"HRC" (space) message & send to 7575

دردمند

آصف علی زرداری نے یہی کیا تھا اور اب میاں نوازشریف نے بھی۔ کیسے یہ مان لیا جائے کہ اس ملک کے لیے وہ دردمند ہیں؟
کوئٹہ سے آنے والا فوجی افسر پریشان تھا۔ جلسہ کرنے عمران خان کوئٹہ جا رہے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ اگر اس نے وہی کچھ کہا‘ جو جنرل مشرف کے خلاف اپوزیشن کے اجتماع میں‘ تو خرابی اور بڑھے گی۔ جنرل ناصر جنجوعہ ابھی کوئٹہ نہیں پہنچے تھے۔ جادوگری کا بھی آغاز نہیں ہوا تھا‘ بلوچستان کو جس نے بدل ڈالا۔
وہ ایک سادہ سا آدمی تھا۔ ایک برس پہلے رضاکارانہ طور پر اس نے وہ ذمہ داری قبول کرنے کا فیصلہ کیا ‘ جس کا بوجھ اٹھاتے بڑے بڑے گھبرایا کرتے۔ چھوٹی سی داڑھی ‘ تسبیح و مناجات اور بلند عزائم ‘سعید فطرت اور خوش اطوار۔ ''اللہ آپ کو عزت دے‘‘۔ اس کا تکیہ کلام تھا‘ جس سے آدمی کا دل وہ موہ لیتا۔
میرا خیال تھا کہ روایتی سی گفتگو ہو گی اور وہ پرلطف کھانا‘ میزبان بریگیڈیئر ترمذی، جس کے لیے مشہور تھا۔ تمام فوجی افسروں کے برعکس‘ تاخیر سے دفتر وہ آیا کرتے مگر کام میں جت جاتے تو بس جت ہی جاتے۔ ہزارہ کے سادات میں سے ہیں‘ جن کے اجداد نے کبھی اس خطّے پر حکومت کی تھی۔ 
بریگیڈیئر ترمذی کے دستر خوان پر‘ جس افسر کو میں نے دیکھا‘ اس کے تیور حیران کن تھے۔ کرّوفر اور شان و شوکت کا نام تک نہ تھا‘ جس کی آرزو تقریباً تمام فوجی افسروں میں ہوتی ہے۔ شلوار قمیض پہنے‘ یکسر وہ ایک عامی نظر آتا تھا۔ اپنے جی میں آسودہ اور اپنے فرائض کے احساس سے متفکرّ!
ایک برس بعد اب وہ پھر لوٹ آیا تھا۔ 2008ء نہیں‘ جیسا کہ غلطی سے دنیا ٹی وی کے پروگرام ''تھنک ٹینک‘‘ میں‘ میں نے کہہ دیا تھا۔ یہ 2012ء کا اختتام تھا۔ لاہور اور کراچی کے خیرہ کن جلسوں کے بعد‘ کپتان نے اب کوئٹہ کا قصد کیا تھا اور فوجی قیادت پریشان تھی۔ پچھلے اجتماع میں‘ اس نے کہا تھا : اگر میں بلوچ ہوتا تو میں بھی اسلحہ اٹھا لیتا۔
محمود اچکزئی سے ان دنوں اس کی یاد اللہ تھی۔ ایسی کہ جناب اچکزئی کو وہ محمود کہہ کر بلاتے اور اچکزئی اسے عمران کہا کرتے۔ دوسری چیزوں کے علاوہ‘ یہ اچکزئی کا پھیلایا ہوا زہر تھا‘ خان کے خیالات میں‘ جس نے آلودگی پیدا کر دی تھی۔ وہ ایک اعتبار کرنے والا آدمی ہے‘ ایک قریبی دوست‘ آسانی سے جسے گمراہ کر سکتا ہے۔
اپوزیشن کے پچھلے جلسہ عام کے سامعین میں محمود اچکزئی کے حامیوں کی اکثریت تھی۔ ہمیشہ اور ہر وقت جو اپنے تعصبات کی آبیاری کیا کرتا ہے۔ وہ شخص‘ جس نے کہا تھا کہ پختونخوا کے علاقے‘ افغانستان کا حصّہ تھے۔ اچکزئی ان لوگوں میں سے ایک ہے‘ عمر بھر جو اپنا ہی طواف کرتے رہتے ہیں۔
سامعین کی اکثریت‘ پاکستان مردہ باد اور بلوچستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتی رہی‘ مسلسل اور متواتر۔ نون لیگ کی تہمینہ دولتانہ ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہتی رہیں‘ ''نہیں‘ نہیں‘ مردہ باد نہیں‘ پاکستان زندہ باد‘‘۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز مگر کون سنتا۔ عمران خان نے اس کا مذاق اڑایا کہ بپھرے ہوئے ہجوم کے مقابل‘ بیکار کی جستجو وہ کرتی ہے۔ اس پر مجھے دکھ ہوا لیکن میں خاموش رہا۔ خان کو اندازہ نہ تھا کہ بلوچستان کے پشتون‘ قومی سلامتی کے کیسے پرجوش حامی ہیں۔ اچکزئی انہیں گمراہ نہیں کر سکتا۔
فوجی افسر نے مجھ سے کہا کہ عمران خان کو مجھے سمجھانا چاہیے۔ برسوں سے اب تک یہ جملہ میں سنتا آ رہا تھا اور اب اس سے مجھے چڑ ہونے لگی تھی۔ ''لیڈر کھلونا نہیں ہوتے۔ وہ ریموٹ کنٹرول سے نہیں چلائے جاتے‘‘۔ قدرے تلخی کے ساتھ میں نے کہا :'' کیا آپ کے پاس کوئی ایسا خیال ہے‘ جو اس کے سامنے پیش کیا جا سکے اور وہ قائل ہوسکے؟‘‘
بحث جاری رہی‘ بے تکلفی کے ساتھ۔ میرے چڑچڑے پن کو اس نے گوارا کیا اور اصرار کرتا رہا کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ اس زمانے میں گاہے گاہے بلوچستان میں جایا کرتا۔ سیاسی کارکنوں‘ دانشوروں‘ اخبار نویسوں اور فوجی افسروں سے ملا کرتا۔ بھارت‘ بلوچستان میں سرگرم تھا اور اس سے زیادہ المناک یہ تھا کہ برطانیہ اور امریکہ کی تائید اسے حاصل تھی۔ ناراض بلوچ لیڈر افغانستان لندن اور سوئٹزر لینڈ میں پناہ گزین تھے۔ ایم آئی سکس ایک منصوبے پر کام کر رہی تھی کہ بلوچستان اگر بھڑک اٹھے تو گوادر سے کراچی تک کی پٹی الگ کر دی جائے۔ الطاف حسین بھارت کا سب سے بڑا ہتھیار تھے۔ صرف براہمداغ بگٹی اور ہربیار مری ہی نہیں۔ امریکیوں نے کوئٹہ میں‘ اسلام آباد کے سفارت خانے سے بڑی عمارت تعمیر کرنے کا ارادہ کیا۔ کور کمانڈر جنرل جاوید ضیاء ڈٹ گئے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
عمران خان کے ساتھ‘ براہ راست بات کرنے سے میں نے انکار کر دیا۔ آخرکار یہ طے پایا کہ بلوچ سرداروں کا ایک وفد عمران خان سے ملاقات کرے۔ پاکستان کے حامی بلوچ سردار‘ خواہ وہ حکومت کے حامی ہوں یا مخالف۔ ڈٹ کر اپنے خیالات کی ترجمانی وہ کریں۔
آخرکار ایک دن وہ نمودار ہوئے۔ 2012ء کے موسم سرما کا ابھی آغاز ہی تھا‘ مگر بنی گالا کی بلندی پر‘ اس شب ہڈیوں کا گودا جمانے والی ٹھنڈ تھی۔ تین گھنٹے یہ ٹھنڈ میں نے گوارا کی۔ گفتگو میں مداخلت سے گریز کیا۔ اس کی ضرورت ہی نہ تھی۔ وہ یکسو اور فصیح لوگ تھے۔
ان کے ترجمان نے بات کا آغاز اس جملے سے کیا۔ ''خان صاحب! آپ کو ہم خدا نہیں سمجھتے کہ مدد کے طالب ہوں۔البتہ آپ کو بہتر انسان ہم سمجھتے ہیں‘‘۔خان جھینپ گیا : ''اللہ ہی جانتا ہے کہ بہتر انسان کون ہے‘‘۔
کوئی گوشہ انہوں نے تشنہ نہ چھوڑا۔ جنرلوں‘ اور سیاستدانوں کی حماقتیں‘ فیلڈ مارشل ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے کارنامے۔ فوجی آپریشن اور افغانستان کی سازباز‘ افغان جہاد کے اثرات اور ایرانیوں کے عزائم۔ گوادر کے مخالف ''دوست‘‘ عرب ممالک۔
پھر ان بلوچ سرداروں کا ذکر کیا‘ حکمرانوں کی بجائے‘ جو ریاست ہی سے نفرت کرنے لگے۔ قائداعظمؒ کے پاکستان سے۔ اکبر بگٹی جو مرکز کو بلیک میل کیا کرتے۔ خیر بخش مری اور محمود اچکزئی‘ افغان جنگ کے ہنگام جو کابل میں مقیم رہے اور پاکستان توڑنے کی سازشوں میں شامل و شریک۔ عطاء اللہ مینگل جو کبھی یہ کہا کرتے کہ خدانخواستہ پاکستان ٹوٹا تو بلوچستان کا نام‘ ہم پاکستان رکھ دیں گے۔ اب وہ ایک اور خیر بخش مری تھے۔
''پاکستان کا قصور کیا ہے؟ پاکستان سے محبت کرنے والوں کا قصور کیا ہے؟‘‘ بار بار انہوں نے دہرایا۔ درجن بھر دردمند‘ جب وہ باوقار اور بالاقامت لوگ رخصت ہوئے تو خان کا دل پگھل چکا تھا۔ اس نے صرف ایک جملہ کہا : سچے تو یہی لوگ ہیں۔
کوئٹہ میں عمران خان کا جلسہ حیرت انگیز تھا۔ پاکستان کا ترانہ اس میں بجایا گیا۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے گونجتے رہے اور ظاہر ہے کہ بلوچستان زندہ باد کے بھی۔
پھر ناصر جنجوعہ وہاں چلے گئے۔ بلوچستان کے جنرل اعظم خان۔ کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے‘ بلوچستان بدلنے لگا۔ جی نہیں‘ دیکھتے ہی دیکھتے کچھ نہیں بدلتا۔ ایک ایک دھاگہ پرو کرپیرہن بنتا ہے۔ ایک ایک قدم اٹھا کر سفر طے ہوتا ہے۔
کراچی ہو‘ بلوچستان یا قبائلی پٹی‘ شکست و ریخت کے خطرے سے پاکستان نکل گیا ہے۔ حکمران مگر وہی ہیں‘ اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔
لوگ اس پر غور کیوں نہیں کرتے کہ محمود اچکزئی‘ اسفندیار ولی اور مولانا فضل الرحمن ان کے حلیف ہیں‘ حتیٰ کہ شب و روز‘قتل ہوتے کشمیری‘ مولانا کو سونپ دیئے گئے ہیں۔کیا کشمیر کمیٹی کا چیئرمین اس شخص کو ہونا چاہیے؟
آصف علی زرداری نے یہی کیا تھا اور اب میاں نوازشریف نے بھی۔ کیسے یہ مان لیا جائے کہ اس ملک کے لیے وہ دردمند ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں