جنابِ سراج الحق! گیلی لکڑی ہی اگر برت لی جائے تو چھت کا کیا ہو گا؟ پنجاب یونیورسٹی نہ بن جائے گی؟ زمین پر نہ آ رہے گی؟ پورا ملک کیا پنجاب یونیورسٹی بنا دیا جائے؟
حصولِ علم کی نشاط، pleasure of knowing، درویش نے کہا تھا: کاش کہ لوگ جانتے۔ زندگی میں اس سے بڑی کوئی مسرت نہیں۔
لاہور سے مجھے گوجر خاں پہنچنا تھا۔ اس دیار کا قصد ہو تو بہر قیمت ملتوی کرنے سے گریز کرتا ہوں۔ اس روز مگر رانا صاحب نے اصرار کیا کہ ایک شام میں ان کے ساتھ گزاروں۔ رفاقتیں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ ہے، میرؔ صاحب نے جس کے بارے میں کہا تھا: ؎
روز ملنے پہ نہیں نسبتِ عشقی موقوف
عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے
سویڈن کے دارالحکومت میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ تفصیل اس کی انشاء اللہ سفرنامے کا حصہ ہو گی۔ مسلسل مسافت کا اکتایا ہوا۔ تمام سڑکیں، سارے مناظر اور تمام لوگ جسے ایک سے لگتے ہیں۔ ناروے، سویڈن، ڈنمارک اور سپین۔ میزبان نے پروگرام اس طرح بنایا تھا، جیسے وہ شاعروں کے لیے ترتیب دیتے ہیں۔ لوٹ آنے کی جنہیں پروا نہیں ہوتی۔
غیر ملکی سفر میں کچھ زیادہ کشش میرے لیے نہیں ہے۔ اکثر معذرت کرتا ہوں۔ کتنے ہی ممالک دیکھ ڈالے۔ کھلا یہ کہ ایسی بھی چیز یہ نہیں کہ آدمی کی تمام ترجیح ہو جائے۔ بے شک آپ سیکھتے ہیں۔ بے شک تناظر اس میں وسیع ہوتا ہے۔ طرزِ احساس کے نئے زاویے طلوع ہوتے ہیں۔ فراغت کے ایام کی واحد ترجیح بہرحال یہ نہیں بن سکتی۔ با ایں ہمہ یہ ایک انکشاف انگیز سفر تھا، جس کی روداد رقم کرنی چاہیے۔
سرد موسم کے لیے موزوں لباس کافی نہ تھا۔ ایک جیکٹ اور ایک پتلون خریدنا تھی۔ خان صاحب کی گاڑی میں سوار، ہوائی اڈے سے شہر کو روانہ تھے۔ ان سے پوچھا: کیا آپ کی گاڑی میں ایک سگریٹ پی سکتا ہوں؟ فرمایا: بچے بدبو کی شکایت کرتے ہیں۔ اندازہ ہوا کہ ڈھنگ کے آدمی ہیں۔ پسند کی جیکٹ تو نہ مل سکی مگر ناشتے کا اہتمام خوب تھا۔ ایک بڑے سٹور میں جھانکتے، پٹ سن کے ایک قالین پہ نظر پڑی، سبحان اللہ! بچپن میں اپنے گائوں میں پٹ سن کے کھیت میں نے دیکھے ہیں۔ ایک طرح کی جذباتی وابستگی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ مدتوں کے بعد ہنر مندی کا ایک نادر نمونہ مسافر نے دیکھا تھا۔ ''خرید لیتے ہیں‘‘ خاں صاحب نے کہا اور مصر ہو گئے۔ اس خیال سے مجھے چڑ ہوتی ہے کہ میزبانوںکو زیر بار کیا جائے۔ تیاری کے ہنگام ہی عرض کر دیا تھا کہ ساز و سامان سے دلچسپی اس سہل کوش کو ہرگز نہیں۔ لدّو جانور بننے کا شوق اسے نہیں۔ خان صاحب کے اصرار میں لیکن شائستگی تھی۔ اس کے باوجود عرض کیا کہ داد دینا ایک بات ہے، ہر چیز سر پہ لادی نہیں جا سکتی۔ وہ خاموش ہو گئے۔ بارِ دگر اندازہ ہوا کہ مہذب آدمی ہیں۔ تقریب تمام ہوئی، شام ڈھلی تو اپنی گاڑی میں شہر کی سیر کرانے نکلے۔ کیا شاندار شہر ہے، محل، سمندر، سیر گاہیں اور وہ عمارتیں کہ آدمی حیرت کی تصویر ہو جائے۔
مسافروں کو متاثر بلکہ مرعوب کرنے کے لیے میزبان مبالغہ بہت کرتے ہیں۔ مذہبی اور اشتراکی ملائوں ایسا نہیں بلکہ شاعرانہ۔ بنیاد اس کی محبت ہی ہوتی ہے۔ میڈرڈ میں ایک دوست نے ایک مقامی پھل کے فوائد گنوائے۔ خلاصہ ان کا یہ تھا کہ جو آدمی یہ پھل کھا لے مصطفی کھر ہو جائے۔ بات ٹالنے کی کوشش کی مگر اس طرح وہ ڈٹ گئے، جیسے شہباز شریف اپنے موقف پر۔
بعد ازاں ان کے ہم نفسوں سے پوچھا تو ان میں سے ایک نے کہا: اپنے سسرال پچھلے دنوں مراکش گئے تھے۔ کچھ شہد وہاں سے اٹھا لائے۔ چین سے تب تک نہ بیٹھے، جب تک ہم میں سے ہر ایک نے کم از کم ایک بوتل خرید نہ لی۔ ان دنوں شہد ہی ان کے لیے آبِ حیات تھا، اب یہ پھل ہے۔
خان صاحب مختلف تھے۔ ایک پیدائشی میزبان مگر ریا سے پاک۔ ایسے ہی لوگ زمین کا نمک ہوتے ہیں۔ ایک دن پہلے دہشت گردی کا واقعہ ہوا تھا، ساری دنیا کو جس نے چونکا دیا تھا۔ ایسا بھرپور اور سائنٹیفک تجربہ انہوں نے کیا کہ اخبار نویس عش عش کر اٹھا۔ ذاتی کاروبار کبھی تھا۔ حادثے میں زخمی ہوئے۔ اب مترجم ہیں مگر کوئی شکایت زندگی سے نہیں۔ دھن دولت سے نہیں، آدمی کی توقیر اس کے کردار سے ہوتی ہے۔ فرمایا: کئی اخبار نویسوں سے میری بات ہوئی ہے۔ نتائج اخذ کرنے میں غلطی کا ارتکاب وہ کر رہے ہیں۔ ایک نیم پاگل شخص کا کارنامہ ہے۔ تربیت یافتہ تخریب کار ہوتا تو الکحل سے بھرا ٹرک نہیں، کچھ اور اس کا ہتھیار ہوتا۔ بعد میں ان کی رائے درست ثابت ہوئی۔ شکر گزاری اور حقیقت پسندی کا ایک ایسا امتزاج خان صاحب کی شخصیت میں کارفرما تھا کہ ایک پوری کتاب ان پر لکھی جا سکتی ہے۔
شام کو اپنے گھر پہ عشائیے کا اہتمام کیا۔ گاڑی ان کے گھر میں داخل ہوئی تو مکان کے جمال نے چونکا دیا۔ سبزہ و گل، سلیقہ، تہذیب اور ترتیب۔ فراوانی نہ بخل۔ دکھاوا نہ بھڑک۔ کمروں کی آرائش میں حسنِ ذوق مگر بے ساختگی۔ عرض کیا: پائیں باغ دیکھنا چاہتا ہوں۔ کہا کہ کچھ بھی نہیں۔ وہاں مگر سب کچھ تھا، خوش سلیقگی جس کا تقاضا کرتی ہے۔ ازراہِ کرم سفیرِ پاکستان طارق ضمیر تشریف لائے، ڈاکٹر امجد ثاقب نے ان سے ملاقات کی تاکید کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کو خدا خوش رکھے، اپنے دوست کے بارے میں ایک ایک بات ان کی درست نکلی۔ انسان دوست، علم دوست، منکسر اور متواضع۔ تین چار گھنٹے تک ایسی نشست رہی کہ قیام گاہ پہ پہنچے تو عالم یہ تھا: ابھی سے یاد میں ڈھلنے لگی ہے، صحبتِ شب۔
اللہ ہی جانتا ہے کہ پورا ہو گا یا نہیں مگر ارادہ کیا کہ مئی کے آخر یا جون کے اوائل میں ایک بار فقط زماں خان صاحب اور سفیر صاحب سے ملنے اس دیار آئوں گا۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تمہید میں کالم تمام ہو جائے۔ عمر بھر نئے لکھنے والوں کو میں نے نصیحت کی کہ تمہید، تحریر کی قاتل ہوتی ہے۔ آج مگر خود وہی کیا: دیگراں را نصیحت، خود میاں فضیحت!
رانا صاحب سے ملاقات کی روداد بیان کرنے کا ارادہ تھا، ملاقات جن سے خال خال ہوتی ہے۔ ایک ایسی حقیقت کا انکشاف انہوں نے کیا کہ زندگی کو شاید جو بدل ڈالے۔ لکڑی اگر واقعی خشک ہو چکی ہو۔ اب مگر کسی اور دن پہ اٹھا رکھنا ہو گا۔
چوبِ خشک کی حکایت آپ نے سنی ہے؟ کتنے ہی لوگوں سے منسوب ہوئی۔ اصلاً یہ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا واقعہ ہے۔
شیخؒ نے ایران کا قصد کیا تو کئی رفیق ہمراہ تھے۔ دور دراز کے ایک قصبے میں پہنچے۔ ایک پادری کا دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا: کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم کلمہ پڑھو۔ شیخ کی طرف اس نے دیکھا اور کہا: لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ۔ آپؒ کے چہرے پر اطمینان کے آثار نمودار ہوئے۔ ارشاد کیا: آج سے آپ کو میں ایران میں اپنا نائب مقرر کرتا ہوں۔
ہمراہی حیرت زدہ۔ آخر کار ایک نے جسارت کی۔ ایک عمر آپ کے ساتھ بتا دی، اعزاز اسے بخشا گیا، ابھی ابھی جسے ایمان لانے کی توفیق ہوئی ہے۔ فرمایا: وہ ایک خشک لکڑی ہے، تم لوگوں میں نم باقی ہے۔
جماعتِ اسلامی کے منتخب امیر سراج الحق نے پرسوں پرلے روز ارشاد کیا: ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے۔ ان سے میری گزارش یہ ہے کہ جنگل میں؟ تمیز اور تہذیب کے بغیر ہی؟
جنابِ سراج الحق! گیلی لکڑی ہی اگر برت لی جائے تو چھت کا کیا ہو گا؟ پنجاب یونیورسٹی نہ بن جائے گی؟ زمین پر نہ آ رہے گی؟ پورا ملک کیا پنجاب یونیورسٹی بنا دیا جائے؟