"HRC" (space) message & send to 7575

عزیر بلوچ کی کہانی

اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان بچ نکلا۔ تخریب کاری کے خبیث شجر کی شاخیں کاٹ دی گئیں‘ جڑیں مگر اب بھی باقی ہیں۔ سیاستدان تو بے نیاز ہی ہیں‘ عسکری قیادت کیا سوچتی ہے؟
عزیر بلوچ کو کیا فوج نے اس لیے اپنی تحویل میں لیا کہ جیل میں اس کی زندگی خطرے میں تھی؟ پیپلز پارٹی کی قیادت کے بارے میں ایسے انکشافات اس نے کیے ہیں کہ ایک نئی خوفناک چارج شیٹ مرتب ہو سکتی ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کا خواب دیکھنے والے زرداری صاحب لانڈھی جیل پہنچ سکتے ہیں۔
گرفتاری کے بعد عزیر بلوچ خاموش تھا۔ ایک موہوم امید پر زندہ کہ شاید جنابِ زرداری مدد کو آئیں۔ سرما کے اداس کر دینے والے ایک دن‘ رینجرز کے تفتیش کرنے والوں نے‘ پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی طرف سے جاری کردہ بیانات اسے سنوائے: ہمارا اس سے کیا تعلق‘ وہ ایک غنڈہ‘ سمگلر‘ بھتہ خور اور قاتل ہے۔ 
پھوٹ پھوٹ کر وہ رونے لگا۔ فر فر وہ بولنے لگا‘ ایک ایک بات اس نے بتا دی۔ جن کی ہیبت سے دنیا کانپتی ہے‘ گاہے اندر سے بہت کمزور ہوتے ہیں۔ جرم کی راہ پر آگے بڑھتے‘ پتھر دل ہو جاتے ہیں۔ زندگی مگر خطرے میں آ پڑ ے تو ٹوٹ جاتے ہیں۔ 
وہ ایک چھوٹا سا بدمعاش تھا‘ جب زرداری نے اسے اپنانے کا فیصلہ کیا‘ الطاف حسین کے غنڈوں کا سامنا کرنے کے لیے‘ جو قتل و غارت کا بازار گرم کرتے‘ بھتہ وصول کرتے۔ جب چاہتے‘ کراچی میں ہڑتال کا حکم صادر کرتے۔ میڈیا یرغمال تھا۔ پولیس ہی نہیں‘ فوج بھی لاچار دکھائی دیتی۔ ان کی پشت پر ''را‘‘ کھڑی تھی۔
اس کارِ خیر کی ذمہ داری‘ وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کو سونپی گئی؛ چنانچہ پیپلز امن کمیٹی تشکیل دی گئی۔ یہی زمانہ تھا‘ جب عواقب و نتائج سے بے نیاز مرزا نے کہا تھا: اسلحہ کے دو لاکھ لائسنس میں نے جاری کیے ہیں اور یہ شادیوں پر ہوائی فائرنگ کے لیے نہیں۔ صوبے اور مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ غنڈوں سے نمٹنے کی بجائے جرائم پیشہ افراد کی اپنی فوج تشکیل دینے کا انہوں نے فیصلہ کیا۔ ذوالفقار مرزا عزیر بلوچ کو اوّل محترمہ فریال تالپور کے دولت کدے پر لے گئے۔ پھر وہ خود اس کے ہاں تشریف لے گئیں۔ ذوالفقار مرزا کے علاوہ شرجیل میمن اور بعد میں وزیر داخلہ ہو جانے والے سہیل سیاّل‘ اس کاروبار میں شریک تھے۔ اپنے تئیں مہاجروں کی جارحیت کا وہ مقابلہ کر رہے تھے۔ دیہی سندھ کی نمائندگی کا مقدّس فرض ادا کر رہے تھے۔
1995ء میں ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کے دوران‘ جو محترمہ بے نظیر بھٹو کا عظیم کارنامہ ہے‘ ایک بار ایسا ہی خیال انہیں بھی سوجھا تھا۔ کراچی کے کور کمانڈر اور دہشت گردوں پہ یلغار کرنے والے اساطیری پولیس افسر‘ ڈاکٹر شعیب سڈل کی موجودگی میں‘ انہوں نے کہا: الطاف حسین کا مقابلہ کرنے کے لیے‘ کیا ہمیں بھی اپنے کارکن مسلح نہ کرنے چاہئیں؟ صاف الفاظ میں انہیں بتا دیا گیا کہ یہ خطرناک ہو گا۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو امن حاصل نہ ہو گا بلکہ خون ریزی کچھ اور بڑھ جائے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے پاس ایسے کارکن تھے ہی نہیں۔ ایم کیو ایم اور بعض سندھی انتہا پسندوں کے برعکس‘ جنہوں نے پونا سے ممبئی تک پھیلے کیمپوں میں تربیت پائی تھی‘ وہ سیاسی لوگ تھے۔ زرداری صاحب اور ان کے ساتھیوں کا معاملہ مختلف تھا۔ قانون کی تقدیس پہ کبھی ان کا یقین نہ تھا۔ انسانی لہو کی ان کے نزدیک کبھی کوئی قیمت نہ تھی۔ حقائق تو تفتیش ہی میں سامنے آ سکتے ہیں‘ کہا جاتا ہے کہ جناب زرداری کے ایما ہی پر‘ عزیر بلوچ نے پیپلز پارٹی کے کارکن شہنشاہ کو قتل کیا۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ شہنشاہ محترمہ کے قتل میں شریک تھا۔ سٹیج پر بیٹھا وہ گلا کاٹ دینے کے اشارے کرتا رہا۔ اس کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جاتا رہا مگر آزاد وہ گھومتا رہا۔ ... اور ایک دن خاموشی سے قتل کر دیا گیا۔ خود اس کے قتل کی تفتیش بھی نہ کی گئی۔ زرداری صاحب سے رہ و رسم رکھنے والے کچھ اور لوگ‘ مثلاً زرداری صاحب کا پروٹوکول افسر بلال شیخ‘ بھی پراسرار حالات میں مارے گئے۔ کیا وہ حادثات کا شکار ہوئے یا ان کا شکار کھیلا گیا؟ کیا یہ محض بدگمانی سے گھڑی جانے والی کہانیاں ہیں یا ایک مافیا زرداری صاحب کے ایما پہ سرگرم تھی؟ کیا اس کھیل میں ذوالفقار مرزا‘ شرجیل میمن اور سہیل سیال ان کے دست و بازو تھے؟ سراغ لگانے کی کبھی کوشش ہی نہ کی گئی۔ کون جانتا تھا کہ اب بھی ایسا ہو گا یا نہیں؟ 
وزیر اعظم نواز شریف کو تو ظاہر ہے کہ کوئی دلچسپی اس معاملے سے نہیں۔ ان کی بلا سے کوئی جیے یا مرے۔ وہ تو کھلی کھلی کرپشن پر بھی زرداری صاحب کا احتساب کرنے پر آمادہ نہیں۔ 2013ء کی انتخابی مہم کے ہنگام شہباز شریف زرداری صاحب کو لاڑکانہ اور لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کیا کرتے۔ الیکشن کے بعد ٹی وی کیمروں کے سامنے عالی جناب نے معافی مانگ لی۔ اب فرانس‘ دبئی‘ امریکہ اور لندن میں ان کی جائیدادوں کے بارے میں بھی وہ بات نہیں کرتے۔ کریں بھی کیسے کہ جواب میں پیپلز پارٹی طوفان اٹھا دے گی۔ بیرون ملک پڑی‘ ان کی اور اسحق ڈار کی دولت کے انباروں کو وہ اجاگر کرے گی۔ 
قتل و غارت میں شریف خاندان کبھی ملوث نہ تھا‘ مگر دولت اس کی اتنی ہی بڑی کمزوری ہے۔ فارسی کی ضرب المثل یہ ہے ''ہیج خیر از مردک زرکش مجو‘‘ دولت کے پجاریوں سے‘ خیر کی امید کم رکھا کرو۔
سرکاری سرپرستی عزیر بلوچ کو حاصل ہوئی تو پہلے سے بدامنی میں مبتلا کراچی ایک شکار گاہ بن کر رہ گیا۔ کورنگی کے بیس لاکھ مکین تو یرغمال تھے ہی‘ اب کراچی کا کوئی صنعت کار‘ کوئی تاجر ایسا نہ تھا‘ بھتہ دینے سے جو انکار کر سکے۔ عزیر بلوچ کا گروہ پھیلتا چلا گیا۔ اب منشیات اور اسلحے کی سمگلنگ کا دھندا بھی انہوں نے شروع کر دیا۔ بھتہ خوری میں زرداری صاحب کا حصہ نہیں تھا‘ مگر اس پر انہیں کوئی اعتراض بھی نہ تھا۔ ان کی دلچسپی جائیداد کی خریداری سے رہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو بھی عمارت اور پلاٹ انہیں پسند آیا‘ اپنی تجویز کردہ قیمت پر انہوں نے خرید لیا۔ حیدر آباد‘ نواب شاہ‘ ٹنڈو الہ یار‘ ٹنڈو آدم‘ خیر پور‘ جہاں کہیں کوئی زرعی زمین بھا گئی‘ ان کی ملکیت بن کر رہی۔ کہا جاتا ہے کہ بیس سے پچاس ہزار ایکڑ اراضی موصوف نے ہتھیا لی۔ 
کراچی میں بدامنی بڑھی تو براہ راست اس کا فائدہ ''را‘‘ کو پہنچا‘ جو بلوچستان‘ قبائلی پٹی اور کراچی میں سرگرم تھی۔ فرقہ پرست مذہبی تنظیموں کے لیے فضا ہموار ہو گئی۔ جرائم کی ایک معیشت وجود میں آ گئی‘ جو سینکڑوں ارب روپے سالانہ پر مشتمل تھی۔ یہ وہ خطرناک وقت تھا‘ جب گمان کیا جانے لگا کہ خدانخواستہ بلوچستان الگ ہو سکتا ہے۔ بھارت علیحدگی پسندوں کی پشت پر ہی تھا۔ برطانیہ اور افغانستان بھی ان کی مدد کرنے لگے۔ ایم آئی سکس نے ایک منصوبہ بنایا کہ پاکستان‘ اگر شکست و ریخت کا شکار ہو تو گوادر سے کراچی تک کا خطّہ کاٹ کر الگ کر دیا جائے۔ صورت حال اس قدر بگڑی کہ چینی حکومت نے بلوچستان کی علیحدگی کے امکان پر غور کیا۔ تب اس نے افغانستان کے راستے‘ گوادر تک پہنچنے کا ایک متبادل منصوبہ تشکیل دیا۔ بہت پہلے سے بحیرہ عرب پہ اس کی نگاہ تھی‘ گوادر‘ خاص طور پہ۔
ان حالات میں ایک مسلم پڑوسی ملک کی انٹیلی جنس آگے بڑھی اور عزیر بلوچ سے انہوں نے رابطہ کیا۔ محمود اچکزئی سمیت بلوچستان کے بعض لیڈروں سے بھی۔ سپاہ صحابہ کے جواب میں سرگرم‘ مذہبی دہشت گردوں کو اسی ملک میں تربیت دی گئی۔ کراچی کے بعض حصوں پر عزیر بلوچ کی ''حکومت‘‘ تھی؛ چنانچہ اسے وہ نظر انداز نہ کر سکتے تھے۔ جب باڑ ہی کھیت کو کھانے لگے‘ جب کسی ملک کے حکمران ہی لٹیرے بن جائیں تو یہی ہوتا ہے۔ عزیر بلوچ کی کہانی ایسی ہمہ جہت‘ اس قدر سنسنی خیز ہے کہ مدتوں باقی رہے گی۔ فلمیں اس پر بنیں گی‘ کتابیں لکھی جائیں گی۔
اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان بچ نکلا۔ تخریب کاری کے خبیث شجر کی شاخیں کاٹ دی گئیں‘ جڑیں مگر اب بھی باقی ہیں۔ سیاستدان تو بے نیاز ہی ہیں‘ عسکری قیادت کیا سوچتی ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں