بر سبیلِ سفر کے عنوان سے‘ یہ ایک سفرنامہ ہے۔ پروفیسر ریاض احمد ریاض کے مشاہدات۔ ایک حیران کن کتاب جو 1992ء میں چھپی۔ تین دن تک اس کے اوراق میں قاری گم رہا۔ حیرت کا ایک جہاں! اسی کتاب سے یہ ایک طویل اقتباس ہے۔
''سفینۂ عابد کو کراچی سے چلے آٹھ دن ہو گئے تھے۔ اس نے یہ سارا سفر اس سکون اور اعتماد کے ساتھ کیا تھا جی چاہتا تھا، یہ سفر کبھی ختم نہ ہو۔ میں ہوں، میرا ساتھی اور ارمغانِ حجاز... جس کے ہم آخری صفحے الٹ رہے تھے۔ جدے کی بندرگاہ پر پہنچنے سے پہلے ہی جہاز ہچکولے کھانے لگا اور وہ بھی عجیب و غریب انداز میں۔ پہلے آگے پیچھے جھولتا، پھر دائیں بائیں ڈولتا۔
برتن میزوں پر الٹ پلٹ ہو گئے۔ اپنے قدموں پر چلنا مشکل ہو گیا۔ پانی کی بوچھاڑیں کمروں کی کھڑکیوں سے اندر تک آنے لگیں۔ یہ بہت ہلکا سا سمندری طوفان تھا لیکن سفینۂ عابد جیسے نازک اندام کی پریشانیٔ خاطر کے لیے بہت کافی۔ عملے کے علاوہ ہر شخص کی طبیعت خراب ہو گئی اور نوبت ابکائیوں تک جا پہنچی... حتیٰ کہ بعض نووارد تو بستروں سے اٹھ کر مقامِ مقررہ تک بھی نہ جا سکے۔ عورتوں اور بچوں کی حالت دیدنی تھی۔
ایک سفید ریش ملتانی بوڑھا، ہو گا کوئی اسی پچاسی سال کا، سر پر سفید پٹکا نما پگڑ باندھے، خوفناک آنکھیں لیکن وجیہہ چہرہ ، خود بھی پیٹ خالی کر چکا تھا لیکن لڑکھڑاتا ہوا جہاز میں اوپر نیچے چاروں طرف گھومتا پھرتا تھا۔ اپنی عمر اور بھرپور داڑھی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی خاص ملتانی بولی میں مطلع کر رہا تھا... ''او ڈھورو، ڈنگرو! میرے مولا کی نگری آ گئی۔ نکال دو سب حرام کھایا پیا، جو کھے سواہ، بغیر سوچے سمجھے اپنے اندر پھینکتے رہے ہو، سب نکال دو۔ حرام خوروں کا میرے مولا کے گھر میں کیا کام؟‘‘
بابا ایک نادرِ روزگار چیز تھا۔ پہلے دن جب ڈیک کے مسافروں کو کھانا تقسیم کیا جانے لگا تو کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ یہ طریقہ کچھ مناسب نہیں اور برتن بھی نا صاف ہیں۔ ہوتا یہ تھا کہ دو نیم کالے سے ننگ دھڑنگ آدمی بالٹیاں اٹھائے ہوئے آتے، جن میں دال چاول قسم کی خوراک ہوتی۔ ایک ڈلّو سے ان میں سے سالن نکال کر مسافروں کی پلیٹوں میں ڈالتے جاتے۔ یہ تھالیاں پیالیاں بھی پبلک کی اپنی تھیں۔ اس طرح وہ جہاز کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچ جاتے۔ باقی حصے میں بھی اسی طرح کی پارٹیاں راتب بانٹ رہی ہوتیں۔
بابے کی قطار شروع ہوئی تو ایک نازک مزاج نے کہیں کہہ دیا ''یہ لوگ کس طرح کھانا دے رہے ہیں، ہم کوئی جانور ہیں؟‘‘ بڑے میاں نے سن لیا۔ وہیں سے بھرائی ہوائی آواز میں دھاڑا ''ہاں! ہم جانور ہیں، اساں ڈھور آں، ڈھور ڈنگر، اس کی مہرابانی ہے، کرم ہے اس کا کہ اس نے ہمیں اپنی نگری میں یہ ناپاک قدم رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔ اگر وہ منع کر دیتا پلیدوں کو، شکر نہیں کرتے؟ ورنہ ہمارا حال ہے کوئی وہاں جانے کا... کھا لو جو کچھ یہ دیتے ہیں، ڈھور بولا نہیں کرتے‘‘۔ بابے کے آنسو اس کی سفید داڑھی پر گرنے لگے۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ اس کے مقابل آتا۔ اس کی تام چینی کی تھالی میں جب پانی میں تیرتی ہوئی مسور کی دال ڈالی گئی تو اس نے کئی دفعہ بسم اللہ، بسم اللہ کہا اور اٹھ کر بالٹی بردار اور باورچی کے چکنائی زدہ ہاتھ چومے! بابے کی یہ ادا ارمغان کی کئی رباعیوں پر بھاری تھی!
پھر بابا ہمارا دوست بن گیا لیکن ہماری ہزار کوشش کے باوجود اس نے اپنی کتابِ ماضی کا ایک ورق الٹ کر نہ دکھایا۔ ہم بہت کہتے تو زار و قطار رونے لگتا ''یارا، میں آکھیا تا ہے، میں ڈھور آں، ڈنگر، جانورو، تہاڈے پچھے پچھے میں وی جاندیاں پیاں، اللہ دیو بندیو!‘‘ ہم اپنا سا منہ لے کر چپ ہو رہتے۔
لیکن بیت اللہ میں اس شخص نے کمال کر دیا۔ میں نے دیکھا، اس نے معلم کا ہاتھ نہیں پکڑا، نہ کسی اور پڑھے لکھے کے پیچھے لگا۔ میرا خیال ہے، اسے کوئی دعا بھی پوری یاد نہیں تھی، نہ اسے رسموں کا علم تھا۔ اس نے ارد گرد دیکھا ہی نہیں۔ ایک پیشہ ور معلم نے اسے قابو کرنے کی کوشش کی بھی لیکن وہ بے حد اضطراب کے عالم میں آگے چلتا گیا۔ احرام باندھے ہوئے اس کے بڑھاپے کی شان ہی اور تھی۔ میں حرم کے سات چکر لگا کر مقامِ ابراہیم کی طرف مڑا تو وہ ابھی تک محوِ طواف تھا۔ کافی دیر کے بعد وہ پھر نظر پڑا۔ خدا معلوم، وہ کتنے پھیرے لگا چکا تھا۔ اس کے بعد گرانڈیل حبشی زائرین کا ایک گروہ دائرے میں شامل ہوا اور اسی میں وہ کہیں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
شام کو میں نے پھر اسے دیکھا۔ اب وہ اپنے مخصوص ملتانی دیہاتی لباس، سفید نئی دھوتی کرتے میں ملبوس تھا لیکن ایک خاص فرق کے ساتھ کہ اپنی صافہ نما پگڑی اس نے پانچ سات لپیٹے دے کر اپنے گلے میں ڈال رکھی تھی اور دیوارِ کعبہ پر ہاتھ رکھے جانے کب سے کھڑا تھا۔ میں نے بھی قریب جا کر اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے اور حرم کی چوکھٹ پر رکھ دئیے۔ اس محترم ہستی کے لیے ساری اچھی دعائیں لبوں پر آ گئیں، جس نے پہلی بار میرے ننھے ہاتھ پکڑ کر مجھے میرے پائوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی ہو گی اور خوشی کے بے پناہ ممتا بھرے جذبات سے مغلوب ہو کر سب کو اس مسرت میں شریک کیا ہو گا۔ میری مدہم آواز بابے کی آہ و زاری میں ڈوب گئی۔ وہ انتہائے عجز سے گڑگڑا رہا تھا اور اس کے قدموں میں اس کے آنسو ٹپ ٹپ حرم پر گر رہے تھے۔ میں نے محسوس کیا، اس کی بلبلاہٹ بلند ہو رہی ہے، جیسے کوئی لڑ رہا ہو۔ کاش میں وہ الفاظ اس کی زبان میں لکھ سکتا۔ کاش ان کا کوئی ترجمہ ممکن ہوتا۔ کچھ اس کیفیت کا دسواں، بیسواں پچاسواں حصہ ہی میں بیان کر سکتا، یہاں منتقل کر سکتا!
''ربّا‘‘ وہ چیخ چیخ کر فریادی تھا ''تیکو پتہ اے، میں ملتانوں آیاں، تے ساڈے اے رواج اے صدیاں دا کہ ساڈی کسے نال دشمنی ہووے، اساں کسے دا جھگا بھن دتّا ہووے، کسے دے بھرا نوں وڈھ چھڈیا ہووے، کجھ ای کیتا ہووے، پر جے اساں گل وچ پرنا پا کے اوہدے ڈیرے تے چلے جاوئیے، تاں اس نوں معاف کرنا پیندا اے۔ اے سوہنی شان والیا! میں گل وچ پرنا پا کے تیرے ڈیرے تے آگیاں، میکو معاف کر! تینوں تے غفوری تے رحیمی دا دعوا بھی اے، فیر میں کوئی تیرا جھگا تے نئیں ساڑ دتا، تیرا کوئی قتل تے نہیں کر دتّا‘‘
''اچھا سایاں! ساڈی کوئی نہ منّے تاں اساں اوہدے بھراکول ٹر جانے آں، جے گل مکائونی ہووے تاں اوہدے پیو ول چلے جانیں آں... تیرا کوئی بھرا پیو ہے تاں دس، اوتھے لگے جاویے... توں تے آپ آکھدا ایں... میرا کوئی دھی پتر، بھرا، ماں باپ نہیں... تے مڑ کتھے جاویے؟ اے تے تینوں ای معاف کرنا پے سی! نہ کرسیں؟ کیوں نہ کریسیں؟ فیر کیہڑا کریسی؟‘‘۔
میری مدہم آواز بابے کی آہ و زاری میں ڈوب گئی۔ وہ انتہائے عجز سے گڑگڑا رہا تھا اور اس کے قدموں میں اس کے آنسو ٹپ ٹپ حرم پر گر رہے تھے۔ میں نے محسوس کیا، اس کی بلبلاہٹ بلند ہو رہی ہے، جیسے کوئی لڑ رہا ہو۔ کاش میں وہ الفاظ اس کی زبان میں لکھ سکتا۔ کاش ان کا کوئی ترجمہ ممکن ہوتا۔ کچھ اس کیفیت کا دسواں، بیسواں پچاسواں حصہ ہی میں بیان کر سکتا، یہاں منتقل کر سکتا!