قیام امن کے لئے پاکستان اور افغانستان کو ایک نیا معاہدہ درکار ہے۔ قوموں کے باہمی مراسم کا انحصار محض‘ باہمی مفاد نہیں‘ جغرافیائی تشکیل‘ تاریخی عمل اور عصری ماحول کے علاوہ باہمی سمجھوتوں پر بھی ہوتا ہے۔
ایک ہزار برس سے قابلِ عبور چلی آتی‘ پاک افغان سرحد کو بند کرنے کا بالاخر فیصلہ کر لیاگیا۔ تاریخ ایک نیا موڑ مڑ گئی ہے۔ مستقبل پر اس اقدام کے غیر معمولی اثرات مرتب ہونے والے ہیں۔ یہ دو اقوام کے الگ الگ نشوونما پانے کا آغاز ہے‘ پاکستان اور ایران کی طرح۔ ایک دوسرے کے پڑوسی تو وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ایک دوسرے کے امور میں نقصان پہنچانے والی غیر ضروری مداخلت‘ وقت گزر جانے کے ساتھ کم ہوتی جائے گی۔ علم و شائستگی فروغ پا سکی‘ تاریخی عمل سے اگر وہ کچھ سیکھ سکے‘ تو ایک دوسرے کے لیے مسائل پیدا کرنے کی بجائے‘ باہم مددگار بھی ہو سکتے ہیں۔ سرحدوں کی ایک تقدیس ہوتی ہے،جو قوم ادراک نہیں رکھتی، امن اور استحکام ہی نہیں اپنی کچھ تکریم بھی اسے کھونا پڑتی ہے۔باہم انہیں بات کرنی چاہیے بالآخر دونوں اقوام کی تقدیر ایک ہے۔ پرلی طرف روسی اقوام ان کی خیر خواہ ہیں اور نہ گنگا جمنا کی وادیوں کے برہمن۔
تین ہزار برس پہلے‘ بلادِ شام سے ہجرت کرنے والے افغانوں کے آبائو اجداد نے کابل اور اس کے گردونواح کا انتخاب اس لیے کیا تھا کہ دشوار گزار علاقے تھے۔ ایران‘ شام‘ اردن اور لبنان کے وحشی حکمرانوں سے وہ امان پا سکتے تھے۔ ان میں سے کچھ اس دیار میں روک لیے گئے‘ بعدازاں جسے اصفہان کہا گیا۔ دراصل یہ اسپاہاہان تھا‘ گھوڑوں والے۔ دس ہزار سے زیادہ مظلوم قیدیوں کو شاہی خیمہ و خرگاہ کی خدمت پہ مامور کر دیا گیا۔ یہ بخت ِنصر کا عہد تھا‘ اصل نام جس کا باالطشتنر ہے۔ وہ آدمی جس نے ایک خواب دیکھا۔ دانیال علیہ السلام نے‘ تعبیر ہی نہیں‘ فرمائش پر سپنا بھی بیان کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا : بادشاہ ! دیوار پر تونے لکھا پایا ''تجھے تولا گیا اور تو کم نکلا‘‘ بادشاہوں کی اکثریت ایسی ہوتی ہے۔ خلق خدا کے لیے اکثر وہ ان کے بداعمال کی سزا ہوتے ہیں۔
کہانیوں کی بات دوسری ہے‘ محمود غزنوی کے عہد تک ‘ خراسان کی وادیوں میں سے بعض نے اسلام قبول نہ کیا تھا‘ جس طرح کہ پانچ سو سال پہلے تک‘ ان کے عم زاد کشمیریوں نے۔ ایران سے آنے والے شاہ ہمدانؒ نے جن پر علمی اور اقتصادی انقلاب کا دروازہ کھولا۔ شاہ ہمدانؒ ہی تھے‘ جو اپنے ساتھ قالین بافی‘ شال سازی اور پیپر ماشی کے ماہرین لے کر آئے۔ دستکاری کے سینکڑوں اساتذہ‘ جنت نظیر وادی کے مکینوں کو جنہوں نے ہنر سے مالا مال کیا۔ شاہ ہمدانؒ کی آمد کو ایک صدی بھی نہیں گزری تھی کہ کشمیری شال کو‘ پارچہ بافی کی صنعت میں‘ ایک افسانوی حیثیت حاصل ہو گئی۔ ایشیا میں دور دراز کی سرزمینوں‘ حتیٰ کہ یورپ کے رئوسا اور شاہی خاندان‘ ان کے آرزومند رہنے لگے۔
قوموں کی تقدیر میں کبھی جغرافیہ بھی فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ دنیا کے سب سے اونچے میدان‘ وادیٔ کشمیر کے باسی‘ دیگر فنون کے علاوہ مصوری اور موسیقی کی طرف مائل ہوئے۔شمال کے حملہ آوروں کی زد میں رہنے والا افغانستان ایک اور سمت پروان چڑھتا رہا۔ نسل در نسل اس نے جنگجو جنے ۔پنجاب کے میدانوں میں‘ ہندوئوں کی حکومت تھی‘ ایک ہزار سال قبل لاہور میں آنندپال کی۔ ٹیکسلا اور پشاور سے گزر کر‘ جو تین ہزار سال سے آباد چلے آتے تھے‘ پہاڑی بستیوں کے مکینوں پہ وہ چڑھ دوڑتے۔
انقلاب غزنوی عہد میں رونما ہوا۔ محمود کے والد سبکتگین کے دور تک‘ یلغار اِدھر سے ہوا کرتی۔ محمود نے ہندوستان پہ سترہ حملے کیے اور ہندو شاہی کی کمر توڑ دی۔ بعد کی صدیوں میں ہندوستان کی طرف سے‘ اس سرزمین پر حملے کا کوئی قابل ذکر واقعہ آٹھ سو سال تک رونما نہ ہوا ؛ تاآنکہ رنجیت سنگھ نے کابل کا رخ کیا۔ یہ مغل دور کا ردِعمل تھا ۔ایک کے بعد دوسرے بادشاہ نے جب اس نئے مذہبی گروہ کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی۔ وہ دریائے راوی‘ سندھ‘ چناب اور ستلج کے درمیان وسیع و عریض جنگلوں میں جا بسے۔ بقا کی جبلت نے انہیں تھامے رکھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ سخت جان ہوتے گئے‘ حتیٰ کہ برصغیر کی جنگجو اقوام میں نمایاں ہو گئے۔
پاکستان کے مقابلے میں افغانستان یقیناً ایک قدیم ملک ہے‘ باایں ہمہ اس کی عمر صرف اڑھائی سو سال ہے۔ مدتوں وہ ایران کا حصہ رہا۔ اس کے باوجود کہ افغانستان میں آدھی آبادی آج بھی فارسی بولتی ہے‘ دونوں اقوام ایک دوسرے کو ناپسند کرتی ہیں۔ ہمیشہ سے قوم پرستی اور خود پسندی کی لت میں مبتلا ایرانی شعرا‘ افغانوں کا مذاق اُڑاتے آئے ہیں۔
جوشؔ ملیح آبادی اور شورشؔ کاشمیری میں چھیڑ چھاڑ کے بعد دونوں میں مصالحت ہو گئی تھی۔یہ 1971ء کا ذکر ہے کہ ایک دن جوش صاحب کو میں نے چٹان بلڈنگ کی سیڑھیاں چڑھتے دیکھا‘ جب میں نیچے اتر رہا تھا۔'' آغا صاحب کا کمرہ کہاں ہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔ تعجب ہوا‘ مگر احترام کے ساتھ‘ وہاں تک انہیں لے گیا۔ شورشؔ نے لکھا تھا ۔؎
جوشؔ ستّر برس کا لڑکا ہے
جوشؔ برقِ ہوس کا کڑکا ہے
اچانک آغا جی کے کمرے میں وہ داخل ہوئے تو اپنی چارپائی سے وہ سروقد اٹھے۔ جی ہاں‘ کرسی نہیں‘ وہ چارپائی پر بیٹھا کرتے۔ کرسیوں پر ان کے مہمان اور ماتحت ۔نہایت ادب کے ساتھ استقبال کیا۔ پھر کئی دن کشمیری چائے اور کشمیری کھانوں کا دور چلتا رہا۔ کشمیری کے لہو میں میزبانی تھی۔ ملیح آباد کا پشتون شاعر انسانی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا ہنر جانتا تھا۔پاکستان اور بھارت کی افواج‘ سرحدوں پرمدِّمقابل کھڑی تھیں۔ چٹان کے سرورق کے لیے جوشؔ نے ایک رزمیہ نظم لکھی‘ بھارت کو للکارتی ہوئی۔ بزرگ شاعر زود نویس تھا، ایسی قدرتِ کلام کہ دیکھنے‘ سننے والا دنگ رہ جائے۔
اس سے قبل‘ ایک مضمون‘ انہوں نے اپنے اور آغا جی کے نو تشکیل تعلق پر لکھا۔ جیسا کہ ان کا مزاج تھا‘ چھیڑ چھاڑ کئے بغیر وہ رہ نہ سکتے تھے۔ اپنا مذاق اڑایا اور کچھ آغا صاحب مرحوم کا۔ اس میں سعدیؔ کے ایک شعر کا حوالہ دیا۔ جس میں تین اقوام کا ذکر تحقیر کے ساتھ تھا۔ اوّل‘ افغان‘ دوم کمبوہ‘ سوم کشمیری۔ کیا وہ ایسا کر سکتے تھے؟ اساتذہ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ غزل کے عظیم شاعر اور ایک صاحب ادراک دانشور تھے۔ برصغیر میں ان کی حکایات کا ذکر زیادہ ہے اور شاعری کا کم۔ درآں حالیکہ شعر‘ انہوں نے کمال کا لکھا ہے۔ اقبالؔ کے فارسی کلام پر اس کی چھینٹ پڑتی دکھائی دیتی ہے۔؎
صبا بہ لطف بگو آں غزالِ رعنا را
کہ سر بہ کوہ و بیاباں تو دادہ ای ما را
چو باحبیب نشینی و بادہ پیمائی
بیاد دار‘ محبان باد پیما را
اس غزال رعنا سے‘ ادب کے ساتھ عرض کرنا کہ تو نے مجھے کوہ و بیاباں کے حوالے کر دیا۔ جب تم اپنے حبیب کے ساتھ مجلس آرائی کرو اور بادہ نوشی تو انہیں یاد کرنا‘ ہوا کے ساتھ جو چلے گئے۔ خیال ہوتا ہے کہ انگریزی زبان کا محاورہ "Gone with the wind" اسی سے لیا گیا ہے۔ فارسی شاعری فرنگ کے لیے اجنبی تھی‘ مگر ایسی بھی کیا اجنبی کہ سعدیؔ سے یکسر نا آشنا ہو۔ زبانیں باہم متاثر ہوا کرتی ہیں۔ جاپانی زبان کا پجیرو‘ ہندی کا پکھیرو ہے۔
ایسے صاحب ادراک شاعر کے ضمیر پر کیا یہ نکتہ آشکار نہ ہو گا کہ کردار‘ قوموں اور قبیلوں کا نہیں‘ خاندانوں کا بھی نہیں‘ افراد کا ہوتا ہے۔ پانچ سات سگے بھائیوں میں ہر کوئی دوسروں سے مختلف کیوں ہوتا ہے؟ خیال و افکار اور اعمال میں۔یہ صرف جینیاتی تشکیل نہیں۔ اس کے سوا بھی بہت کچھ ہے‘ اساتذہ‘ کتابیں اور رفاقت۔ انسان ایک پیچیدہ مخلوق ہے۔ کبھی شاعر بھی اسے سمجھ پاتے ہیں۔ ظفر اقبال کا شعر یہ ہے : ؎
دل کا یہ دشت عرصۂ محشر لگا مجھے
میں کیا بلا ہوں‘ رات بڑا ڈر لگا مجھے
قیام امن کے لئے پاکستان اور افغانستان کو ایک نیا معاہدہ درکار ہے۔ قوموں کے باہمی مراسم کا انحصار محض‘ باہمی مفاد نہیں‘ جغرافیائی تشکیل‘ تاریخی عمل اور عصری ماحول کے علاوہ باہمی سمجھوتوں پر بھی ہوتا ہے۔ بات ادھوری رہ گئی‘ اس پر انشاء اللہ کل!