"HRC" (space) message & send to 7575

مکافاتِ عمل

پروپیگنڈا افریقی ہتھیار بوم رنگ کی طرح ہوتا ہے، کبھی کبھی وہ حملہ آور کی طرف ہی پلٹ آتا ہے۔ یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے۔ ہر ایک کو وہی کاٹنا ہے، جو اس نے بویا ہو۔
نہال ہاشمی سے زیادہ ناشائستہ گفتگو شیخوپورہ کے جاوید لطیف نے قومی اسمبلی میں‘ عمران خان کے بارے میں کی تھی۔ ان کی ایسی ہی ایک دوسری گفتگو یُو ٹیوب پر موجود ہے۔ ایسی ہے کہ نہال ہاشمی صاحب شرما جائیں۔ پنامہ کیس والے بنچ کا فیصلہ سامنے آنے سے پہلے رانا ثنااللہ صاف صاف الفاظ میں یہ دھمکی دے چکے کہ وزیرِ اعظم کے خلاف سپریم کور ٹ کا فیصلہ قبول نہیں کیا جا سکتا۔ آج بھی نون لیگ کے کئی حامیوں کی ایسی ٹویٹس فیس بک پہ جگمگا رہی ہیں۔ 
جناب عابد حسن منٹو نے بالکل ٹھیک کہا: صرف ایک فریق اور جماعت نہیں، سبھی کا حال یہ ہے۔ آزادی پا کر پورے کا پورا معاشرہ ہیجان میں مبتلا ہے، مادر پدر آزادی۔ وہ جو اقبالؔ نے کہا تھا '' آزادیء افکار ہے ابلیس کی ایجاد‘‘ شریف خاندان کے بارے میں اس قدر بیہودہ ٹویٹ دیکھنے میں آتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ ظاہر ہے کہ شریف خاندان کے حامی نہیں، یہ ان کے مخالفین کرتے ہیں۔ 
پچھلے دنوں ایک ٹویٹ شریف حکومت کے بارے میں کیا۔ غلطی پر میں ہو سکتا ہوں مگر وہ بات کہنے سے گریز کرتا ہوں، جسے دہرا نہ سکوں، اپنا نہ سکوں۔ غلیظ گالیوں کی ایک بوچھاڑ جواب میں شروع ہوئی‘ اب تک جو جاری ہے۔ کبھی ایم کیو ایم اور اے این پی والے اس طرح کی حرکتیں کیا کرتے تھے۔ اب کسی قدر وہ سنبھل گئے۔ پے در پے شکستوں نے تھوڑی سی آدمیت پیدا کر دی۔ ہیجان، احساسِ کمتری اور عدمِ تحفظ کے مارے ایک معاشرے میں نا شائستگی کا ارتکاب بھی ہو گا۔ ہر چیز کی مگر ایک حد ہوتی ہے۔ ایم کیو ایم کے بعد، برسوں تک پورے میڈیا کو جس نے یرغمال بنائے رکھا، یہ نون لیگ ہے، ناشائستہ اظہارِ خیال کو مستقلاًجو ایک سیاسی حربے کے طور پر برتنے پر تلی رہتی ہے۔ یہ الگ بات کہ سرکاری اخبار نویس اس الزام میں اس کے مخالفین کو رگیدا کرتے ہیں۔
تحریکِ انصاف؟ جی ہاں، تحریکِ انصاف بھی۔ فرق یہ ہے کہ اقتدار بچانے کے لیے نہیں، نون لیگ کا اقتدار ختم کرنے کے لیے۔ اسے وہ کارِ ثواب سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے نہیں کہ اس طرح حاصل ہونے والا اقتدار نعمت نہیں، ایسی زحمت بنے گا کہ شاعر کے بقول کہرام کی طرح جشنِ طرب منائیں گے۔ 
عمران خان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ جذبات کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ کل کے اشتراکیوں اور آج کے بعض ملّائوں کی طرح۔ دنیا کی سیاسی تاریخ میں ''سونامی‘‘ اور ''جنون‘‘ ایسے الفاظ کب کسی لیڈر نے برتے ہوں گے؟ جی ہاں! تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ ایک برطانوی سفیر نے 1968ء کے لگ بھگ ایک سفارتی ٹیلی گرام میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں لکھا تھا "He is born to be hanged"۔ ہمیشہ اپنے مخالفین کی تضحیک اور تحقیر پر تلے رہتے۔ خان عبدالقیوم خان کے بارے میں ارشاد کیا: آگے بھی خان، پیچھے بھی خان، ڈبل بیرل خان۔ یہ الگ بات کہ ان کے دربار میں حاضر ہوئے تو وفاقی وزیرِ داخلہ بنا دیا۔ 
تحریکِ انصاف پہ تنقید زیادہ ہوتی ہے۔ کردار کشی اوّل روز سے نون لیگ کا ہتھیار ہے۔ 1988ء کے الیکشن میں حسین حقانی اینڈ کمپنی نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور محترمہ نصرت بھٹو کے حوالے سے جو کچھ مرتب اور شائع کیا، وہ ہماری تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ ان میں سے کبھی کسی کو اس پر شرمندگی نہ ہوئی۔ شرمندگی تو کجا، 1993ء میں محترمہ اقتدار میں آئیں تو اسی حسین حقانی کو سیکرٹری اطلاعات مقرر کیا۔ عملاً تسلیم کر لیا کہ کامیابی کے لیے ایسے ہی لوگ درکار ہوتے ہیں۔ 
دوسری طرف شیخ رشید تھے۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں ایسے جملے نواب زادہ نصراللہ خان اور محترمہ کے بارے میں ارشاد کرتے کہ آدمی حیران رہ جاتا‘ یکسر بازاری زبان۔ کچھ یاد آرہے ہیں مگر افسوس کہ نقل نہیں کیے جا سکتے۔ آخر کار کلاشنکوف کا ایک جعلی مقدمہ بنا کر بہاولپور جیل میں ڈال دیے گئے۔ مجال ہے کہ آج تک اپنی غلطی کا انہوں نے اعتراف کیا ہو۔ تب میاں محمد نواز شریف ان کے سرپرست تھے۔ نون لیگ والے اس طرح انہیں داد دیا کرتے، جس طرح سخن شناس اچھے شعر پہ دیتے ہیں۔ اس قادر و عادل کا انصاف دیکھیے کہ وہی شیخ رشید آج نون لیگ پہ مسلط ہیں۔ گالی اب نہیں دیتے، حالات اس کے لیے اب سازگار نہیں مگر گالی سے ادھر سب کچھ روا رکھتے ہیں۔ عمران خان اس پہ شادماں ہوتے ہیں۔ اس دن سے وہ ڈریں، جب وہ خود ان کی زد میں آئیں گے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: احد پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے، مگر عادت نہیں بدلتی۔ 
کاش اپنے کارکنوں کی عمران خان نے تربیت کی ہوتی۔ کاش عملی سیاست کے تقاضوں کا انہیں ادراک ہوتا۔ کاش وہ غور کرتے کہ اپنے حریفوں کے باب میں قائدِ اعظم ؒ کا طرزِ عمل کیا تھا۔ ملّائوں کی گالیوں اور کردار کشی کے جواب میں ایک دائمی اور با وقار سکوت۔ آخر کار عظمت ان پر ٹوٹ کر برسنے لگی اور آنے والی تمام صدیوں میں برستی رہے گی۔ سالِ گزشتہ جب عمران خان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا طاہرالقادری ان سے ناراض ہیں‘ تو جواب میں انہوں نے کہا کہ میں کون سا ان سے رشتہ لینے جا رہا ہوں۔ یہ شیخ صاحب کی صحبت کا نتیجہ ہے۔
1996ء کے انتخابات میں نون لیگ کے میڈیا سیل نے عمران خان کو 30 سیٹوں کی پیشکش کی۔ مشاہد حسین یہ پیشکش لے کر گئے تو کپتان نے کہا: مشاہد صاحب، ایمان سے کہیے کہ شریف خاندان کیا مالی بدعنوانیوں کا مرتکب نہیں ہوا؟ سید صاحب اس پر خاموش رہے۔ ہیں تو وہ بھی سیاستدان ہی، سفید جھوٹ بولنے کا بوتا مگر ان میں نہیں۔ 
اب خان کی کردار کشی کا آغاز ہوا۔ اس کی تفصیلات اس قدر دلدوز ہیں کہ بیان کرتے حیا آتی ہے۔ یہی نہیں، حکومت بن چکی تو لاہور میں تحریکِ انصاف کے دفاتر پہ چھاپے مارے جاتے۔ اس کے بینر اتار دیے جاتے؛ حتیٰ کہ جمائما خان پر نادر ٹائلوں کی چوری کا مقدمہ بنایا گیا۔ سال بھر وہ پاکستان نہ آ سکی۔
خدا لگتی یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی وہ ریمارکس ہرگز نہ دینا چاہئیں تھے، جو انہوں نے دیے۔ جیسا کہ ہمیشہ کہا جاتا ہے، ججوں کو اپنے فیصلوں میں بولنا چاہیے۔ 
ہیجان میں سبھی مبتلا ہیں۔ شریف خاندان کا مگر یہ ہے کہ فوج کے بعد اب عدلیہ کو ہدف کرکے وہ سیاسی شہادت کا آرزومند ہے۔ کامیابی گمراہ کر دینے والی چیز ہے۔ عقل آدمی کی خبط ہو جاتی ہے۔ جسٹس عظمت سعید پہ اعتراض کرنے والے بھول گئے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کبھی شریف خاندان کے وکیل تھے۔ 
پروپیگنڈا افریقی ہتھیار بوم رنگ کی طرح ہوتا ہے، کبھی کبھی وہ حملہ آور کی طرف ہی پلٹ آتا ہے۔ یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے۔ ہر ایک کو وہی کاٹنا ہے، جو اس نے بویا ہو۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں