اقبالؔ نے سچ کہا تھا : تُو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من اور یہ کہا تھا ؎
خرد کی تنگ دامانی سے فریاد
تجلی کی فراوانی سے فریاد
گوارا ہے اسے نظارئہ غیر
نگہ کی نا مسلمانی سے فریاد
اتوار 21مئی2017ء کا دن تاریخ میں کس طرح یاد رکھا جائے گا؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔تمام قرائن البتہ یہ ہیں کہ ایک المناک سانحے کی حیثیت سے ۔ ذہنی شکست ، بزدلی ، اخلاقی زوال اور عاقبت نا اندیشی کا مظہر ۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
بنیادی اصول جب بھلا دئیے جاتے ہیں ، اس عظیم کائنات میں جو زندگی کا محور و مرکز ہیں تو عقل کے چراغ بجھ جاتے ہیں ۔ بڑے بڑوں کی ہمتیں ٹوٹ جاتی ہیں اور بادشاہ بھکاری ہو جاتے ہیں ۔
اڑھائی سو برس ہوتے ہیں ، لاہور کی تسخیر کے بعد ، جہاں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ، احمد شاہ ابدالی کا لشکر دلّی کے دروازے پر نمودار ہوا ۔اورنگزیب عالمگیر کا پڑپوتا تخت نشیں تھا، اسی کا ہم نام ،نواحِ برما سے وسطی ایشیا تک جس نے حکومت کی تھی ۔ مغلوں کا کروفر اب مگر تمام ہو چکا تھا ۔ پہلے مرہٹوں اور پھر مرہٹوں کو تاراج کر کے نمودار ہونے والے افغانوں نے ان کی کمر توڑ ڈالی تھی ۔ دارالحکومت کی حفاظت کے لیے دس لاکھ روپے درکار تھے ۔ زیادہ تر اچھی قسم کی توپیں خریدنے کے لیے مگر یہ مہیا نہ ہو سکے ۔ بادشاہ کی سنتا ہی کون تھا ۔ سرکاری خزانے کی حالت نواز شریف کی ایف بی آر سے بدتر تھی ،اسحٰق ڈار جہاں جس کو چاہتے رعایت دیتے اور جسے چاہتے پامال کر ڈالتے ہیں ، جس طرح پاکستان کی صنعت پارچہ بافی کو ۔
زوال کا آغاز جہانگیر کے عہد سے ہو گیا تھا ۔سری نگر کے خنک موسم میں دخترِ رز پہ جس کی بسر نہ ہو سکتی اور پیالی میں افیون گھول کر پیا کرتا ۔عشوہ طراز نور جہاں سے جس نے کہا تھا : ایک جام اور دو کباب کے بدلے اپنی سلطنت ہم نے تمہیں سونپ دی ۔ عیش و نشاط میں گم تھے ۔ ان کے امرا ، درباری ، جنرل اور جاگیردار بھی ۔ رقص و سرود کی محفلیں گرم رہتیں ۔ خاص طور پر کنیزوں کے لیے جو لباس بنے جاتے ، ایک شب استعمال کے بعد بے کار ہو تے ۔ چالیس روپے کی لاگت اس پہ آیا کرتی ۔ اتنے ہی روپوں میں دلّی کے کوچہ بلی ماراں میں ایک گھر خریدا جا سکتا ۔ 1801ء میں ایک روپیہ 25برطانوی پائونڈ کے برابر ہوتا تھا ۔ ہندوستان دنیا بھر کی معیشت کا 25فیصد تھا ۔
گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ،چالیس برس ہاتھ میں تلوار تھام کر حکمرانی کرنے والا اورنگزیب عالمگیر تو کیا ، اب کوئی شاہجہاں اورجہانگیر بھی نہ تھا ۔ علائو الدین خلجی کا تو ذکر ہی کیا ، جس نے آدھی دنیا پامال کرنے والے تاتاریوں کا منہ پھیر دیا تھا ۔
کسی مزاحمت کے بغیر احمد شاہ ابدالی دلّی میں داخل ہوا اور چند ہفتوں میں 8کروڑ روپے سمیٹ چلتا بنا ۔ شہر میں مخبر اس کے پھیل گئے ۔ ایک ایک دولت مند کی خبر لائے ۔ ان میں سے ایک کے بارے میں اطلاع تھی کہ لاکھوں چھپا رکھے ہیں ۔ دربار میں حاضر ہوا تو مکر گیا ۔ مخبر کو اپنی اطلاع کی صداقت پہ اصرار تھا ۔ کوڑوں سے پیٹا گیا مگر مان کر نہ دیا ۔ بالآخر اس کی بوڑھی بیمار ماں لائی گئی ۔ بیٹے کے لیے جاں بخشی کے وعدے پر اس نے بتایا کہ دولت کے ڈھیر پڑے ہیں اور اسی حویلی میں ۔ فاتح کے حکم پر بلند و بالا دیواریں گرا دی گئیں تو سونے کے قدِ آدم شمع دان برآمد ہوئے ۔ آج کے عربوں کی حالت عہدِ زوال کے مغلوں سے بدتر ہے ۔دو عشرے قبل برادر ملک کے ایک شاہ نے تین ارب ڈالر سپین کے تفریحی دورے پہ برباد کر دئیے تھے ، جو تب پاکستان کے کل دفاعی بجٹ کے برابر تھے ۔ سیال سونے کے ڈھیروں پروہ محوِ خواب ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ ہزار ارب ڈالر کا اسلحہ ان کے پاس ہے ، بیکارِ محض ۔ بالشت بھر کے اسرائیل سے اپنا دفاع وہ نہیں کر سکتے ۔ ان کی مجموعی عسکری قوت پاکستان ایسے غریب ملک کے برابر بھی نہیں ، جس کا دفاعی بجٹ 8بلین ڈالر سالانہ سے کبھی نہ بڑھ سکا ۔ اس کی جانباز سپاہ کو بھارت مگر دھمکیاں ہی دے سکتاہے ، جھکا نہیں سکتا ۔ 1971ء کے سانحہ سے سبق سیکھ کرجس نے اعلیٰ درجے کے ایٹمی اور میزائل پروگرام تکمیل کو پہنچائے ۔ انٹیلی جنس کا اتنا اعلیٰ ادارہ تشکیل دیا گیا کہ پاس پڑوس کا کوئی ملک ، چھپ کر وار نہیں کر سکتا ۔ بھارت تو الگ ، ہود بھائی، عاصمہ جہانگیر اور نجم سیٹھی بھی گریہ کناں رہتے ہیں ۔ اپنی بدترین کمزوریوں اور پہاڑ ایسی غلطیوں کے باوجود پاکستان دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک فوج اگر تشکیل دے سکا تو عرب کیوں ایسا نہ کر سکے ؟ اپنے قلب میں اسرائیل ایسی دہشت گرد ریاست قائم ہونے کے باوجود تاریخ کے چوراہے پر لمبی تان کر وہ سو گئے ۔ اب اپنی حفاظت کے لیے دوسروں کے وہ محتاج ہیں ۔ بھیڑ اب چیتے سے یہ کہتی ہے کہ بھیڑیے سے اسے بچا لے ۔
آدمی اپنی اولین ترجیحات کا اسیر ہوتا ہے ۔ اپنی حفاظت آدمی کی جبلت ہے ۔ عربوں پہ کیا بیتی کہ جبلی تقاضے تک کھو دئیے ۔ کسی معاشرے میں زوال کی یہ انتہا ہوتی ہے کہ بہترین وسائل کے باوجود اپنے تحفظ کی بھیک وہ دوسروں سے مانگا کرے ۔ گجراتی مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کو پے درپے دوروں کی دعوت دے کر ، اعلیٰ ترین تمغے اور اعزازات دے کر پاکستانی حکومت اور سپاہ کو انہوں نے مجبور کیا کہ ایک جنرل اورچند سو فوجی مشیر فراہم کرے ۔ اس سے عربوں کا بھلا ہوگا اور نہ پاکستان کا۔اکیلا چنا کیا بھاڑ جھونکے گا۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا وہ قول اب سچا ہوتا دکھائی دیتاہے کہ دمشق میں یہودیوں کا سامنا ترک اور ہند کے مسلمان کریں گے ۔ یہ ارشاد جب آپؐ نے کیا تھا تو ہندوستان اور ترک سرزمینوں میں ایک مسلمان بھی موجود نہ تھا ۔ آج عالمِ اسلام کی دوبہترین افواج میں سے ایک ترکیہ کی ہے اور دوسری پاکستان کی ۔ آخری تجزیے میں وہی اس قابل ہیں کہ اسرائیل کو پچھاڑ سکیں ۔ عرب تو ان کے سامنے بچھ گئے ۔
جیسا کہ اس کالم میں کئی بار لکھا گیا ، ایران پر بھی جائز الزامات ہیں ۔ ایک لفظ ان کے اخبارات میں پاکستان کے حق میں نہیں چھپ سکتا ۔ دبئی کا ایرانی سفارت خانہ پاکستان میں بعض فرقہ پرست رہنمائوں کی مستقل مالی مدد کرتاہے ۔ عزیر بلوچ کوپناہ انہوں نے دی تھی ، کلبھوشن یادیو وہیں سے آیا تھا۔ بجا ارشاد، بحرین ، یمن ، شام اور عراق میں امن نہیں ، ایران عدمِ استحکام کا باعث ہے ۔خدا لگتی یہ ہے کہ نفرت کے اس کھیل کا تنہا وہ کھلاڑی نہیں ۔ عرب بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں ۔ حل کیا ہے ۔ بحرین اور یمن میں شیعہ اقلیتوں کی دلجوئی یا ان پہ آتش و آہن کی بارش؟ شام اور عراق میں قرار کے لیے بات چیت یا امریکہ سے سازباز ۔ ایران سے اختلافات قابلِ فہم ، سنگین اختلافات ۔ امریکہ اور اسرائیل مگرکب سے مسلمانوں کے دوست ہو گئے کہ 43مسلم ممالک ''شیخ الاسلام ‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ کا خطبہ سنیں ، کورنش بجا لائیں اور ساڑھے تین سو بلین ڈالر کی نذر پیش کریں ۔ اقبالؔ نے سچ کہا تھا : تُو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من اور یہ کہا تھا ؎
خرد کی تنگ دامانی سے فریاد
تجلی کی فراوانی سے فریاد
گوارا ہے اسے نظارۂ غیر
نگہ کی نا مسلمانی سے فریاد