میاں صاحب نے ارشاد کیا تھا: اللہ میرے ساتھ ہے اور عوام بھی۔ اب وہ کیا کہتے ہیں۔ ان کے فدائین کیا کہتے ہیں‘ جی ٹی روڈ سے انقلاب برپا کرنے کا جنہوں نے مشورہ دیا تھا۔
دو راستے ایک لیڈر کے پاس ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ ان سے مشورہ کرے‘ جو اسے ٹوک سکتے ہوں۔ ضرورت ہو تو مکمل طور پر ایک مختلف رائے دے سکتے ہوں۔ دوسرا یہ کہ خوشامدیوں کے ہجوم اپنے اردگرد جمع کرے۔ اس کا موڈ اور مزاج وہ دیکھتے رہیں۔ وہی بات اس سے کہیں جو وہ سننا چاہے۔ پہلا قرینہ تباہی کا ہے۔ صرف دوسرا کامیابی کا۔ افتاد طبع کے علاوہ آدمی اپنے ماحول کا اسیر ہوتا ہے۔ جن چیزوں کی صوفیا سب سے زیادہ تلقین کرتے ہیں‘ ان میں سے ایک صحبتِ سعید ہے۔ خواجہ غریب نوازؒ کا یہ قول بارہا نقل کیا: نیکوں کی صحبت‘ نیکی سے بھی بہتر ہے اور بروں کی صحبت برائی سے بھی بدتر۔
بائیس برس ہوتے ہیں‘ حجاز مقدس کا قصد تھا۔ بیس پچیس زائرین کا ایک گروپ عمرے کے لئے روانہ ہونے والا تھا۔ ایک دوست‘ اس قافلے کے منتظم تھے۔ مجھ سے کہا: اگر چاہو تو تمہیں ساتھ لے جائیں۔ میں خاموش رہا۔ بالکل درست انہوں نے اندازہ لگایا کہ مالی طور پر مشکل کا شکار ہوں۔ پروردگار‘ مرحوم کے درجات بلند کرے‘ نیک خصلت آدمی تھے۔ کہا‘ گھبرائیے نہیں‘ فقط ٹکٹ کا بندوبست کر لیجئے۔ رہائش‘ ٹرانسپورٹ اور خورونوش کی فکر نہ کیجئے۔
اس گروپ کے رہبر ایک درویش تھے‘ واقعی ایک درویش۔ اسلام آباد سے براہ راست جدّہ کی نشستوں کا بندوبست نہ ہو سکا تھا۔ چک لالہ کے ہوائی اڈے سے کراچی پہنچنا تھا۔ دن بھر قیام کے بعد‘ شام ڈھلے‘ جدّہ روانگی۔ پہلا غیر ملکی سفر تھا۔ پھر اس بارگاہ میں حاضری کا دبائو‘ فارسی کے شاعر نے‘ جس کے بارے میں یہ کہا تھا۔
ادب گاہ ہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
آسمان تلے‘ یہ ادب گاہ‘ عرش سے بھی نازک مقام ہے‘ جنیدؒ‘ بایزیدؒ ایسوں کے ہوش‘ یہاں گم ہو جاتے ہیں۔
صبح فجر کے وقت سو کر اٹھے‘ افراتفری میں ہوائی اڈے پر پہنچے۔ دن کے بارہ بجے ہوں گے‘ کراچی کے ہوائی اڈے پر جب پی آئی اے کا جہاز اترا۔ کوشش کی مگر عمر بھر کی خطائوں نے دوپہر سونے نہ دیا‘ حتیٰ کہ شام ڈھلنے لگی۔ ہوٹل کے باہر‘ پی آئی اے کی بس کا انتظار تھا۔ پریشانی سی پریشانی۔ اتنے میں ایک سوزوکی گاڑی سامنے آ کر رکی۔ خیال آیا‘ کراچی کے کسی دوست سے گاڑی کا بندوبست کرنے کو کہا ہوتا۔ اضطراب میں ٹیکسی کا بھی سوجھ نہ سکا۔ خود ترحمی کا عالم‘ خود کو کوس رہا تھا کہ گاڑی میں سے کسی نے اشارہ کیا: آئو‘ ہمارے ساتھ چلو۔ اندھا کیا چاہے‘ دو آنکھیں۔
سر ڈھانپے‘ آنکھیں جھکائے‘ نحیف و نزار ایک بزرگ تسبیح رول رہے تھے۔ مسافر کی گھبراہٹ کو پا لیا۔ اس کی دل جوئی کی اور یہ کہا: فکر نہ کیجئے‘ سفر آرام سے کٹے گا۔ اللہ کو یاد کرتے رہیے۔ اس پہ بھروسہ کیجئے۔
جدّہ تک کا سفر دل و دماغ کی کشمکش میں کٹا۔ عرب کا یہ ہوائی اڈہ بعض اعتبار سے بدترین ہے۔ عملے کی تربیت ناقص‘ مجبور زائرین اور نخوت کے مارے امیگریشن والے‘ طول طویل قطاریں۔ تھکاوٹ نے نڈھال کر رکھا تھا۔ معلوم نہیں کیا ہوا تھا کہ ایک ایک اٹیچی کیس کھول کر دیکھا جاتا۔ قطار تھی کہ چیونٹی کی رفتار سے رینگ رہی تھی۔
اتنے میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ یہ بزرگ امیگریشن کائونٹر پر پہنچے تو ادھیڑ عمر کا کارندہ ان سے الجھنے لگا۔ پھر قطار سے الگ کرکے انہیں‘ دیوار کے پاس کھڑا ہونے کا حکم دیا۔ رسان سے چلتے ہوئے وہ فرش پر جا بیٹھے۔ مگر یاللعجب‘ آسودہ اور شادمان‘ جیسے کسی گھر سے متصل کسی چمن میں ہوں۔ اسی طرح سر ڈھانپے‘ نظریں جھکائے‘ بے فکر وہ تسبیح رولتے ہوئے۔ سامان کھول کر دیکھا گیا۔ ایک ایک چیز گویا خوردبین سے‘ خاص طور پر دونوں کتابیں۔ خیر گزری کہ آخر کار ہوائی اڈے سے باہر نکلنے کا اذن عطا ہوا۔
دل نے کہا: رک جائو‘ اس آدمی کے پاس جا کر بیٹھو۔ عقل نے کہا: میاں‘ کھڑے رہنے کی تاب تم میں نہیں‘ بھوک سے برا حال ہے‘ پرائے بکھیڑے میں کیوں پڑتے ہو۔ پھر بھی ہمت سے کام لیا۔ ایک ہم سفر سے پوچھا کہ ماجرا کیا ہے۔ ''عجیب لوگ ہیں‘‘ اس نے کہا ''انہیں شبہ ہے کہ شاہ جی منشیات کے زیر اثر ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کے سامان میں کچھ پوشیدہ ہو‘‘۔ واقعی عجیب لوگ تھے۔ زاہد شب زندہ دار کو‘ بوڑھے آدمی کو عبادت اور عمر نے نحیف کر ڈالا تھا۔ ایک چھوٹا سا اٹیچی کیس ہی تو تھا۔ اچھی طرح سے جانچ لیتے۔ یہ بھی نہیں تو جیسا کہ ان کا دستور ہے‘ اس کی تہیں کاٹتے۔ ایسا توہین آمیز رویہ اختیار کرنے کا جواز کیا تھا‘ نری گستاخی اور بدتمیزی۔
کہانی طویل ہے‘ پہلی بار اللہ کے گھر کی زیارت اور یہ حیران کن انکشاف کہ دکھ درد نام کی کوئی چیز زندگی میں نہیں ہوتی۔ بس واہمے ہوتے ہیں‘ وسوسے اور اندیشے۔ کعبۃ اللہ پہ نگاہ پڑتے ہی‘ بلکہ مسجد حرام کے نواح میں داخل ہوتے ہی‘ سارے دکھ دھل جاتے ہیں۔ ایک ٹھنڈک سی قلب کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے۔ کوئی غم باقی رہتا ہے اور نہ کوئی اندیشہ۔
دستِ ہر نااہل بیمارت کند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند
ستمبر کا مہینہ‘ حج کے ایام بیت چکے تھے۔ رمضان المبارک‘ ظاہر ہے کہ آٹھ نو ماہ کی مسافت پر تھا۔ حرم پاک میں زیادہ سے زیادہ پانچ سات ہزار زائرین۔ گلیوں میں ہجوم تھے اور نہ عبادت گاہ کے نواح میں بھیڑ بھاڑ۔ آسانی سے طواف کیا جا سکتا تھا اور بار بار۔ ذرا سی کوشش سے حجرِ اسود کو بوسہ دیا جا سکتا۔ حرم سے گوارا مسافت پر قیام۔ شارع خالد بن ولید پر‘ چھوٹا سا مگر صاف ستھرا ہوٹل۔ وہ گلی‘ جہاں کبھی وہ آدمی جیا تھا‘ جسے تاریخ کے دوام میں زندہ رہنا تھا۔ اللہ کی تلوار۔ عمر بھر جو میدانِ جنگ میں ڈٹا رہا۔ جس کے پورے پیکر پر زخموں کے نشان تھے‘ مگر اپنے گھر کے بستر پہ اس نے جان دی۔
مکہ مکرمہ میں تین دن بتانے کے بعد‘ مدینہ منورہ کا قصد۔ آں خنک شہرے کہ آنجا دلبراست۔ سرکارؐ کی بستی میں‘ شاہ جی کو عجب حال میں دیکھا۔ سر کچھ اور جھک گیا تھا‘ انکسارکچھ اور بڑھ گیا تھا۔ امام مالکؓ کی طرح‘ مدینہ کی گلیوں میں ننگے پائوں گھومتے۔ تمام دوسرے زائرین کے برعکس ریاض الجنّہ میں جگہ پانے کیلئے بے تاب کبھی نہ ہوئے‘ جنت کا باغ۔ روضۂ رسول کی طرف بھی لپک کر کبھی نہ گئے۔ ہر بار دوسروں کو راستہ دیتے‘ پیچھے ہٹ جاتے۔ دیکھا کہ نماز اکثر پچھلی صفوں میں ادا کرتے۔ ہوٹل میں کھانا خاموشی سے کھاتے۔ وعظ و نصیحت اور نہ دوسروں کی رہنمائی کرنے کی خواہش۔ کبھی شکایت نہ کرتے‘ مرید ان کی کیا خدمت کرتے‘ الٹا وہ ان کی فکر کیا کرتے۔
لوٹ کر مکہ مکرمہ آئے تو ایک دن اس ناچیز کو یاد کیا۔ کچھ دیر حال پوچھتے رہے۔ معذرت کی کہ طبیعت خراب ہے‘ اٹھ کر بیٹھ نہیں سکتے۔ گائو تکیے سے ٹیک لگائے رہے۔
کہا تو بالآخر یہ کہا: ''صحبت سعید‘ صحبت سعید‘‘۔ بولے تو بس یہ بولے: کار دنیا میں بے شک آدمی منہمک رہے‘ خَالق سے تعلق مگر استوار رہے۔ کہا: بس اتنی سی بات ہے‘ باقی سب تفصیلات ہیں۔ تب نہیں‘ غالبؔ کا شعر اب یاد آیا۔
گو میں رہا‘ رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
میاں صاحب نے ارشاد کیا تھا: اللہ میرے ساتھ ہے اور عوام بھی۔ اب وہ کیا کہتے ہیں۔ ان کے فدائین کیا کہتے ہیں‘ جی ٹی روڈ سے انقلاب برپا کرنے کا جنہوں نے مشورہ دیا تھا۔