''زندگی نہیں ہے‘‘ اس عجیب و غریب شاعر جوش ملیح آبادی نے کہا تھا ''یہ جینے کی نقل ہے‘‘
شہرِ لاہور میں ہر شجر اور ہر شاخ پہ شگوفے پھوٹ پڑے ہیں۔ یہ بہار کا موسم ہے۔جہاں کہیں جانا ہوا‘ پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں سنیں۔ آدمی فطرت سے جتنا قریب ہو‘ اتنا ہی شاد کام رہتا ہے۔زیادہ انحصار گو باطن پہ ہوتا ہے۔ موسم اور ماحول بھی اثرانداز ہوتے ہیں اور کبھی تو بہت زیادہ۔ خواجہ غریب نوازؒ نے کہا تھا:نیکوں کی صحبت نیکی سے بھی بہتر ہے اور بروں کی صحبت برائی سے بھی بدتر۔
انیسویں صدی کے ایک ریڈ انڈین سردار نے اپنے عصر کے امریکی صدر کو ایک خط لکھا تھا۔ دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا۔ اردو میں ایک کوشش ناچیز نے بھی کی تھی۔ ریاست ہائے متحدہ کی حکومت قبیلے کی وسیع و عریض زمین خریدنے کی آرزومند تھی۔ وحشت کا دور گزر چکا تھا‘ جس میں پانچ کروڑ قدیم باشندے قتل کر دیئے گئے۔ افریقہ سے کروڑوں ہی غلام بنا کر لائے گئے۔ اکثریت بحری جہازوں میں دم توڑ گئی۔ ابرہام لنکن کا دور بیت گیا تھا۔ امریکی سرزمین تہذیب اور قانون سے اب آشنا تھی۔
پیغام کے جواب میں ریڈ انڈین سردار نے کہا : دریا‘ چٹانیں اور ساحل ہمارے بھائی ہیں۔ آپ عجیب لوگ ہیں۔اپنے اجداد کی قبروں کو پیچھے چھوڑ آتے ہیں اور نئی زمینیں اغوا کرتے ہیں۔ اپنے کھیت اور کھلیان وہ حکومت کے سپرد کرنے پر آمادہ تھا جن کا اب معاوضہ دیا جاتا۔ رنج یہ تھا کہ جنگل کاٹ دیئے جائیں گے۔ پرندے ہجرت پر مجبور ہوں گے۔ ریلوے لائن بچھا دی جائے گی‘ آہنی گھوڑے‘ یعنی انجن اور ڈبے ہزاروں برس سے چلی آتی مقدس خاموشی کو ہمیشہ کے لئے تحلیل کر دیں گے۔ ''اگر پتوں کو جھومنے بجنے کی آواز سنائی نہ دے اگر چہرے تازہ ہوا کا لمس محسوس نہ کریں تو زندہ رہنے کے کیا معنی ہیں۔ عقاب کہاں ہیں؟ وہ چلے گئے۔ زندگی ختم ہوئی‘ اب تو محض جینا ہے‘‘۔
سیاست کا وہی موسم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پرندوں‘ ندیوں‘ دریائوں‘ چشموں اور نہروں کے پانیوں کے سوا‘ ہر چیز عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی منتظر ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ پہاڑ اور شجر بھی۔ سینیٹر سراج الحق کا جملہ فضا میں گونج رہا ہے: ''ہم عدالت کی طرف دیکھتے ہیں اور عدالت کو اللہ کی طرف دیکھنا چاہیے‘‘۔
ایک اور فیصلے کا انتظار بھی ہے۔ شریف خاندان کی ملیں‘ شکر کے کارخانے‘ حتمی طور پر طے ہوا چاہتا ہے کہ جنوبی پنجاب میں برقرار رکھنے کا اذن ملے گا یا نہیں۔ نیشکرکے دلآویز کھیتوں کے بارے میں سوچتے ہوئے‘ جسے اب گنا کہا جاتا ہے‘ یہ دیہاتی اپنے بچپن کی دنیا میں جا نکلا۔ تبدیلیوں سے مفرنہیں‘ صرف احمق ہی ماضی میں زندہ رہتے ہیں۔ مگر کیا یہ بھی لازم ہے کہ گزرے ہوئے کل اور آج کے حسن کو برباد کر کے ہی مستقبل کی نیو اٹھائی جائے۔ ترقی کے سفر میں کیا بے رحمی بھی ضروری ہے۔ کیا مجبوری ہے کہ سرسبز کھیتوں کی جگہ سیمنٹ اور سریے کے پہاڑ ہی کھڑے کئے جائیں۔ رحمتہ للعالمینؐ نے ارشاد کیا تھا کہ شہروں کو بہت نہ پھیلا دینا۔ بے شمار حکمتیں اس فرمان میں پوشیدہ تھیں۔ دولت مندی کی تمنا میںتعجیل اور ہیجان سے آدمی کو کیا ملا؟ مشین برحق‘ ہر گزرا دن نئی مشین‘ نئی ٹیکنالوجی لے کر آئے گا۔ یہ مگر کس نے کہا کہ درختوں‘ پرندوں‘ پانیوں اور پہاڑوں کو برباد کر دیا جائے۔ ازل سے وہ آدمی کے رفیق ہیں۔صرف ایک صدی قبل‘ لاہور کے ماڈل ٹائون کی جگہ‘ ایک جنگل تھاجہاں شہر کے لوگ ہرنوں کا شکار کھیلنے جایا کرتے۔ آبادیوں کے درمیان کچھ جنگل اور کھیت کیوں برقرار نہیں رہ سکتے۔ جس طرح کہ اسلام آباد‘ ملائیشیا اور برازیل کے نئے دارالحکومتوں اور جرمنی کے بعض شہروں میں۔ بنگلہ دیش سے انڈونیشیا تک‘ مشرق بعید کے ممالک بچ نکلے ہیں۔ افریقہ کے بعض خطے بھی۔ یورپ اور ایشیا میں عام طور پہ بہت بربادی ہوئی۔
سوشل میڈیا پہ ایک اچھا رجحان پروان چڑھا ہے۔ قدرتی مناظر کی تصاویر جاری کرنے کا۔ پرسوں پرلے روز رئوف کلاسرا نے‘ اس سے پہلے طلعت حسین اور عامر متین نے کچھ دلآویز مناظر دکھائے۔ پندرہ بیس دن ہوتے ہیں‘ کسی گمنام نے کھیتوں کا ایک منظر شائع کیا۔ موضوع کچھ اور تھا مگر حدّ نظر تک سبزے کی بہار۔ کچھ دیر کے لئے دل اس طرح بھر آیا کہ خود اپنے آپ پر تعجب ہوا۔ آدمی نے کیا چھوڑ دیا اور کیا اختیار کیا۔ صحت بخش‘ پاکیزہ ہوا اس نے کھو دی‘ پینے کے صاف پانی سے محروم ہوا۔ طلوع آفتاب‘ غروب آفتاب‘ ستاروں کی ضیاء اور چاندنی سے محروم ہوا۔ بدلے میں اسے کیا ملا؟ شاہراہوں پر پھیلا ہوا ڈیزل اور پٹرول کا دھواں اور اعصاب شکن شور۔ ترقی کا عمل تازہ ہوا اور سبزے کے ساتھ بھی جاری رہتا۔ وادیٔ فرغانہ سے آنے والے مغلوںکو اس کا شعور تھا۔ ان کے عہد میں لاہور کا بیشتر نواح باغات اور کھیتوں پر مشتمل تھا۔ شالیمار باغ انہی کی یادگار ہے؛ اگرچہ درجنوں دوسرے باغات مٹ گئے۔ دور دیس سے آنے ولے انگریزکو بھی احساس تھا۔ لارنس گارڈن انہی کی نشانی ہے اور کیا ہی اچھی نشانی ۔ آخری آدمی شاید جنرل جیلانی تھے‘ جنہوں نے لاہور کو فوارے اور باغات بخشے ۔ شریف برادران کا تحفہ سیمنٹ اور سریے کے کوہستان ہیں۔میٹرو بس بجا اور میٹرو گاڑی بھی۔ زندگی کے باقی اطوار بدلتے ہیں تو سفر کے قرینے بھی۔ اگر حیات کا جمال ہی رخصت ہوا تو کیا بچا۔
یہ جان کر دکھ ہوا کہ میاں شہبازشریف اب بات نہیں سنتے۔ میرا اندازہ ہے کہ کاروبارِ سیاست نہیں‘ کچھ اور چیزیں ان کے لئے وبال ہیں۔ تیرہ برس ہوتے ہیں‘ جدہ میں ان سے عرض کیا تھا کہ کمر کی تکلیف کا شافی علاج ہومیوپیتھی میں ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو معجزہ ہو جاتا ہے۔ جدہ میں ہمارے مہربان عاشق صاحب فرش پہ لیٹے تھے۔ ڈاکٹر محمد رفیق مرحوم سے علاج کرایا۔ مرض کا نام و نشان تک نہ رہا۔ میاں شہبازشریف نے اور بھی بہت سے بکھیڑے پال رکھے ہیں اور ہر ایک بلائے جان۔ سکھ کی نیند نہ سوئے تو سحر کی تازگی کیسے نصیب ہو۔ کسی نے بتایا کہ گھر میں بھی ایک پنج ستارہ ہوٹل کا کھانا کھایا جاتا ہے۔ افسوس‘ افسوس! بھوک کے علاوہ خورونوش کا تمام لطف تازگی میں ہوتا ہے۔ پولیس کو وہ بہتر نہ بنا سکے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اصرار پر‘ رینجرز کو بلانا پڑا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا کردار بڑھتا جائے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ پولیس اور بھی پچک جائے گی۔ آئی جی مشتاق سکھیرا صاحب کو ذاتی طور پر میں جانتا ہوں۔ پہلے بھی دبے رہتے ہیں۔ اور بھی دب جائیں گے۔ فوجی قیادت کو بھی یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ زیادہ اور مسلسل مداخلت سے سول ادارے کی باقی ماندہ تب و تاب بھی ختم ہو جائے گی۔
فوج سے مدد لینی چاہیے مگر اس طرح جیسے گزشتہ صدی میں فرانس نے اپنے تباہ شدہ تعلیمی نظام کو بحال کرنے کے لئے حاصل کی تھی۔ عدالت اور سول سروس کو موثر ہونا چاہیے۔ سیاسی پارٹیوں کو ایک نظام کے تحت کام کرنا چاہیے۔ کسی دیوتا کے سائے میں نہیں۔ جماعت کے طور پر تحریک انصاف کا حال بھی پتلا ہے مگر پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو ادراک ہی نہیں کہ جس شعار پر وہ گامزن ہیں‘ مستقبل میں ان کی سیاست وہ دفن کر دے گا۔ فوجی عدالتوں کی بحث کے ہنگام عسکری قیادت کو زرداری صاحب نے پیغام بھیجا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کے باب میں نرمی کی جائے۔ کیسے وہ کر سکتے ہیں؟ اگر کریں گے تو عزیر بلوچ اور باقیوں سے کیوں نہیں؟ پھر تمام مجرموں سے کیوں نہیں؟ شریف خاندان کے شہزادے اور شہزادیوں کے درمیان مقابلے کی دوڑ جاری ہے۔ اپنے اپنے حامی سمیٹے اور اپنے اپنے گروپ بنائے جا رہے ہیں۔ سامان سو برس کا ہے‘ پل کی خبر نہیں۔ کپتان نے اتنا تو کیا کہ قانون کے دائرے میں پولیس کو آزاد کر ڈالا اور پٹوار کو لگام ڈال دی۔ شریف خاندان شوگر ملوں کو بچانے میں لگا ہے۔ کیسے بچیں گی؟ فرض کیجئے قانون برقرار رکھے تو عوامی ردعمل کیسے رُکے گا؟اندھا دھند چھاپے مارے جا رہے تھے۔ یونانی دوا سازوں کا وفد میاں شہبازشریف کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ناراض ہوئے اور کہا : میں کینسر کا مریض ہوں۔ اگر میں دنیا سے چلا گیا تو آپ بچیں گے وگرنہ ہرگز نہیں۔ ایک دو اور وفود سے بھی یہی بات کہی۔
''زندگی نہیں ہے‘‘ اس عجیب و غریب شاعر جوش ملیح آبادی نے کہا تھا ''یہ جینے کی نقل ہے‘‘