یہ امید ہم کیوں باندھتے ہیں کہ ایک بے سمت معاشرے کی عدالتیں صلاح الدین ایوبی جیسی جرأت اور ابرہام لنکن ایسی دانائی کا مظاہرہ کریں؟
اگر کوئی سیاستدان ہوتا تو اس کے بارے میں بات کی جاتی۔ اب ان معزز اور محترم جج صاحب کے بارے میں کیا عرض کیجئے‘ جنہوں نے ارشاد کیا تھا: ایسا فیصلہ ہم صادر کریں گے کہ صدیوں تک قوم اسے یاد کرے گی۔
معجزوں سے نہیں‘ کسی ایک واقعے سے نہیں‘ پیہم جدوجہد‘ تعلیم و تربیت‘ خود شناسی اور اپنی غلطیوں سے سیکھ کر اقوام سرخرو ہوتی ہیں‘ ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھا کر۔ اس برطانوی اخبار نویس کی اصطلاح یاد آتی ہے۔ WAITING FOR ALLAH۔ گرد سے نمودار ہونے والے کسی شہسوار‘ کسی عجیب حادثے کا انتظار۔ شاعر کا خیال تھا کہ وہ کوئی قیس‘ رانجھا یا فرہاد بنے گا۔
یہ عمر تو کسی عجیب حادثے کی عمر تھی
یہ دن فقط سپرد روزگار کیسے ہو گئے
ایسا نہیں ہوتا‘ حضور ایسا نہیں ہوتا۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ جہاں جہاں تمہیں رکنا اور ٹھہرنا ہے اور جہاں تمہیں پہنچنا ہے‘ وہ پہلے سے اللہ نے لکھ رکھا ہے... اور یہ کہتی ہے کہ اس کے قوانین کو تم کبھی بدلتا ہوا نہ پائو گے۔
محترم و مکرم خواجہ سعد رفیق اور ان کے ساتھیوں نے‘ عدالت کو دھمکانے کے لیے ''قائد تیرا اک اشارہ‘ حاضر حاضر لہو ہمارا‘‘ کے بینر لگائے۔ اخبار نویسوں کو تعجب ہوا تو ارشاد کیا: یہ نعرہ تو ہم یوتھ لیگ کے زمانے سے لگاتے چلے آئے ہیں۔ کیا وہ یوتھ لیگ میاں محمد نواز شریف کی تھی اور کیا وہ فقط کارِِ سیاست کے لئے تھی؟ 2004ء میں میاں محمد نواز شریف سے خواجہ صاحب کے حسنِ تعلق کا عالم یہ تھا کہ شریف خاندان کو ان کے بارے میں شکوک و شبہات تھے۔ تنگ آ کر تحریکِ انصاف میں شامل ہونے کا انہوں نے ارادہ کیا۔ ارادہ کیا‘ ان کا عہدہ تک طے ہو گیا تھا۔ عمران خان کی خدمت میں خواجہ صاحب حاضر ہونے کے آرزومند تھے۔ میں نے انہیں روکا اور کہا کہ کپتان کو میںآپ کے پاس لے کر آئوں گا۔
دو برس پہلے منعقد ہونے والے انتخابات میں‘ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ عمران خان کا رومانس ختم ہو چکا تھا۔ پارٹی کی خبر اخبار میں شائع نہ ہوتی۔ ایک بڑے پبلشر نے خان کو پیشکش کی کہ اخبار کے پہلے صفحے پر تین کالمی ان کا بیان وہ چھاپ دیا کریں گے۔ شرط یہ ہے کہ بھارتی فلمی صنعت کے ستاروں کو مدعو کرنے میں‘ وہ ان کی مدد کریں۔ امیتابھ بچن‘ عامر خان اور شاہ رخ خان سمیت‘ کپتان کے بہت سے مدّاح اور رفیق ان کی اعانت کر سکتے تھے۔
انگریزی صحافت کو نمٹا دینے کے بعد‘ انکل سام کے کارندے اردو صحافت پہ مہربان تھے۔ ایجنڈا ان کا یہ تھا کہ دوسری چیزوں کے علاوہ ثقافتی یلغار کے بل پر‘ بھارت کی بالادستی خطے پر قائم کر دی جائے۔ این جی اوز کا آغاز تھا اور اس اشاعتی ادارے کو 23 ملین ڈالر کی اعانت موصول ہو چکی تھی۔ سنجیدگی ثابت کرنے کے لیے دو دن تک تین کالمی بیان اس نے چھاپا۔ میرے ذاتی دفتر میں‘ جہاں اس سوال پر بحث تھی‘ عمران خان سے ہمدردی رکھنے مگر ان کی سیاسی بصیرت کا ماتم کرنے والے عباس اطہر نے مشورہ دیا کہ یہ پیشکش قبول کر لی جائے۔ تب وہ ایک معروف اخبار کے چیف نیوز ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے کہا: جب تمہاری تین کالمی خبر وہ شائع کریں گے تو دو کالمی میں بھی چھاپ سکوں گا۔
میں نے مزاحمت کی مگر کچھ زیادہ نہ کر سکا۔ فیصلہ تب ہوا‘ جب عامر خان ممبئی سے کراچی پہنچے۔ ملک بھر کی قتالائوں کو جمع کیا گیا۔ اخبار کا ایک رنگین ایڈیشن چھپا‘ جس میں کپتان کی دو کالمی تصویر کے اردگرد مہ رخوں کے چہرے چمک رہے تھے۔ ''مبارک ہو‘‘ میں نے اسے پیغام بھیجا۔ ''آج سے تم ارباب نشاط میں شامل ہو گئے‘‘۔ وہ سخت تشویش کا شکار تھا۔ فوراً ہی اس نے پسپائی کا فیصلہ کیا۔
بعد میں یہ پبلشر اتنا اس کا مخالف ہوا کہ اب ایک مذہبی جذبے کے ساتھ‘ اس کی کردار کشی میں لگا رہتا ہے۔
2002ء کے انتخابات میں تحریکِ انصاف فقط ایک ہی سیٹ حاصل کر سکی ‘ خود اس کی اپنی۔ جنرل پرویز مشرف نے خان کو وزارتِ عظمیٰ کا چکمہ دے رکھا تھا۔ بار بار میں نے اس سے کہا: کبھی وہ تمہیں اختیار نہ سونپے گا۔ کرکٹ ٹیم میں جو کپتان‘ بورڈ کی مداخلت برداشت نہ کرتا تھا‘ اقتدار کا حریض ایک جنرل وزارتِ عظمیٰ کا تحفہ اسے کیونکر دے سکتا ہے۔ تاریخِ انسانی میں استثنا کے طور پر ہی کوئی ابو بن ادہم پیدا ہوتا ہے‘ وگرنہ حکومت سے بڑا کوئی نشہ نہیں۔ انسان کی پوری تاریخ اسی ایک نکتے کے گرد گھومتی ہے۔ ایسی یہ بری بلا ہے کہ ابو سفیانؒ کے پوتے نے، خاندان رسولؐ پہ یلغار کی اور آج تک اس کی وکالت کرنے والے موجود ہیں۔ وہ جو نفرت و تعصب میں ''خلافتِ معاویہ و یزید‘‘ ایسی کتابیں لکھا کرتے ہیں۔ الیکشن 2002ء سے قبل جنرل پرویز مشرف نے گجرات کے چوہدریوں کو پنجاب سونپنے کا فیصلہ کیا تو عمران خان دنگ رہ گیا۔ منصوبے کا حصہ بننے سے اس نے انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ریفرنڈم کی حمایت کے باوجود ،جنرل مشرف کی آئی ایس آئی اس کی پارٹی پہ چڑھ دوڑی۔ ہر قابل ذکر امیدوار کو وہ لے اڑے‘ قاف لیگ میں شامل کرا دیا۔
میاں محمد نواز شریف جدّہ میں جلاوطن تھے۔ خواجہ سعد رفیق ان چند لوگوں میں سے ایک تھے‘ شریف خاندان سے جو وفادار رہے۔ ان کا مسئلہ مگر یہ تھا: روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر۔ ان کے عالی قدر والد کوئی اثاثہ چھوڑ کر نہ گئے تھے۔ روزگار کے لئے ہاتھ پائوں مارتے‘ سرکاری پارٹی کے لوگوں سے انہیں رہ و رسم رکھنا پڑتی۔ اس ملک میں کاروبار کرنے والوں کی مجبوریاں بہت ہوتی ہیں۔ خاص طور پر پراپرٹی کے کاروبار میںجس کی دلدل میں وہ اتر چکے تھے ۔ خواجہ کے مخالفین‘ خاص طور پہ کھوسہ خاندان نے اس معاملے کو اچھالا۔ جماعت کے عہدے سے وہ الگ کر دیئے گئے۔
جنرل مشرف کے غضب کا شکار‘ اجڑی ہوئی تحریکِ انصاف کو اپنا دفتر خالی کرنا پڑا کہ کرایہ وہ ادا نہ کر سکی تھی۔ رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے جو فلیٹ عمران کو تہہ خانے میں ملا تھا‘ وہ انہوں نے پارٹی کے حوالے کر دیا۔ دن کا کچھ حصّہ اس میں وہ گزارا کرتے۔
خواجہ صاحب کا فلیٹ پہلی منزل پہ واقع تھا۔ کپتان کو میں اس کے پاس لے گیا۔ طے پایا کہ پارٹی کا وہ سیکرٹری جنرل ہو گا۔ فیصلہ یہ بھی ہوا کہ اعلان کچھ دن کے بعد کیا جائے گا۔ درویش سے میں نے ذکر کیا تو انہوں نے فقط ایک جملہ کہا: ''خواجہ کو نون لیگ ہی سازگار ہے۔ ‘‘کچھ دن میں وہ لندن گئے۔ پھر معلوم نہیں کیا ہوا کہ شاد لوٹے۔ 2008ء کے انتخابات میں صرف انہی کو نہیں‘ ان کے برادرِ گرامی اور رفیقہء حیات کو بھی ٹکٹ عطا کر دیئے گئے۔
پھر ایک دن خواجہ عمران خان پہ گرجے برسے تو یہ واقعہ ٹیلی ویژن پر میں نے بیان کر دیا۔ برہم اور ناراض انہوں نے مجھے فون کیا۔ ان کے مرحوم والد کی وجہ سے خواجہ کی میں عزت کرتا ہوں لیکن فریب خوردگی کا شکار ہونے اور تاویلات سننے سے میں نے انکار کر دیا۔ ان کی وضاحت شائع کرنے پر البتہ آمادگی ظاہر کی۔
جماعتِ اسلامی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہو کر‘ جنرل پرویز مشرف سے جا ملنے والے امیر مقام ابھی ابھی ٹیلی ویژن پر چیخ رہے تھے۔اپنے ساتھیوں سے میں نے گزارش کی: ان صاحب کی تقریر سننے کے لئے ہم دفتر نہیں آئے۔ 2012ء میں جب تحریکِ انصاف مقبولیت کے عروج پر تھی‘ وہ اس کا حصّہ بننے کے لئے بے تاب تھے۔ واحد شرط ان کی یہ تھی کہ پختونخوا کی صدارت انہیں سونپ دی جائے۔ کپتان آمادہ نہ ہوا تو نون لیگ میں چلے گئے۔ ایک نون لیگ پر ہی کیا موقوف تحریکِ انصاف میں بھی ابن الوقتوں کے ریوڑ موجود ہیں۔
یہ ہے وہ معاشرہ جس میں ہم جی رہے ہیں۔ یہ ہیں وہ لیڈر اور یہ ہیں وہ پارٹیاں۔ ان سے کیا امید ہم رکھتے ہیں؟
ایک دوسری گزارش یہ ہے کہ حسنِ کردار کے معاشرے میں کوئی جزیرے نہیں ہوتے۔ یہ امید ہم کیوں باندھتے ہیں کہ ایک بے سمت معاشرے کی عدالتیں صلاح الدین ایوبی جیسی جرأت اور ابرہام لنکن ایسی دانائی کا مظاہرہ کریں؟