درویش سے پوچھا : کیا چیز آپ کو آسودہ رکھتی ہے ۔ کہا: یہ یقین کہ ہر فیصلہ مالک کا ہے اور اس کے ہر فیصلے پہ سر جھکا دینا چاہیے ۔
عمران خان اور ان کے ساتھی کیوں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومت چند دن کی مہمان ہے ؟ وزیرِ اعظم کے عالی قدر رفقاء کار کس بنا پر یہ ارشاد کرتے ہیں کہ فوجی قیادت منتخب حکومت کے خلاف سازش میں ملوث ہے۔ جے آئی ٹی کے ارکان جانبدار ہیں اور عدلیہ کو اس کی پروا نہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ معزز جج حضرات بھی تعصب کا شکار ہیں۔
ایک میڈیا گروپ اس مہم میں پیش پیش ہے ۔ اس کے کچھ بزرجمہر ہر روز ایک نئی داستان سناتے ہیں ۔ خود کو وہ جمہوریت کے چیمپئن اور نجات دہندہ کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔
ابھی دو تین برس پہلے تک فوجی قیادت کے خلاف مورچہ انہوں نے جما رکھا تھا۔ ملک کی خارجہ پالیسی طے کرنے پر وہ مصر تھے ، خصوصاً بھارت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت ۔ اس میدان میں انہوں نے خاک چاٹی ۔ برسوں کی خرابی و خواری کے بعد عملاً معذرت کی اور لہجہ دھیما کیا۔ اب وہ سپریم کورٹ کے خلاف شریف خاندان کی طرف سے استوار کیے جانے والے لشکر کے علمبردار ہیں ۔ دعویٰ ان کا یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف جنگ انہوں نے لڑی اور آصف علی زرداری اینڈ کمپنی کی کرپشن کو بے نقاب انہوں نے کیا۔ کوئی دن جاتاہے ، شاید یہ دعویٰ بھی وہ داغ دیں کہ مرتی ہوئی پاکستانی کرکٹ کو بھی انہی کی عنایت سے نئی زندگی ملی۔
وکلا کی تاریخی تحریک کے بعد پاگل پن کے بہت سے مظاہرے ہم دیکھتے رہے ۔ اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اخبار کی اطلاع یہ ہے کہ منگل کو حبسِ بیجا کی ایک رٹ میں ، مشتعل قانون دانوں کے ایک گروہ نے محترمہ عاصمہ جہانگیر کے ساتھی وکلا پہ یلغار کی، معزز جج پر بھی۔ وہ جج صاحب کے ریٹائرنگ روم میں جا گھسے، چیختے چلاتے ، نعرے لگاتے اور دھکم پیل کرتے رہے ۔
اخبار نویس رئوف کلاسرا کے خلاف جاری مہم میں نئے دانشور شریک ہوئے ہیں ۔ ان کے خلاف عائد کردہ الزامات تو جھوٹے ثابت ہو چکے ۔ اب وہی ناراض وکلا والی چیخ و پکار ، زہر میں بجھے ہوئے طنزیہ جملے ۔ کلاسرا کو شاید اب خاموش ہو جانا چاہیے ۔ ہر کامیاب آدمی کے حاسد ہوا کرتے ہیں ۔ خطا معاف ، لبرلزم کی جو بحث اس نے چھیڑی ہے ، اس وقت یہ کچھ زیادہ متعلق نہیں ۔ نظریات سے نہیں ، ذاتی کردار کا تعلق تربیت سے ہوتا ہے۔ کون سا مکتبِ فکر ہے ، چھچھورے اور بد کردار جس میں پائے نہیں جاتے ، اجلے اور قابلِ رشک جس میں نہیں ہوتے۔ کردار جماعتوں ، قوموں اور قبیلوں کا نہیں ہوتا۔ آخری تجزیے میں یہ ایک شخصی چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اچھلتے کودتے میڈیا گروپ میں بھی معقول آوازیں ہمیں سنائی دیتی ہیں۔ خبطِ عظمت اور زعمِ تقویٰ سے پاک ۔
شریف خاندان کی گھبراہٹ قابلِ فہم ہے ۔ انہیں لندن کی جائیداد کا جواز پیش کرنے میں دشواری کا سامنا ہے ۔ اب اگر وہ سازش کا شور نہ مچائیں تو اور کیا کریں ۔ معاملہ عدالت میں ہے اور وہ اسے کٹھ پتلیوں کا کھیل کہتے ہیں ۔ کون سی کٹھ پتلیاں ؟ کیا معزز جج حضرات ؟ کون ان ''کٹھ پتلیوں ‘‘ کو نچا رہا ہے ؟ عسکری قیادت؟ صاف صاف یہ سوال کیا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ تردید فرمائیں گے ، انکار کر دیں گے۔ نہال ہاشمی کی طرح ، جو اب یہ کہتے ہیں کہ ان کے مخاطب عمرا ن خان تھے۔
لہجے کا تحمل برقرار رکھتے ہوئے اپنی ناراضی عدالت نے ظاہر کر دی ہے ۔ واضح کر دیا ہے کہ درباری اخبار نویسوں کے دبائو کا وہ شکار نہیں ہو گی ۔ خبر یہ ہے کہ عسکری قیادت بھی اتنی ہی ناخوش ہے ۔ جنرل حضرات ، ظاہر ہے کہ اخبار نویسوں کے ساتھ عشائیے تناول نہیں فرماتے۔ اخبارات کے لیے وہ بیان جاری نہیں کرتے۔ اس میں مگر کوئی شبہ نہیں کہ کیچڑ اچھالنے والوں سے وہ نالاں ہیں ۔
فوجی حلقوں میں زیرِ بحث نکتہ یہ ہے : ذمہ داریوں کا سارا بوجھ ہمیں پر لاد دیا گیا۔ ملک بھر میں پھیلے ہر طرح کے فتنوں سے نمٹنے کی جان سوز جہدوجہد میں ہم پڑے ہیں ۔ اس کے باوجود مطعون کرنے کا یہ سلسلہ کیوں ہے ؟
کشمیر میں جنگ بندی لائن پر بڑھتی ہوئی بھارتی کارروائیاں ، جن میں 308 شہری اب تک شہید ہو چکے ۔ بھارت اور افغانستان کی طرف سے بلوچستان ، کراچی اور قبائلی پٹی میں دہشت گردی ۔ پاکستان کو حالات کی دلدل میں گھرا دیکھ کر ایرانیوں کا جارحانہ انداز... اور مقبوضہ کشمیر میں تحریکِ آزادی کے ہنگام‘ ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیاں ۔ یہ وقت فوج کی پشت پر کھڑے ہونے کا تھا یا اس پر الزامات کی بارش کا ؟ درباریوں کی دنیا بہت چھوٹی ہوتی ہے ۔ حکمرانوں کی آنکھ سے زندگی کو وہ دیکھتے ہیں ۔ انہیں خدا یاد رہتا ہے ، نہ مخلوقِ خدا ، زندگی کے حقائق اور نہ قوانینِ قدرت ۔ خوف زدہ ، بے آسرا بچّوں کی طرح بس ایک چیز کی فکر انہیں لاحق رہتی ہے کہ ظلِ الٰہی ان پہ مہربان رہیں ۔ دھوپ میں سایہ برقرار رہے ۔
جہاں پناہ مجھے بازوئوں میں لے لیجیے
مری تلاش میں ہیں گردشیں زمانے کی
رزقِ حرام تو خیر لعنت کے سوا کچھ بھی نہیں ، آسان رزق بھی آزمائش میں مبتلا کرتا ہے ۔ کشمکش کے مہ و سال کے بعد امیرالمومنین ہارون الرشید مدینۃ الرسول پہنچے۔ امام مالک بن انسؒ کی خدمت میں پیش ہوئے ۔ احکام و احادیثِ رسول کا مجموعہ ''موطا‘‘ مرتب فرما چکے تھے ۔ کہا: بغداد تشریف لائیے ، موطا کو قانون کے طور پر نافذ کر دوں گا ۔ امام ؒ نے انکار کر دیا۔ تاریخ میں شاید ہی کبھی کسی ماہرِ قانون کو ایسے اعزاز کی پیشکش ہوئی ہو۔ شاید ہی کبھی کسی نے اس رسان سے انکار کیا ہو ۔ نکتہ ان کا یہ تھا کہ دوسرے اہلِ علم بھی تو ہیں ، دوسرے نقطہ ہائے نگاہ ، دوسرے مکاتبِ فکر ۔ زندگی کو پروردگار نے تنوع میں پیدا کیا ہے ۔ حکمران کی مٹھی میں وہ قید نہیں ہو سکتی ۔
کئی برس بیت گئے ۔ امام شافعیؒ اپنے استاد کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ دیکھا کہ اشرفیوں کا ایک ڈھیر ہے اور سواری کے بہت سے جانور ۔ صاحبِ تقویٰ شاگرد کی آنکھ میں نمی اتری تو امامؒ نے کہا : شافعی ، تم نے خیال کیا کہ دنیا نے میرے دل میں جگہ بنا لی ۔ دمشق سے خراسان تک تحائف چلے آتے ہیں ۔ یہ اونٹ گھوڑے تمہارے ہیں اور یہ دس ہزار اشرفیاں بھی ، جن کی زکوٰۃ ادا کی جا چکی۔
شافعیؒ مکّہ روانہ ہوئے لیکن شہر میں داخل ہونے سے پہلے سب کچھ بانٹ دیا۔ کوئی دن میں پیغام ملا: شافعی ! تم نے بہت اچھا کیا ۔ اتنے ہی گھوڑے، اتنے ہی اونٹ اور اتنی ہی اشرفیاں تمہارے لیے اور رکھی ہیں ۔
ایک آدمی اللہ کے سوا کسی کا محتاج نہیں ہوتا ، ایک بندوں کا ۔ دنیا کی محبت کا صلہ خوف اور احتیاج ہے ، خواہ لاکھ پہریدار اور ہزار خزانے ہوں ۔ بندگی کا صلہ غنیٰ اور سکونِ قلب ہے ۔
درویش سے پوچھا : کیا چیز آپ کو آسودہ رکھتی ہے ۔ کہا: یہ یقین کہ ہر فیصلہ مالک کا ہے اور اس کے ہر فیصلے پہ سر جھکا دینا چاہیے ۔
پسِ تحریر: عسکری قیادت نے دھمکیوں کے جواب میں واشنگٹن کو بتا دیا ہے کہ خطے میں خرابی اور دہشت گردی کا ذمہ دار پاکستان نہیں ، دوسرے ہیں ۔ جنرل حضرات کا تجزیہ یہ ہے کہ خطرہ حقیقی نہیں ، صرف گیدڑ بھبکیاں ہیں ۔ مزید برآں امریکہ اب ایک واحد ناقابلِ تسخیر عالمی طاقت نہیں ۔ اس کی بھی کمزوریاں اور مسائل ہیں ۔ کسی نئی مہم جوئی کا وہ متحمل نہیں ۔