"HRC" (space) message & send to 7575

مگر

شکرگزار مگر کتنے ہیں اور اللہ کو یاد کرنے والے؟ بیشتر تو مجھ ایسے ہی، فقط باتیں بنانے والے،کالم نگار‘ اینکر‘ دانش ور‘ واعظ اور لیڈر۔
اشفاق احمد سے پوچھا گیا کہ مسرت کیا ہے؟ جواب حافظے پر نقش ہے: سرما کی خوشگوار دھوپ میں آپ مولی پر نمک چھڑک رہے ہوں۔ اتنے میں پڑوسیوں کی چھت پر نمودار ہونے والا نوجوان لڑکھڑا کے گر پڑے اور بے ساختہ آپ ہنس پڑیں۔
نکتہ کیا ہے؟ مولی اور فراغت نہیں‘ فقط سنہری دھوپ اور لڑکھڑاتا ہوا آدمی بھی نہیں بلکہ ایک بے ریا زندگی... اور بھی زیادہ صحیح الفاظ میں شاید غم و فکر سے آزادی۔
فانی بدایونی نے کہا تھا: دنیا میں سکھ کہیں نہیں‘ شاید صحرائوں اور جنگلوں میں ہو۔ نقاد نے اس پر یہ کہا: ساری عمر ناکامیوں میں بسر کرنیوالا فانی‘ موت کا گیت نہ گائے تو کیا کرے ؎
موت وہ دن بھی دکھائے مجھے‘ جس دن فانی
زندگی اپنی جفائوں پہ پریشاں ہو جائے
کیا زندگی سے شاعر نے کبھی لطف نہ اٹھایا۔ کیا کبھی اس کی معنویت اس پہ آشکار ہی نہ ہوئی۔ شاید ایسا نہیں‘ عرفان کا ایک لمحہ ضرور ان پر طلوع ہوا تھا تب وہ شعر انہوں نے کہا جو ہمارے شائستہ اطوار حمید اختر مرحوم کو بے حد پسند تھا ؎
یہ تو برے آثار ہیں فانی‘ غم ہو خوشی ہو کچھ تو ہو
یہ کیا دل کا حال ہوا‘ مسرور نہیں‘ مغموم نہیں
حیات کی حقیقت‘ قرآن کریم نے صاف صاف الفاظ میں بیان کر دی ہے یہ الگ بات غور کرنے کی فرصت ہم کبھی نہ پا سکیں اور ان چیزوں میں الجھے رہیں جن میں الجھنے کا ہرگز کوئی فائدہ نہیں۔ 
کثرت کی خواہش نے تمہیں ہلاک کر ڈالا/حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں/خبردار‘ جلد تم جان لو گے/پھر بے شک جلد تم جان لو گے/بالیقین پورے علم سے تم جان لو گے/پھر حقیقت کی آنکھ سے تم جہنم کو دیکھ سکو گے/پھر‘ نعمتوں کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔
خیال و فکر کی الجھنوں میں باورچی کو بتانا بھول گیا کہ دوپہر کو کیا پکانا ہے۔ عام طور پر وہ انتظار ہی کرتا رہتا ہے‘ خواہ سہ پہر ہی کیوں نہ بیتتی جائے۔ آج اس نے دانائی کا مظاہرہ کیا۔ گرما کی اس دوپہر کے لیے سبزی پکا دی۔
پروفیسر احمد رفیق اختر سے فرمائش کی جسارت کی: آپ کی خدمت میں حاضر ہوں تو کیا دیسی مرغی کا سالن موجود ہو گا۔ ہمیشہ کے استوار لہجے میں انہوں نے کہا: سورج آگ برساتا ہے۔ تمہارے لیے میں کنوئیں کے پانی سے سیراب ہونے والے ٹنڈے پکوائوں گا۔
باورچی کھانا لایا تو پوچھا: شب کا بچا ہوا زردہ کیا موجود ہے؟ ''بہت‘‘ اس نے بشاشت سے کہا۔ کام و دہن کی تواضع ہو چکی‘ کسل مندی جاتی رہی تو میں نے سلمان کے بارے میں سوچا۔ پرسوں رات سے اس کی شریک حیات میو ہسپتال میں داخل ہے۔ حیرت سے میں نے سوچا۔ اطمینان قلب کا ایک موقعہ تو میرے سامنے پڑا تھا۔ اگر میں اس بے بس خاتون کی تیمارداری کرنے جاتا۔ اگر ڈاکٹر خالد اعوان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ اگر وہ دعائیں میں اسے بتاتا‘ جو سرکارؐ نے مریضوں اور لواحقین کے لیے تعلیم کی ہیں۔
بریگیڈیئر انوار سے عرض کیا: براہ کرم سی ایم ایچ میں اس کے داخلے کا بندوبست کر دیجئے۔ کہا: ہسپتال لے جائیے‘ فوجی ہسپتال کے نائب کمانڈنٹ سے بات ہو چکی۔ عرض کیا: داخلے کی یقین دہانی اگر وہ کرائیں۔ حیرت اور کسی قدر الجھن سے انہوں نے کہا: آپ نے تو یہ ارشاد کیا تھا کہ میو ہسپتال کے معالجوں نے ٹال دیا ہے۔ عرض کیا: وہ پرسوں کی بات ہے۔ شعیب بن عزیز کی سفارش سے کل وہ مان گئے تھے۔
سی ایم ایچ کے منتظمین کا پہلا ردّعمل یہ تھا: فالج کے وارڈ میں میو ہسپتال کے ڈاکٹر تعداد میں زیادہ ہیں اور مہارت میں بھی۔ ''مگر وہ مریض کی پروا نہیں کرتے‘‘ بریگیڈیئر انوار کی درخواست پہ‘ بالآخر وہ آمادہ ہو گئے۔ اچانک خیال آیا‘ کچھ بارسوخ لوگوں سے اگر درخواست کی جائے۔ ایک سفارش سے داخلہ اگر ممکن ہو گیا تو ایک آدھ تگڑی درخواست سے‘ معالجہ بھی بہتر ہو جائے گا۔ یہ شہباز شریف کا پنجاب ہے۔ سندھ میں صورتِ حال اس سے بھی ابتر ہے اور بلوچستان میں بھی۔ کہا جاتا ہے کہ پختون خوا کے بعض ہسپتالوں میں حالات اب مختلف ہیں۔ سکولوں اور پٹوار خانوں میں بھی۔ 
کاروبار حکومت کا محور و مرکز کیا ہے؟ عمر فاروق اعظمؓ نے کہا تھا: عراق کے دلدلی راستوں پر‘ اگر کوئی خچر پھسل کر گر پڑا تو مجھے اندیشہ ہے کہ عمرؓ سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
لیجئے‘ ذہن پھر بھٹکنے لگا۔ اب وہ حکمرانوں کی مذمت پر آمادہ ہے۔ وہی عمران خاں کی طرح‘ دل کا بوجھ ہلکا کرنے‘ CATHARSIS کا شکار۔ آج کا موضوع تو مسرت کی تلاش ہے۔فنانشل ٹائمز کی وقائع نگار لوسی کیلاوے نے جوتے پالش کرنے والے ایک تعلیم یافتہ فرانسیسی کا حال رقم کیا ہے، جو بینک کاروں سے کہیں زیادہ شادمان ہے۔ اخبارنویس کو اس نے بتایا ''مجھے چالاک نہیں بننا پڑتا۔ اپنی خوشی سے میں بدھو بھی رہ سکتا ہوں۔ مجھے کسی کو متاثر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی‘‘۔
بغور اس کی زندگی کا جائزہ لینے کے بعد، ان کا تبصرہ یہ ہے، یہ واقعی ایک شاندار نکتہ ہے۔ آدھی زندگی میں نے دوسروں کو متاثرکرنے کی کوشش میں گزار دی، جس نے مجھے تھکا مارا۔جوتے پالش کرنے والے مارک نے بتایا‘ دوسری اچھی بات یہ ہے کہ اس کام سے ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔ اب گندے جوتوں کا ایک جوڑا لیتے ہیں۔ آٹھ منٹ میں وہ چمک رہا ہوتا ہے۔ جب میں چمکتے ہوئے جوتے پہن کر چلتی ہوں تو زیادہ بہتر، اچھا اور بااعتماد محسوس کرتی ہوں۔ دوسروںکو مسرت کا احساس دینا، خوشی کے حصول کا قابل اعتماد ذریعہ ہے۔جی ہاں، یہ ایک پہلو ہے۔ اسی لیے خوشیوں والے پیشوں میں، مالی مشیروں اور تجارتی وکلا کے مقابلے میں حسن کاروں BEAUTICIANS اور زلف تراشوںکا حال کہیں بہتر ہے۔
زندگی کیونکر سنور سکتی ہے‘ شادمان اور شاداب ہو سکتی ہے۔ اس سے پہلے شاید یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ زندگی ہے کیا؟... قرآن کریم کے سوا یہ راز کہیں اور نہیں کھلتا ''ہم نے تمہیں اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائیں کہ حسن عمل کا مظاہرہ کون کرتا ہے‘‘ ''ہم تمہیں آزمائیں گے، بھوک سے، خوف سے، مال کی تباہی، جانوں کے نقصان اور باغوں کی بربادی سے‘‘۔
سرخرو کون ہے؟ یزید یا امام حسینؓ؟ حسینؓ ایک ہی تھے۔ ایک ہی وقت میں، سب آزمائشیں، جن پر ڈالی گئیں۔ عامیوںکے لیے امتحان بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ جوتے پالش کرنے والے مارک کا مسئلہ شاید یہ ہو، اخبار نویس لوسی نے سوچا کہ ریٹائرمنٹ کے لیے اس کی جمع پونجی کوئی نہیں ''مگر میں ریٹائر ہونے کا ارادہ ہی نہیںرکھتا‘‘ اس نے کہا۔ پاکستان میں جوتے پالش کرنے والا آسودہ نہیں رہ سکتا۔ مارک ایک جوڑا پالش کرنے کے چار پائونڈ وصول کرتا ہے۔ مگر رحیم یار خان کے صادق بازار میں ایک پکوڑے بیچنے والے سے میں واقف ہوں جس نے عمر بھر تنگ دستی کی شکایت نہیں کی۔ کبھی کسی سے وہ فالتو بات نہیں کرتا۔ تقریباً ہر سال عمرہ کرنے جاتا ہے... اور سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اپنا نسخہ وہ چھپا کر نہیں رکھتا۔ سب لوگوں کے سامنے وہ بیسن تیار کرتا ہے۔ صرف ایک بار دیکھ کر ایسے ہی پکوڑے کوئی بھی بنا سکتا ہے۔ اس نے تصدیق کی مگر ''اتنا صبر سب میں نہیں ہوتا‘‘ زیادہ آمدن کے لالچ میں، برق رفتاری پر کبھی وہ آمادہ نہیں ہوتا۔ خواہ کتنا ہی اصرار کیا جائے۔ ایسے میں وہ بہرہ بن جاتا ہے۔ کوئی گنوارپن پر اترے تو دھیمے لہجے میں وہ کہہ دیتا ہے ''شہر میں اور بھی پکوڑے بیچنے والے موجود ہیں‘‘۔ رحیم یار خان جانا ہو تو کبھی اسے ملنے جاتا ہوں۔ کم کم ہی، کیونکہ اب قیمت لینے سے وہ انکار کر دیتا ہے۔ ''پچاس سال ہو گئے‘‘ اس نے کہا ''یوں بھی آج آپ مہمان ہیں‘‘۔ ایک بادشاہ کی طرح اپنے تخت پر براجمان، اس کے پاس زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ اپنے کام میں مگن اور اس سے پوری طرح وہ مخلص ہے۔
اچانک یہ خیال آیا‘ کیا قرآن کریم کی آیت اس نے سنی ہو گی ''ہر ذی روح کا رزق اللہ کے ذمے ہے‘‘۔ اللہ جانے‘ مگر عمل تو اس نے کیا ہے۔ سینکڑوں بار پڑھنے کے باوجود، ہمارا حال اب بھی یہ ہے:کثرت کی خواہش نے تمہیں ہلاک کر ڈالا/حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں/خبردار‘ جلد تم جان لو گے/پھر بے شک جلد تم جان لو گے/بالیقین پورے علم سے تم جان لو گے/پھر حقیقت کی آنکھ سے تم جہنم کو دیکھ سکو گے/پھر‘ نعمتوں کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔
اہل علم زیادہ جانتے ہیں۔ محدود سے علم اور مشاہدے نے جوکچھ بتایا اس کا خلاصہ یہ ہے: بے شک اللہ کی یاد سے دل قرار پاتے ہیں... اور یہ کہ شکرگزاروں کو اور بھی زیادہ عطا کیا جاتا ہے۔
شکرگزار مگر کتنے ہیں اور اللہ کو یاد کرنے والے؟ بیشتر تو مجھ ایسے ہی‘ فقط باتیں بنانے والے،کالم نگار‘ اینکر‘ دانش ور‘ واعظ اور لیڈر۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں