ٹالسٹائی نے یہ کہا تھا: ہار پھولوں سے نہیں‘ دھاگے سے بنتا ہے۔ وہ دھاگہ کہاں ہے؟
کچھ کام ایسے ہیں‘ عمران خاں جو کر سکتے ہیں‘ کچھ ایسے ہیں جو وہ بالکل نہیں کر سکتے۔ آدمی کی محدودات ہوتی ہیں اور اس کی افتادِ طبع۔ انسانوں کی اکثریت کا معاملہ یہ ہے کہ جیسے وہ جنم لیتے ہیں‘ ایسے ہی مر جاتے ہیں۔ جدید ترین تحقیقات یہ کہتی ہیں کہ آدمی کی شخصیت کا بڑا حصّہ رحم مادر میں تشکیل پا جاتا ہے‘ اس کی جینیات پھر اس کے والدین‘ اساتذہ‘ ماحول اور سنگی ساتھی‘ جن کے انتخاب میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔
بائیس برس پہلے اولین طویل ملاقاتوں میں‘ ایک سے زیادہ بار وجہ جاننے کی کوشش کی کہ اس کی خیرہ کن کامیابیوں کا راز کیا ہے... بدترین ناکامی کے بعد‘ ایک عظیم کھلاڑی کی نمود‘ عالمی کپ اور شوکت خانم ہسپتال ایسے ادارے کی تشکیل۔ اس کا جواب یہ تھا: اپنی حدود سے میں واقف ہوں۔ افسوس کہ اب وہ نہیں ہے۔
2012ء کے اواخر میں‘ لاہور میں اپنے دوسرے تاریخی جلسہ عام سے پہلے‘ جسے بارش کی بے پناہی نے آ لیا تھا‘ رفقا کو مشورے کے لیے اس نے مدعو کیا۔ اتفاق سے میں بھی موجود تھا۔ عرض کیا: نواز شریف پر بے رحمانہ تنقید سے گریز کیجئے۔ اب اس سے کچھ حاصل نہیں۔ اس نے وعدہ کیا مگر یہ کہا: مگر دل کا بوجھ ہلکا کرنے سے‘ شب کو نیند مجھے اچھی آتی ہے۔
''جب تم الجھ جائو تو راسخونَ فی الِعلمُ سے رجوع کیا کرو‘‘... قرآن کریم کہتا ہے۔ مگر جب آدمی خود کو برگزیدہ سمجھنے لگے۔ اس کے اردگرد جب ایسے لوگ جمع ہو جائیں‘ جو اسے کائنات کی عظیم ترین ہستی کے طور پر پیش کریں؟
جنگ نہاوند فیصلہ کن تھی۔ سیف اللہ خالد بن ولید کی بجائے عمر فاروق اعظمؓ نے ذاتی طور پر قیادت کا فیصلہ کیا تو تمام کا تمام عرب امڈ آیا۔ خطاب کے فرزند نے کہا تھا: میں چاہتا ہوں کہ ایران اور عرب کے درمیان آگ کی ایک دیوار کھڑی ہو جائے۔ اب مگر کوئی دیوار نہ تھی اور ایک کے بعد دوسرا معرکہ۔ طے یہ پایا کہ دو عالمی طاقتوں میں سے ایک‘ ایران پر فیصلہ کن وار کیا جائے۔ اس کے لیے فاروق اعظمؓ سے بہتر کون ہوتا‘ جن کے بارے میں سرکارؐ نے یہ کہا تھا: میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتے۔
حکم یہ تھا اور ان کا شعار بھی یہی‘ ''وامرھم شوری بینھُم‘‘ ان کے کام باہم مشورے سے انجام پاتے ہیں۔ خوب مشورہ انہوں نے کر لیا تھا۔ سبھی کا اتفاق رائے اس پر تھا کہ امیرالمومنین کی موجودگی ہمتوں کو بلند اور جذبوں کو جگا دے گی۔
لیکن پھر سیدنا علی ابن طالب کرم اللہ وجہہ نمودار ہوئے اور انہوں نے یہ کہا: جنگ ایک ہنڈولا ہے‘ جو کبھی نیچے اور کبھی اوپر جاتا ہے۔ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو اسلام کا کیا ہو گا؟... مشاورت کی مجلس پھر سے طلب کی گئی کہ ابن ابی طالبؓ عالموں کے عالم اور دانائوں کے دانا تھے۔ زمام کار تاریخ کے سب سے کامیاب جنرل کو سونپ دی گئی اور عہد جاہلیت کا ایران‘ ہمیشہ کی نیند سو گیا۔
اس کے علاوہ کہ حد سے زیادہ اعتماد کا وہ شکار ہے۔ دو مسئلے بنیادی ہیں۔ اوّل یہ کہ ذہن اس کا سیاسی نہیں‘ ثانیاً اس کے مشیر ناقص ہیں۔ اکثر خوشامدی (Sycophants)۔ تین برس ہوتے ہیں‘ اس نے فرمائش کی: پنجاب اور پختونخوا کے طرزِ حکومت کا ایک موازنہ تم کیوں نہیں لکھ دیتے۔ ''بخوشی‘‘ میں نے کہا ''مگر اس کے لیے کچھ دن پشاور میں گزارنا ہوں گے‘‘۔ اس وقت تک ایک ارب درخت گاڑنے کا تصور تک نہ ابھرا تھا۔ ہسپتالوں کا وہ نظام وجود میں نہیں آیا تھا‘ مسلسل اور متواتر‘ جس کے لیے اس نے جدوجہد کی۔ تعلیمی اداروں کی تعمیر نو کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا۔ پولیس کو آزادی البتہ دے دی گئی تھی۔ پٹواری کا عشروں سے رستا ناسور مندمل ہونے لگا تھا۔ یہ ذمہ داری ایک صوبائی وزیر شاہ فرمان کو اس نے سونپی۔ آئندہ کئی ماہ تک اس سے رابطہ کرنے کی کوشش میں کرتا رہا۔ بوکھلایا ہوا وزیر میرے لیے چھوٹے بھائی کی طرح تھا مگر یہ کارِ عظیم وہ انجام نہ دے سکا۔
دو ماہ قبل پھر اس نے فریاد کی۔ ایک ذرا سا کام تم میرا نہیں کرتے۔ میں نے کہا: جنگلات کے سیکرٹری‘ وزیر اعلیٰ اور انسپکٹر جنرل پولیس سے تمام بات کرو۔ منگل کے دن میں پشاور چلا جائوں گا۔ اسی وقت فون پر اس نے بات کی۔ خوش اخلاق عون محمد کو ذمہ داری سونپی مگر لمبی تان کر وہ سو گیا۔ گزشتہ جمعہ کو ایک بار پھر اس نے فون کیا۔ عرض کیا‘ حضور‘ میں کیا کروں۔ افیون کھا کر آپ کے لوگ پڑے رہتے ہیں۔ کمال جوش و جذبے کے ساتھ‘ اس نے کہا: ابھی میں بندوبست کرتا ہوں۔
چند گھنٹے بعد‘ عون محمد کا فون آیا۔ ''شاہ فرمان کو میں نے مطلع کر دیا ہے‘‘۔ اب میرا صبر جواب دینے لگا۔ گزارش کی کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مہینوں تک اسے میں ڈھونڈتا رہوں گا۔ کپتان نے تاکید کی؛ چنانچہ وہ گھبرایا اور سوال کیا: آپ کیا چاہتے ہیں۔ عرض کیا: بہترین یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سے ایک ملاقات۔ سیکرٹری جنگلات اور آئی جی کی موجودگی میں۔ ایسی صورت میں‘ سوموار کی شب ہی میں پشاور جا سکتا ہوں‘ لاہور سے براہ راست۔ خوشخبری عون محمد نے سنائی کہ میرے قیام کا بندوبست ایوان وزیر اعلیٰ میں ہے۔ چند گھنٹوں میں نہیں تو باقی بندوبست اتوار تک ہو جائے گا۔
سات دن گزر چکے۔ برادرم عون محمد کا فون نہیں آیا۔ آئے گا بھی نہیں‘ الّا یہ کہ کپتان اس کے سر پہ سوار ہو جائے۔
ناکردہ کار اور نالائق لوگوں کے ٹولے ہیں‘ خوش اخلاق‘ بظاہر بڑے ہی مخلص‘ ایثار کیش اور جی دار۔ پنجابی محاورے کے مطابق مگر تنکا توڑ کر دوہرا نہیں کر سکتے۔ خوش گپیوں میں آسودہ‘ مستقبل کے حسین خوابوں میں گم۔ خود تنقیدی کا شعور دور دور تک نہیں‘ منصوبہ بندی کا نام و نشان تک نہیں۔ مالی ایثار وہ کرتے ہیں اور بھاگ دوڑ بھی مگر کسی ترتیب کے بغیر‘ کسی نظام اور لائحہ عمل کے بغیر۔
ملک کی اہم ترین عسکری شخصیات میں سے ایک نے کہا: پختون خوا اور دوسرے صوبوں کے طرزِ حکومت میں زمین و آسمان کا طرف ہے۔ "Phenominal difference" ان کے الفاظ تھے۔
نالائق اور ناتجربہ کار ارکان اسمبلی، ناتجربہ کار وزرا، اس کے باوجود، نجی سکولوں سے ایک لاکھ بچے، سرکاری سکولوں میں چلے گئے۔
پنجاب اور پختونخوا کے ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کا کوئی موازنہ ہی نہیں۔ ایک میں مکمل بے نیازی اور ایک میں فکر مندی۔ چند ماہ بعد الیکشن کی کڑی آزمائش سے دوچار ہونے والی ایک حکومت، اگر اپنی کامیابیاں اجاگر ہی نہ کر سکے۔ مخالفین پروپیگنڈا کے میدان میں، اگر اسے پچھاڑ دیں تو ذمہ دار کون ہے؟
پہاڑ ایسی غلطیاں اپنی جگہ، تحریک انصاف کی کارکردگی، شہباز شریف سے بدرجہا بہتر ہے۔ اس کا مگر کیا کیجئے کہ تین سال میں ایک اخبار نویس کو اسلام آباد سے پشاور لے جانے کا بندوبست نہ ہو سکا۔ لے جانے کا نہیں‘ تین عدد سرکاری شخصیات سے ملاقات کا۔ اتنی کوشش‘ صدر اوباما یا ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے کی ہوتی تو شاید کامیاب رہتی۔
بار بار اب فریاد سے کیا حاصل کہ اپوزیشن لیڈر کی بجائے‘ اپنا اُسے ایک حکمران کا امیج بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کاروباری طبقات اور ان عالمی طاقتوں سے تعلقات کار استوار کرنے چاہئیں‘ پاکستان پر جو اثرانداز ہوتی ہیں۔ چین‘ ترکی‘ ایران سعودی عرب اور انکل سام۔ افسر شاہی کی تعمیر نو‘ پولیس‘ ریلوے‘ دہشت گردی‘ بلوچستان‘ کراچی‘ زراعت‘ صنعت اور تعلیم کے لیے ورکنگ گروپ اسے بنانا چاہئیں۔ فقط فردوس عاشق اعوان‘ نور عالم اور مصطفی کھر کی شمولیت سے ہدف حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
ترجیحات! جو لیڈر ترجیحات طے نہ کر سکے‘ کچھ بھی وہ حاصل نہیں کر سکتا۔ قائد پرعزم ہے اور کارکن مخلص مگر ترتیب؟ مگر سلیقہ؟
ٹالسٹائی نے یہ کہا تھا: ہار پھولوں سے نہیں‘ دھاگے سے بنتا ہے۔ وہ دھاگہ کہاں ہے؟