"HRC" (space) message & send to 7575

تمام خچر

قحط الرجال سا کوئی قحط الرجال ہے۔ اکبرِ اعظم کے شاعر نے یہ کہا تھا: ؎
وا دریغا نیست ممدوحے سزاوارِ مدح
وا دریغا نیست محبوبے سزاوارِ غزل 
اتنا سادہ سا شعر ہے۔ ترجمہ کیا ضروری ہے؟ 
عارف کو میں دہراتا ہوں: کسی لشکر کی نہیں، اللہ کو صرف ایک آدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس آدمی کی، خالقِ ارض و سما جس کی ترجیحِ اوّل ہو۔ کتنے ہی لوگ ہیں، جو محض اس کے جمالیاتی پہلو کی داد دے کر گزر جاتے ہیں، مجھ سمیت۔
اپنے اردگرد پھیلے لامتناہی ہجوم کے بارے میں، ہر بیس پچیس برس میں جو دوگنا ہو جاتا، محمد علی جناحؒ کوئی اچھی رائے نہ رکھتے تھے۔ اس ہجوم کو مگر انہوں نے معاف کر دیا اور اپنی زندگی نذر کرنے کا فیصلہ کیا۔ 
جتن جتن ہر کوئی کھیڈے، ہارن کھیڈ فقیرا
جتن دا مُل کوڈی پیندا، ہارن دا مُل ہیرا
راولپنڈی کے محمود احمد منٹو، جہاں تک یاد پڑتا ہے، آخر کو سینیٹر ہو گئے تھے۔ بہرحال وہ بہت سے سیاست کاروں میں سے ایک سیاست کار ہی تھے۔ ان کے دامن میں مگر اجلی یادوں کے کچھ ہیرے دمکتے۔ کبھی مائل ہوتے تو اپنے جواں سال ساتھیوں کو دکھایا کرتے۔ 
ان میں سے ایک نے بتایا: علامہ عنایت اللہ مشرقی نے، بعض لوگ اب بھی جنہیں غزالیء عصر سمجھتے ہیں، قائدِ اعظمؒ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ راولپنڈی ہی میں، جہاں اپنے فدائین کے ساتھ وہ تشریف فرما تھے‘ اپنے دور کے بعض دوسرے شیوخ العرب والعجم کی طرح اپنی انا کو گنّے کا رس پلانے کے لیے۔ فرمائش یہ تھی کہ وہ ان کے پاس حاضر ہوں۔ جوانی کے حسرتؔ موہانی کی طرح جو مغالطے کا شکار تھے کہ ''اس کا لباس اسلامی ہے اور نہ زبان‘‘۔ 
ڈسپلن اور عزتِ نفس کے معاملے میں سخت گیر ہونے کے باوجود محمد علی ایک شفیق باپ کے تیور رکھتے تھے۔ علامہ کی دعوت انہوں نے قبول کر لی۔ 
محمود احمد منٹو ان کے سیکرٹری تھے، ایک عارضی سیکرٹری!
ان کے خیمے میں پڑی پرانی سی کرسی پر بیٹھ کر وہ شخص انتظار کرنے لگا، ہزاروں برس کے بعد ابھرنے والے ہندوئوں کے نئے دیوتا موہن داس کرم چند گاندھی کو جو ایک عام لیڈر جتنی اہمیت ہی دیا کرتا۔ 
طے شدہ وقت آ پہنچا اور بیتنے لگا۔ اصول کے مطابق ٹھیک وقت پہ وہ تشریف لائے تھے۔ پانچ منٹ، دس منٹ، پندرہ، بیس اور تیس۔ منٹو بیان کیا کرتے: بے چین اور بے تاب وہ ہرگز نہ تھے۔ بار بار اپنی گھڑی نہ دیکھتے تھے۔ اضطراب ان کے چہرے پہ ہرگز نہ تھا، ناراضی تو قطعی نہیں۔ 
نصف گھنٹے کے بعد وہ اٹھے اور یہ کہا "I think he is busy"
ربع صدی کے بعد چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک اور واقعہ پیش آنے والا تھا۔ نیو یارک سے واپس آتے ہوئے، فخرِ ایشیا، قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو روم میں رکے۔ مصطفی کھر اور اپنے باقی ساتھیوں سے مشورہ کرنے کے بعد وہ راولپنڈی پہنچے۔ چکلالہ کے ہوائی اڈے پر وہ اترے تو اپنے بھائی ریاض اللہ کی مرسڈیز کار مستعار لے کر مصطفی کھر خیر مقدم کے لیے موجود تھے۔ بوریت سے بچنے کے لیے 33 سالہ کھر نے ایک ساتھی کو پچھلی سیٹ پہ بٹھا رکھا تھا۔ اسی روز بھٹو کو پاکستان کے پہلے سول مار شل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے حلف اٹھانا تھا۔ 
ہوائی اڈے کی حدود سے باہر نکل کر گاڑی شاہراہِ اسلام آباد پر پہنچی تو ڈرائیور والی نشست سے ملحق سیٹ پر براجمان بھٹو نے پوچھا: پچھلی سیٹ پر کون ہے مصطفی؟ ''انور علی نون صاحب ہیں، ہماری پارٹی کے رکنِ قومی اسمبلی‘‘ ''نون تم اتر جائو‘‘ انہوں نے کہا۔ 
شاہراہِ اسلام آباد کی رونق اور بہجت ابھی کل کی بات ہے۔ 24 برس پہلے جب اس کے نواح میں آباد ایک بستی میں ناچیز نے ڈیرہ جمایا تو سرِ شام ویرانی اس کے مشرقی بازو پر پھیلے درختوں پہ اتر آیا کرتی۔ 47 برس پہلے یہ کیسی رہی ہو گی؟ 
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ
اداسی بال کھولے سو رہی ہے 
انور علی نون اس روز گھر کیسے پہنچے ہوں گے؟
مصطفی کھر کو انہوں نے ڈانٹا۔ اتنی سی بات تمہیں معلوم نہیں کہ نصف گھنٹے کی اس مسافت ہی میں اہم فیصلے ہمیں صادر کرنے ہیں۔ ایک ایسے شخص کو تم کیسے اپنے ہمراہ لے آئے، رازدار جو نہیں بن سکتا۔ انور علی نون کو پندرہ برس بعد میں نے دیکھا۔ بچّے کے سے معصوم چہرے کے ساتھ وہ یورپ سے لائی گئی مہنگی چاکلیٹ اپنے دوستوں میں بانٹا کرتے۔
اگلے برس قائدِ اعظم ؒ راولپنڈی آئے تو ریلوے سٹیشن پر ان کا استقبال کرنے والوں میں جواں سال منٹو بھی شامل تھے۔ افسانہ نگار سعادت منٹو کے عم زاد، جنہیں شہرتِ دوام حاصل ہونا تھی۔ سرخ و سفید، قد آور آدمی نے نیشنل گارڈز کی وردی پہن رکھی تھی، شمشیر و سناں کے بغیر، جو قائدِ اعظم ؒ کا بازوئے شمشیر زن تھے، ان کے محافظ۔ 
عصرِ رواں کے نثر نگار مشتاق یوسفی نے کہیں لکھا ہے: قائد کو آپ دیکھتے تو بس ان کا چہرہ ہی دیکھتے۔ سر سے پائوں تک چہرہ ہی چہرہ۔ فارسی شاعر کے محبوب سے بہت بلند، بہت مختلف۔ 
ز فرق تا بہ قدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہء دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست
ماتھے سے پائوں تک، جہاں بھی نگاہ پڑی، دل کی جولانی نے کہا: یہ ہے نثار ہونے کا مقام۔ 
پدرانہ شفقت کے اس چہرے پر سجی آنکھوں میں ادھوری سی ایک مسکراہٹ ابھری اور یہ کہا: منٹو میں جانتا تھا کہ ایک دن تم ہمارے ساتھ آ ملو گے۔ قائدِ اعظم بلا کے مردم شناس تھے۔ ان کی ایک مکمل سوانح کبھی نہیں لکھی گئی۔ آسانی سے لکھی ہی نہیں جا سکتی۔ قدرت شیکسپیئر ایسے شاہکار روز روز پیدا نہیں کرتی۔ 
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا 
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا 
سعادت حسن منٹو نے بھی کچھ دن قائدِ اعظم کے ساتھ گزارے۔ ڈرائیور بن کر۔ ڈرائیونگ سعادت حسن منٹو برائے نام ہی جانتے تھے۔ یہ ان کے اندر کا افسانہ نگار تھا، جس نے اسے جسارت پر آمادہ کیا۔ ایک کہانی ڈھونڈنے کے لیے۔ یہ کہانی انہیں کبھی نہ مل سکی۔ وہ عجیب و غریب کرداروں پر لکھا کرتے۔ وہ کہ جن کے مسخ شدہ کرداروں میں زندگی کی بوالعجبیاں اور کبھی کبھار ایک روشنی سی چمک اٹھتی ہو۔ سعادت حسن کے طرزِ احساس میں ایک ہیرو کی گنجائش تھی ہی نہیں۔ کوڑے کے ڈھیر میں وہ ہیرو تلاش کیا کرتے۔ نئے ڈرائیور کو آزمانے کے لیے قائدِ اعظمؒ ایک روز انہیں ساتھ لے گئے۔ مختصر سے سفر کے بعد، محترمہ فاطمہ جناح جس میں شریک تھیں، نالائق کوچبان کو انہوں نے گھر واپس جانے کا حکم دیا۔ 
اب کوئی قائدِ اعظم ہمارے درمیاں نہیں۔ ناداری کے اس زمانے میں، اب میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان ایسے لوگ ہی ہمارے لیڈر ہیں۔ کچھ زیادہ ریاضت کیش، کچھ زیادہ مرتب، کچھ زیادہ کرشماتی۔ غنیمت ہے کہ عمران خان مختلف ہیں۔ گھر میں کچرا جمع نہیں کرتے۔ مالی معاملا ت میں نواز شریف یا آصف زرداری نہیں۔ 
زندہ لیڈر زندہ قوموں کے ہوا کرتے ہیں یا وہ جو استثنا کے طور پر نمودار ہوں کہ اللہ کی صفتِ رحم کبھی اس کی صفتِ عدل پہ غالب آتی ہے۔ فہم و فراست سے عاری، غور و فکر سے بے نیاز اور اعتدال سے نا آشنا معاشروں کو زیادہ سے زیادہ کوئی بھٹو عطا ہو سکتا ہے، کوئی محمد علی جناح نہیں، کوئی محمد علی جوہر، کوئی حسرتؔ موہانی بھی نہیں۔ میں حیران ہوں کہ میرے دانشور دوست تحریکِ انصاف میں مصطفی کھر کی شمولیت پر حیران کیوں ہیں، جیسے کوئی خچر عربی گھوڑوں کے شاہی اصطبل میں گھس آیا ہو، تمام خچر ہیں۔ 
قحط الرجال سا کوئی قحط الرجال ہے۔ اکبرِ اعظم کے شاعر نے یہ کہا تھا۔ 
وا دریغا نیست ممدوحے سزاوارِ مدح
وا دریغا نیست محبوبے سزاوارِ غزل 
اتنا سادہ سا شعر ہے۔ ترجمہ کیا ضروری ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں