ان کی رسوائی کے خونِ شہدا در پے ہے۔مشرقی پاکستان کے شہیدوں کا لہو ‘بے حسی اور بے دردی سے جو بھلا دیا گیا۔ کشمیر کے شہیدوں کا لہو ‘حکمران جس کی طرف پیٹھ کیے کھڑے رہے۔ خون پکارتا ہے‘ خون۔
فاتح مصر عمروبن العاص عرب کے تین دانا ترین اکابرین میں سے ایک تھے۔ چار ہزار کا لشکر لے کر اٹھے اور نیل کی وادیوں پہ چھا گئے ۔ ان سے پوچھا گیا کہ ایسی دانش دمکتی ہوئی اور قبول اسلام میں اس قدر تاخیر؟ کہا: ہم سمجھتے تھے کہ قریش کے سرداروں کی عقلیں پہاڑوں کے برابر ہیں۔ دنیا سے وہ اٹھے اور بات ہم پہ آن پڑی تو ہم نے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا۔
دوسروں کی نہیںاپنی عقل پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔ ایران میں حکمت عملی بار بار ناکام ہوئی تو نجد کے احنفؒ سے مشورہ کیا گیا‘مسکینی سے جو اٹھے اور بنو تمیم کے سردار ہوئے تھے۔ آدھے ایران پہ مسلمانوں کی حکومت تھی ‘ آدھے پہ آتش پرستوں کی ۔بار بار ایرانیوں نے معاہدے توڑے ۔بار بار مجاہدین کا خون بہا ۔احنفؒ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: ایک ملک پر دو کی حکومت نہیں ہوتی‘ امیر المومنین ۔ عمرابن خطاب نے یہ کہا :میری آنکھوں سے آپ نے پردہ ہٹا دیا۔
ابتلا جن کا مقدر ہو‘ آسمان سے ان پہ پتھر نہیں برستے۔ حجاب آ لیتا ہے۔ایک اونچی دیوار عقل کی راہ میں کھڑی کردی جاتی ہے۔ پھر وہ بھٹکتا پھرتا ہے۔
سرکارؐ کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے: جب تک دنیا کی ہر چیز حتیٰ کہ اپنی اولاد اور زندگی سے زیادہ تم مجھے عزیز نہ رکھو‘ مومن کہلا نہیں سکتے۔ایک بار یہ بھی فرمایا کہ قیامت کے دن آدمی اس کے ساتھ ہوگا‘ جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ ایک نے کہا: یا رسولؐ اللہ‘ آپ سے مجھے بہت الفت ہے۔ ارشاد کیا: مجھ سے جو محبت کرتا ہے‘ وہ جھوٹ نہ بولے اور خیانت نہ کرے۔
تاویل تو ابلیس نے بھی تراش لی تھی اور وہ بھی حضورِ پروردگار۔ آدم کو مالک‘ آپ نے حقیر مٹی سے بنایا اور مجھے فروزاں آتش سے۔ اسے میں کیسے سجدہ کروں؟ فلسفے ہمیشہ تراشے جا سکتے ہیں۔ازل سے درباریوں کا دستور یہ ہے کہ حکمران کے لیے دلائل ڈھونڈتے اور خلقِ خدا کو فریب دیتے ہیں۔ صاف صاف اور سیدھا سادہ‘ سوال یہ ہے کہ شریف خاندان غلط بیانی اور خیانت کا مرتکب ہوا یا نہیں۔ اگر ہوا تو سزا کیوں نہ دی جائے۔ رعایا اور حکمران کے لیے ترازو کیا الگ الگ ہوگا؟عمران خان اور آصف زرداری؟ ارے بھائی‘ ارے بھائی‘ وہ اپنا حساب دیں گے۔ دوسروں کی خامیوں پر نہیں زندگی اپنی خوبیوں پہ بسر کی جاتی ہے۔ بچے گا کوئی نہیں‘ کب کون بچا ہے؟ ع
آفاق کی نگری سے گیا کون سلامت؟
غلطی سے آدمی تباہ نہیں ہوتا ‘بلکہ جواز ڈھونڈنے اور تاویل کرنے سے۔ رو سیاہی جرم چھپانے اور خلق کو فریب دینے کی تگ و دو میںآتی ہے۔ پنجابی میں کہتے ہیں :کالا منہ اور نیلے پیر ۔سرور عالمؐ کے ارشادات میں سے ایک یہ ہے: کوئی اس دنیا سے اٹھے گا نہیں‘ جب تک اس کا باطن آشکار نہ ہو جائے۔ خالق کون و مکاں نے اگر فیصلہ کر ڈالا ہے...اور لگتا ہے کہ کر ڈالا تو وکیل کیا کریں گے،ساری دنیا مل کے بھی کیا کر سکتی ہے۔ع
کون وکیل گھتاں در تیرے اے جا وکیلاں دی نائیں
انصار و اعوان کیا کریں گے؟ تاریخ میں جب کبھی طوفان اٹھاہے‘ حکمران خزاںکے مارے درختوں کے پتے ہوگئے ۔ جو دریا جھوم کے اٹھتے ہیں‘ تنکوں سے ٹالے نہیں جا سکتے۔دن رات نون لیگ والوں کی گالیاں یہ ناچیز سنتا ہے۔'' تمہارے منہ میں خاک‘‘۔ ''تم پر لعنت‘‘۔ کبھی کلیجہ کٹتا دکھائی دیتا تھا مگر اب قرارقائم رہتا ہے۔ یوسفؑ کا خون آلود کرتا لایا گیا تو یعقوب علیہ السلام نے کہا تھا: ''فصبر جمیل‘‘ صبر اور پورا صبر اور یہ کہ صبر بہت ہی خوبصورت چیز ہے۔ کہانی باقی ہے‘ جناب یوسفؑ کی حضرت یعقوب علیہ السلام کی... اور یعقوبؑ کے فریب خوردہ فرزندوں کی بھی۔
غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را
غنیؔ‘ پیر کنعانؑ کے روزِ سیاہ نے کیسا عجیب تماشا برپا کیا۔ اس کی آنکھوں کے نور نے چشم ِزلیخا کو جا چمکایا۔ زلیخا کی کہانی ہمیشہ باقی رہے گی کہ قرآن کریم کے مقدس اوراق میں ہے۔ اس سے پہلے مگر غنیؔ کاشمیری کی داستان۔ کتاب اس کی باقی نہ بچ سکی۔ جس طرح کہ حضرت داتا گنج بخشؒ کا کلام ضائع ہوا۔ کوئی عاریتاً لے گیا اور ہڑپ کر ڈالا۔ فارسی کا فقیدالمثال شاعر‘ اسم بامسمّٰی تھا‘ بے نیاز ۔ گھر میں ہوتا تو تالا لگا رکھتا۔ باہر جاتا تو کواڑ چوپٹ۔ لوگوں نے پوچھا :غنیؔ اس میں بھید کیا ہے؟ کہا: اس گھر کی دولت میں ہوں‘ بستر اور برتن نہیں‘ حفاظت میری درکار ہے‘ سازوسامان کی نہیں۔
کردار اور شخصیت ہی آدمی کی متاع ہوتی ہے‘ زروجواہر نہیں۔ دولت کی پوجا کرنے والوں کو‘ درہم ودینار‘ کے بندے کہا جاتا ہے۔ فرعون اور قارون کے پیروکار۔ کسی نے بہتان تراشا کہ اس کے ایک قطعۂِ اراضی پہ حکمران نے قبضہ جما رکھا ہے‘ امیرالمومنین عمرفاروق اعظمؓ نے۔ایک عام سائل کی طرح آپؓ عدالت میں پیش ہوئے۔ کوئی رویا پیٹانہیں‘ اس آدمی کوقاضی نے کیوں بلایا ہے‘ فرشتے بھی جس کی دیانت پہ گواہی دیں۔اللہ کے رسول ؐ نے جس کے بارے میں فرمایا تھا:میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے۔مقدمہ آپؓ نے جیتا اور فوراً ہی نالش کرنے والے کو بخش دیا۔'' کیا کیا؟ امیرالمومنین آپ نے یہ کیا کیا؟ پوچھاگیا: ارشاد کیا: مال و دولتِ دنیا سے کس کو غرض تھی‘ مگر دامن پہ دھبہ کیوں رہے؟ وہ تو خیر وہ تھے۔ ان جیسا کوئی تھا‘ نہ ہوگا۔ اتنا تو ہر مسلمان کو ہونا چاہیے‘ کہ حرام سے ہاتھ اٹھا لے‘ مشکوک اور مکروہ سے دور رہے۔کیسے یہ لوگ ہیں کہ رزق حرام کا ان پر الزام ہے اور انہیں پرواہ ہی نہیں۔
ایک سال میں اپنی دولت کو ترانوے گنا کرنے والے زاہد و متقی وزیرخزانہ نے الٰہ دین کا چراغ پایا ہے۔ان کی اور میاں محمد نوازشریف کی اولاد نے بھی۔ ویسا ہی ایک دیاکیوں اپنی قوم کو نہیں لا دیتے؟ صدیوں سے اس کاخوں رلاتا افلاس اور ادبار تمام ہو۔ ایڑیاں رگڑتے اس کے بچے نہ مریں‘ اس کے بھوکوں کو کھانا ملے‘ اس کے ہر مجروح کو مرہم عطا ہو‘اس کے ہر لاچار کو دوا داروملے۔ ہر آنکھ میں ہو‘ عیش و فراغت کا سرور۔ ہر جسم پہ ہو اطلس و کمخواب دسمور۔
ایک عامی نے فاروق اعظمؓ سے پوچھا تھا: کرتا کہاں سے لیا۔ قوم پوچھتی ہے‘ عدالت پوچھتی ہے: چار عدد محلات کے لیے دولت کہاں سے آئی جنابِ والا۔ جواب ملتا ہے: عمران خان جرائم پیشہ ہے۔ زرداری تو جیب تراش ہے۔ لاحول ولاقوۃ الاباللہ۔ سوال گندم جواب چنا۔ دوسروں کے عیوب پر نہیں‘آدمی کی نجات اپنی بے گناہی سے ممکن ہوتی ہے۔جس نے چوری نہ کی ہو‘تلاشی دینے میں اسے تامل کیا۔حلف اٹھانے کو شہباز شریف تیار ہیں‘ دلیل کیوں نہیں دیتے‘ ثبوت کیوں نہیں دیتے۔
قوم بھوکی ننگی ہو‘ شکستہ دل ‘گریاں اور فریادی‘ کاسہ بدست اور کشکول بردار ۔اس کے حکمرانوں پہ ہن برستا رہے‘ برستا ہی رہے۔اللہ کی ساری مخلوق کو فریب نہیں دیا جا سکتا۔ کبھی نہیں دیا جا سکا۔ اچھا تم دے لو۔ مگرکیا اسے بھی کوئی دھوکا دے سکتا ہے جو دلوں کے بھید جانتا ہے۔
ہونے کو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ٹلنے کو تاتاریوں کا لشکر بھی دمشق سے ٹل گیا تھا‘ اچانک اور بے سبب۔آج تک تاریخ کوئی توجیہ نہیں کر سکی‘ ہمارے حکمرانوں کے بارے میں مگر قرائن یہ کہتے ہیں ‘ نہیں ساحل تری قسمت میں اے موج/ سنبھل کر‘ جس طرف چاہے نکل جا۔ لگتا یہ ہے ان کی رسوائی کے خونِ شہدا در پے ہے۔مشرقی پاکستان کے شہیدوں کا لہو ‘بے حسی اور بے دردی سے جو بھلا دیا گیا۔ کشمیر کے شہیدوں کا لہو ‘حکمران جس کی طرف پیٹھ کیے کھڑے رہے۔خون پکارتا ہے‘ خون!