دن نکلتا دکھائی دیتا ہے، رات کٹتی نظر نہیں آتی۔ خرد کی تنگ دامانی سے فریاد، نگہ کی نا مسلمانی سے فریاد!
بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں عجیب واقعہ ہوا۔ زراعت میں ترقی کی شرح سات فیصد ہو گئی۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو اس آدمی کا ذکر پھر سے شروع ہوا، یہ کرامت جس نے دکھائی تھی۔۔۔ ڈاکٹر ظفر الطاف!
ڈاکٹر ایک عجیب آدمی تھا۔ اس کی محفل میں امید جاگ اٹھتی ۔ ہمیشہ مثبت اندازِ فکر اور تازہ خیالات ، امکانات کی لا محدود منتظر کائنات ۔ تعصبات سے بالا، تجزیے میں حیرت انگیز حد تک حقیقت پسند ، صداقت شعار ، متوکل اور بے ریا۔
جولائی 2012ء میں جس روز ''دنیا‘‘ سے وابستگی مجھے اختیار کرنا تھی، لاہور سے اسلام آباد تشریف لائے چیف ایڈیٹر تین گھنٹے میرا انتظار کرتے رہے۔ ایک کالم میں یہ ناچیز اپنی جان کھپا رہا تھا ۔ زرعی ترقیاتی کارپوریشن کے چیئرمین کی حیثیت سے ڈاکٹر صاحب نے اپنی ذمہ داریوں کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ یہ بہت صدمے کا دن تھا۔ اس غم کو متشکل کرنے کے لیے ، میں اپنے لہو کی وحشت اور آنسوئوں کو عبارت میں ڈھالنے کی کوشش کرتا رہا۔ یہ سانحہ نذر گوندل نامی اس سیاستدان کی وجہ سے رونما ہوا تھا، جو بدھ کو تحریکِ انصاف میں شامل ہو گئے۔
ڈاکٹر صاحب آج ہم میں موجود نہیں ، وگرنہ کیسا شدید صدمہ انہیں پہنچتا ۔ کرکٹ ٹیم کے وہ منیجر رہے تھے۔ جزئیات کے رسیا، اس کے تانے بانے کا خوب ادراک رکھنے والے ڈاکٹر ظفر الطاف دو کھلاڑیوں کا ذکر بہت تکریم سے کیاکرتے۔ حفیظ کاردار اور عمران خان۔ ان کے لیے وہ پاکستانی کرکٹ کے معمار تھے۔
ڈاکٹر صاحب کو سول سروس سے سبکدوش ہوئے چھ برس بیت چکے تھے۔ یوسف رضا گیلانی نے ان سے بات کی۔ کہا، کوئی بھی منصب جو آپ پسند کریں ۔ وفاقی وزارت یا ہر سال اربوں کے قرضے جاری کرنے والے زرعی ترقیاتی بینک کا چیئرمین۔ ڈاکٹر صاحب نے انکار کر دیا۔ ''میں ان لوگوں کے ساتھ کام نہیں کر سکتا ‘‘ دوستوں سے انہوں نے کہا۔ ہر حکمران کو، خواہ وہ کتنا ہی گیا گزرا ہو، مردانِ کار کی ضرورت ہوا کرتی ہے کہ کچھ تو کر دکھائے۔ سوچتے رہے ، وہ سوچتے رہے کہ کس طرح اس شخص کو آمادہ کریں ، جوشِ عمل ، حسنِ عمل میں ، جس کا کوئی ثانی نہیں۔
شب رئوف کلاسرا کو انہوں نے فون کیا ''آپ سے ایک کام آن پڑا ہے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کو براہِ کرم آمادہ کیجیے کہ کوئی ذمہ داری قبول کر لیں‘‘۔ آئی 8 اسلام آباد کے ایک تہہ خانے میں سادہ سی زندگی گزارتے، ڈاکٹر صاحب کی مصروفیات بے شمار تھیں۔ روم میں عالمی بینک کی نمائندگی انہوں نے ٹھکرا دی تھی۔ ''میں تو بس اپنے لوگوں ہی میں خورسند رہ سکتا ہوں۔‘‘ وہ ایک ناقابلِ علاج رومان پسند تھے۔ اپنی قوم پہ مر مٹنے والے۔ تاجکستان کی درخواست پر زرعی نمو کا ایک منصوبہ ان کے لیے بنایا تھا۔ چینی حکومت ان سے رابطے میں رہا کرتی۔ بعض پیچیدہ عنوانات پر ان سے مشورہ کیا جاتا۔
کلاسرا کو دیکھا تو ڈاکٹر صاحب آنکھوں میں ہنسے۔ ہاں! وہ قہقہہ نہ برساتے، بس آنکھیں مسکراتیں۔ کہا : کسی کی سفارش کرنے آئے ہو؟ کلاسرا سے بچ نکلنا سہل نہیں ۔ وہ محبت کی ساری شیرینی انڈیل دیتا ہے، دلائل کے انبار لگا دیتا ہے۔ مجھے بھی اسی نے ''دنیا‘‘ سے وابستہ ہونے پر آمادہ کیا تھا۔
''کسان برباد ہیں‘‘ اس نے کہنا شروع کیا ''ڈاکٹر صاحب ان کا دکھ بٹانے والا کوئی نہیں‘‘ پھر لجاجت سے اس نے اضافہ کیا ''گیلانی نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ آپ کو عمل کی پوری آزادی حاصل ہوگی‘‘۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے لیے زرعی ترقیاتی کارپوریشن کی سربراہی چنی۔ کلاسرا حیران ''آپ سیکرٹری زراعت کے ماتحت ہوں گے۔ کوئی بھی سیکشن افسر دردِ سر ہو جائے گا۔ وزیر آپ کیوں نہیں بنتے؟‘‘ ڈاکٹر کا لہجہ استوار تھا : جب میں طے کر لوں تو رکاوٹ وزیرِ اعظم بھی نہیں بنتا۔ ملک کو زرعی تحقیق کی ضرورت ہے۔ دنیا بدل گئی ہے اور زراعت بھی۔ زرعی سائنسدانوں کی ایک شاندار ٹیم میں بنا دینا چاہتا ہوں۔ ملک اس کے بغیر سنور نہیں سکتا۔ وزارت سے مجھے کیا لینا۔
اگر پروفیسر احمد رفیق کی خدمت میں حاضری کی توفیق ارزاں ہو تو عمران خاں ان سے ایک واقعے کی تصدیق کریں ۔ درویش کی زندگی میں ڈاکٹر ظفر الطاف شاید واحد تھے ، جن کی پریشانی کا سن کر ان کے گھر وہ تشریف لے گئے تھے۔ مشورہ دیا اور دعا تعلیم کی تھی۔ ایسے وہ محبوب اور محترم تھے ۔
ڈاکٹر صاحب کے پیش کردہ تصوّرات نے وزیرِ اعظم گیلانی اور زرداری صاحب کو مبہوت کر دیا ۔ زرداری صاحب پکار اٹھے : اتنا علم؟ اتنا علم؟ ڈاکٹر صاحب آپ کے تو دماغ کی کلوننگ ہونی چاہیے ۔
دو اڑھائی سو زرعی سائنس دانوں میں اکثر بوڑھے ہو چکے تھے۔ بہت سے بیرونِ ملک شاندار ملازمتوں میں شاد۔ باقی دفاتر میں زنگ آلود ۔ چیئرمین جس کسی کو میدان میں بھیجنے کا فیصلہ کرتے، وہ بہانے گھڑتا ۔ نجی شعبے سے 239 ماہر انہوں نے ڈھونڈ نکالے۔ زراعت کے وزیرِ نذر گوندل ناراض تھے۔ عجیب افسر تھا، جو سلام کرنے کبھی نہ آیا ۔ ایک بھی سفارش کبھی نہ مانی ۔ ایسا زرخیز ذہن کہ سوات میں فوجی کارروائی کا آغاز ہوا تو جیسے تیسے وادی میں مویشیوں کی نایاب نسلوں کے جوڑے جمع کیے۔ زراعت کے سیکرٹری تھے تو آٹھ لاکھ روپے کے پاکستانی ٹریکٹر کے برعکس، بیلاروس سے ڈیڑھ، ڈیڑھ لاکھ روپے کے منگوائے اور کسانوں میں بانٹے۔ پڑھتے بہت تھے ، مشورہ بہت کرتے ، جراتِ عمل بے حساب تھی۔
ایوانِ وزیرِ اعظم سے کبھی رخسانہ بنگش فون کرتیں۔ ایوانِ صدر سے ''ادی‘‘ کے ایما پر کبھی کوئی اور افسر۔ ڈاکٹر صاحب کی لغت میں سفارش کا لفظ تھا ہی نہیں ۔ زرعی ترقیاتی کارپوریشن میں نذر گوندل نے سرنگیں کھودیں ۔ جوڑ توڑ کا آغاز کیا۔ صدر کے کان بھرنے شروع کیے۔ ادی ان کی مددگار تھیں ۔ زرداری صاحب بھی رفتہ رفتہ نالاں ہو گئے کہ ڈاکٹر صاحب مختارِ کل بنے بیٹھے ہیں۔
حکم صادر ہوا کہ تین برس پورے ہونے پر سبکدوش کر دیا جائے ،کرپشن کے الزام میں تحقیقات ہوں۔ کلاسرا برہم، وزیرِ اعظم کے پاس پہنچا اور فریاد کی ۔ اگلی ہی شام وزیرِ اعظم نے انہیں عشائیے پر مدعو کیا اور معذرت کی۔ اپنی پرنسپل سیکرٹری نرگس سیٹھی سے کہا کہ معاہدے میں تین سال کی توسیع کر دی جائے ۔ نذر گوندل ریاست ہائے متحدہ میں تھے۔ سیٹھی کو انہوں نے گانٹھ رکھا تھا۔ فوراً لوٹے۔ قمر زماں کائرہ، خورشید شاہ اور نوید قمر کو ساتھ لے کر ایوانِ صدر پہنچے۔ گیلانی ٹھس ہو گئے۔ مزید بہادری وہ دکھا نہ سکتے تھے۔
یہ صدمات کے دن ہیں۔ سپریم کورٹ کو بلیک میل کرنے کی کوشش ہے۔ ایک کے بعد دوسرا اخبار نویس دربار کی نذر ہوتا ہے۔ نذر گوندل اب پی ٹی آئی کے لیڈر ہیں۔ وہ لوگ جو ملک کی بربادی کے ذمہ دار ہیں ۔ بیرونِ ملک دولت کے انبار کا جواز نواز شریف پیش نہیں کر سکتے ، سپریم کورٹ پسپا نہیں ہو سکتی، شاید وہ چلے جائیں۔ مگر یہ سیاہ رات کیونکر تمام ہو گی ؟
صدمات کا صدمہ یہ ہے کہ کپتان نے فتحِ مکّہ کے بعد سرکارؐ کے کردار کی یکسر غلط توجیہ کی۔ فرمایا: تبدیلی ایک لیڈر لاتا ہے۔ جی نہیں، بہت تربیت یافتہ اور بہت مخلص جانبازوں کی جماعت ، ایثار مند اور ریاضت کیش ، امتحانوں میں جو سرخرو گزرے ہوں ۔
دن نکلتا دکھائی دیتا ہے ، رات کٹتی نظر نہیں آتی ۔ خرد کی تنگ دامانی سے فریاد، نگہ کی نا مسلمانی سے فریاد!