جتنے آپ بزدل ہوں‘ دشمن اتنا ہی بہادر ہوتا ہے۔ جس قدر شجاعت کا آپ مظاہرہ کر سکیں‘ حریف اتنا ہی پست ہمت... جنرل قمر جاوید باجوہ کے امتحان کا وقت آ پہنچا ہے۔
وزیر اعظم کے حوالے سے یہ تاثر پہلے سے موجود اور گہرا ہے کہ قومی سلامتی کے تقاضوں کی انہیں کوئی پروا نہیں۔ کراچی میں قیام امن کے راستے میں پیپلز پارٹی رکاوٹ رہی تو ہرگز کوئی اعتراض میاں صاحب محترم کو نہیں تھا۔ اے این پی کے لیے وہ نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ حضرت مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کو گود میں بٹھا رکھا ہے۔ فاروق ستار اینڈ کمپنی کے لیے غیر معمولی تپاک وہ رکھتے ہیں‘ ہزاروں بے گناہوں کو قتل کرنے والے الطاف حسین کے جو دست و بازو رہے۔ اس کے لیے تاویل تراشتے اور دل و جان سے اس کا دفاع کرتے رہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کے اس پتھر دل کارندے کا۔ جس چیز سے آدمی کو محبت ہو‘ اس کے لیے وہ عصبیت رکھتا ہے۔ وہ اس کی غیرت کا حصہ ہوتی ہے۔ پاکستان کو گناہ قرار دینے والے کٹھ ملائوں اور پاکستانی صوبوں کو افغانستان کا حصہ بتانے والے مشکوک لیڈروں سے میاں صاحب کو کبھی شکوہ نہیں ہوتا تو پاکستان سے ان کی محبت پر یقین کیسے کیا جائے؟ بھارت کے باب میں بھی یہی ان کا رویہ ہے۔ جیسا کہ کئی بار لکھ چکا۔ سات برس ہوتے ہیں، لاہور میں بھارتی شہریوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد کیا کہ دونوں قوموں کی ثقافت مشترک ہے۔ صرف ایک لکیر دونوں کے درمیان حائل ہے۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کا کلچر اگر مشترک ہے تو نیا ملک تخلیق کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ اس عظیم کشمکش اور مہاجرت کی‘ لاکھوں انسان جس میں اپنی زندگیاں ہار گئے۔
اتفاق سے سوات کی اس تقریب میں یہ ناچیز شامل تھا‘ مشاہد حسین سید نے جس میں میاں صاحب کے طرز عمل کا تذکرہ کیا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور کئی دوسری اہم شخصیات بھی موجود تھیں۔ انہی دنوں بھارتی سفیر سے مشاہد حسین کی ملاقات ہوئی تھی۔ پاکستانی دانشور سے انہوں نے کہا Pleasently, we are surprised that Mian sahib did not mention India or Indian army in his election campaign
یہ تو واضح ہے کہ جنرل راحیل شریف کے برعکس‘ جنرل قمر باجوہ نے سول قیادت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ باہمی کشیدگی قومی استحکام کو زخم لگاتی ہے۔ خارجہ پالیسی‘ خاص طور پر افغانستان‘ بھارت اور امریکہ کے باب میں فوج کا عمل دخل باقی رہا۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ اور افغانستان کی این ڈی ایس پاکستان میں تخریب کاری کی ذمہ دار ہیں، قتل عام کی۔ امریکی اسے گوارا کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی قیادت کے دعویدار انکل سام نے کابل اور دہلی کو ٹوکنے کی کبھی کوئی کوشش نہ کی۔
پاک افغان سرحد پہ باڑ لگانے اور ماہِ گزشتہ افغانستان کو سپلائی روکنے کا فیصلہ سامنے آیا تو اندازہ ہوا کہ قومی سلامتی کے باب میں فوج اتنی ہی حساس ہے۔ اس سے پہلے پنجاب میں رینجرز کو بروئے کار لانے کا فیصلہ ہوا۔ اس اقدام کے ہنگام تلخی سے گریز کیا گیا۔ جنرل باجوہ کے قریبی حلقوں کا کہنا تھا کہ پنجاب میں تخریب کاری کا سدباب کرنے کے لیے‘ مرکزی اور صوبائی حکومت کو آمادہ کرنے میں‘ غیر معمولی تحمل اور صبر کے ساتھ وہ آگے بڑھے۔ دبائو ڈالنے کی بجائے دلائل دینے اور سمجھانے بجھانے کا انداز اختیار کیا۔
فوجی عدالت نے کلبھوشن یادیو کو پھانسی دینے کا جو فیصلہ کیا ہے‘ اس سے فضا یکسر تبدیل ہوتی نظر آتی ہے۔ اب یہ باور کیا جانے لگا ہے کہ قومی دفاع پہ ہرگز کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے گا۔ تیرہ ماہ تک جاری رہنے والی کارروائی کے دوران تخریب کاری کے لیے‘ پاکستان میں نیٹ ورک تشکیل دینے والے آدمی سے جب تفتیش کی جاتی رہی یا مقدمے کی کارروائی برپا تھی‘ نون لیگ کی قیادت دم سادھے رہی، خود وزیر اعظم بھی۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری عظیم الشان عوامی تحریک پر بھی اظہار خیال سے حتی الامکان وہ گریز کرتے ہیں۔
ایک ہفتے سے میں یہاں کوپن ہیگن میں ہوں۔ یہ ایک تھکا دینے والا سفر ہے۔ اس لیے کہ بھاگم بھاگ سٹاک ہوم‘ مالمو‘ ہینس برگ‘ اور اوسلو سمیت کئی شہروں میں پاکستانیوں کی تقریبات میں شریک ہونا پڑا۔ ابھی ابھی ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم سے کوپن ہیگن کے ہوائی اڈے پر اترا ہوں۔ ایسے میں معلومات کا حصول اور ان کی تصدیق‘ ظاہر ہے کہ سہل نہیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا مگر یہی ہے کہ منگل کو سپہ سالار جنرل قمر باجوہ سے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے جو ملاقات کی‘ اس میں کلبھوشن یادیو کو پھانسی نہ دینے پہ اصرار کیا گیا۔ امریکی انتظامیہ کشمیر پہ پاکستان اور بھارت میں بات چیت کرانے کی پیشکش کر چکی۔ ماضی میں ایسی کوئی پیشکش بھارت نے کبھی قبول نہیں کی۔ بظاہر اب بھی کوئی امکان نہیں۔ مذاکرات ہوئے بھی تو وقت ضائع کرنے کے لیے ہوں گے۔ لاکھوں ہیں، جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔ ایک ایک قصبے میں گنج ہائے شہیداں ہیں۔ گھر گھر یتیم بچے اور بیوہ عورتیں۔ ہزاروں کڑیل جوان عقوبت خانوں میں پڑے ہیں۔ تین عشروں کی بے بہا قربانیوں، بے حساب خوں ریزی کے باوجود بھارتی حکومت کشمیریوں کا حقِ آزادی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ پاکستان کے خلاف جنگی بخار پھیلانے میں وہ مصروف ہے۔ اس کا آخری ہدف پاکستان کا خاتمہ ہے۔ اگر یہ نہیں تو سکم اور بھوٹان کی طرح بے معنی بنا کے رکھ دینا۔ پاکستانی قوم کبھی کسی قیمت پر‘ یہ گوارا نہیں کرے گی۔
بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی قیادت کو بھارتی عزائم کا ادراک ہی نہیں۔ سیاستدانوں کا اندازِ فکر یہ ہے کہ قومی دفاع فقط افواج کی ذمہ داری ہے۔ بحیثیت مجموعی دہشت گردی کے خلاف ڈیڑھ عشرے سے جاری جنگ میں بھی سیاسی پارٹیوں کا کردار منفی ہے۔ کچھ مذہبی پارٹیاں اللہ اور رسولؐ کے نام پر خوں ریزی کرنے والوں سے ہمدردی رکھتی ہیں۔ نون لیگ اور تحریک انصاف ان سے مذاکرات کی حمایت کرتی رہیں‘ حتیٰ کہ یہ ناممکن ہو گیا۔ خون سے بھیگے ان مہ و سال میں پاکستانی فوج ہی قوم کی واحد امید رہی ہے۔ بیشتر سیاستدانوں کو اقتدار کے علاوہ اگر دلچسپی ہے لوٹ مار سے۔ پولیس ان کی باندی ہے‘ احتساب کے ادارے ناکردہ کار اور عدالتی نظام بے بسی کی تصویر۔
ایسے میں عسکری قیادت نے بھارتی جاسوس پہ کمزوری دکھائی تو یہ ایک عظیم المیہ ہو گا۔ امیدیں تحلیل اور ہمتیں پسپا ہو جائیںگی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پوری کی پوری کوئی قوم اگر مایوسی میں مبتلا ہو جائے تو دشمن کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔
جہلم کے گائوں ڈومیلی کے بریگیڈیر سلطان‘ پاکستانی تاریخ کے بہادر ترین سپاہیوں میں سے ایک تھے۔1971ء میں مشرقی پاکستان میں ہر کہیں بھارتی فوج آگے بڑھنے میں کامیاب رہی۔ پاک فوج کی تعداد کم‘رسد ناممکن تھی۔ اس کے باوجود جمال پور کے محاذ پر‘ (تب) کرنل سلطان سے ایک انچ بھی وہ حاصل نہ کر سکے۔ ایک پوری ڈویژن بھارتی فوج کے مقابلے میں پاکستانی کمانڈر کے پاس صرف ایک رجمنٹ تھی۔ مورچے ان کے ناپختہ تھے اور فضائی امداد حاصل نہ تھی۔
مدتوں بعد ایک عینی شاہد نے مجھے بتایا کہ کرنل سلطان‘ بھارتی مورچوں کے سامنے جا کھڑے ہوتے۔ سگریٹ سلگاتے اور ٹہلتے رہا کرتے۔ بریگیڈ سے میں نے پوچھا: آپ کو کیا خوف محسوس نہ ہوتا تھا؟ ''کیوں نہیں؟‘‘ اپنے خاص دھیمے انداز میں انہوں نے کہا ''میں ایک آدمی ہوں‘ گوشت پوست کا بنا ہوا۔ عمر بھر کے تجربے نے لیکن مجھے یہ بتایا تھا کہ جتنے آپ بزدل ہوں‘ دشمن اتنا ہی بہادر ہوتا ہے۔ جس قدر شجاعت کا آپ مظاہرہ کر سکیں‘ حریف اتنا ہی پست ہمت‘‘... جنرل قمر جاوید باجوہ کے امتحان کا وقت آ پہنچا ہے۔