادھیڑ پھینکا تھا ۔ وزیرِ اعظم ، کشمیر کے خون میں نہائے مظلوموں پہ ترس کھائیں ۔ مشاہد حسین نہیں تو احسن اقبال ہی کو کشمیر کمیٹی سونپ دیں ۔ بات تو کر پائیں گے ۔ مولانا صاحب دورے سے واپس آتے ہیں تو لطائف ہی سننے کو ملتے ہیں ۔ کبھی ویانا کے شیشے کے عجائب گھر میں کرسٹل کی بگھی سے ٹکرا جاتے ہیں ۔ کبھی جدید قسم کی کسی لفٹ میں ان کا جبہ پھنس جاتا ہے۔ عسکری قیادت کو بھی اللہ کی بارگاہ میں جواب دینا ہے ۔ جنرل باجوہ کو بھی کہ جب میرے بندے، بچّے اور بوڑھے ذبح کیے جا رہے تھے توکم ازکم اپنی سی کوشش کی ہوتی۔
کسی چینل ، حتیٰ کہ سرکاری ٹی وی سے کشمیر پہ ڈھنگ کا کوئی پروگرام نہیں ہوتا ، جسے ہم دس ارب روپے سالانہ ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔ کبھی کیسے اچھے ڈرامے بنا کرتے۔ اب ایک سے زیادہ تھنک ٹینک درکار ہیں۔ حکومت اور سیاسی پارٹیاں اتنا بھی نہیں کر سکیں کہ ڈھنگ کے سیمینار ہی کریں ۔ لٹریچر ہی چھاپیں ۔ سمندر پار پاکستانیوں کو متحرک کریں ۔ مقبوضہ کشمیر میں ہر روز دکھائی دیتی وحشت و درندگی کے کلپ دنیا بھر میں چلا دیں۔
کشمیری ایک دن جیت جائیں گے ۔ درد سے انہوں نے بازو چھڑا لیا ہے ، خودترحمی سے ۔ عوامی تحریکیں کبھی نہیں مر اکرتیں ۔ اللہ کا یہ قانون ہی نہیں کہ خوف سے چھٹکارا پاکر ، پے درپے قربانیاں دینے والے ناکام ہو جائیں۔
مظلوم اور مضطرب کی وہ دعا سنتا ہے ۔ کشمیر کی پیاسی دھرتی پہ ابرِ کرم ایک دن برس کے رہے گا۔ مگر ہمارا کیا ہوگا، بے وفائوں کا؟