مغرب کے نقطۂ نظر سے‘ مسلمان معاشرے کا کبھی ادراک نہ کیا جا سکے گا‘ جس طرح کہ مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے مغرب کا۔ تاریخ الگ‘ مزاج الگ‘ ماحول الگ‘ مشاغل الگ‘ کردار کا تانا بانا ہی الگ۔ ع
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
انتہا پسند اور جنونی مذہبی گروہوں سے خوف زدہ ہونے کا یقینا جواز ہے۔ پوری قوت سے انہیں کچل دینا چاہئے۔ پاکستان کے لبرل مگر مذہب سے خوف زدہ کیوں ہیں۔ کیا مذہب اور مذہبی طبقات ایک ہی چیز ہیں؟۔
مسلم تاریخ شہادت دیتی ہے کہ ایسا ہرگز نہیں۔ مذہب جب واقعی کارفرما تھا تو مذہبی طبقات کہاں تھے؟ واعظ اور خطیب کہاں تھے؟ اور فرقہ وارانہ پارٹیاں؟ منفرد حلیہ رکھنے اور لباس پہننے والے علما کرام؟ غیر مسلم رعایا کیا نامطمئن اور بے چین تھی؟۔
عمر بن عبدالعزیز کے عہد میں‘ جنہیں بعض مورخ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لقب کا مستحق گردانتے ہیں‘ غیر مسلموں کی زندگی‘ کیا ملوکیت سے کہیں زیادہ آسودہ نہیں تھی؟ عمر فاروق اعظمؓ کے عہد میں‘ پہلی بار جب‘ سوشل سکیورٹی سسٹم کا باقاعدہ نفاذ ہوا‘ غیر مسلم ان تمام مراعات کے مستحق تھے‘ جو مسلم آبادی کو حاصل ہوئے۔
بعد کے ادوار میں بھی‘ روشن مثالیں موجود ہیں۔ برعکس تاثر صرف ان لوگوں میں ہے‘ اسلامی تاریخ کا گہرائی سے جنہوں نے مطالعہ نہیں کیا۔ فاروق اعظمؓ کے قیصر روم سے ایک طرح کے ذاتی تعلقات تھے۔ انہیں وہ خط لکھا کرتے۔ ظاہر ہے کہ فقط ذاتی نوعیت کا تعلق نہ تھا۔ ضائع کرنے کے لیے اس آدمی کے پاس وقت کہاں تھا‘ ایران اور مصر سمیت پورے مشرق وسطیٰ کے بارے میں جسے فیصلے صادر کرنا ہوتے۔ یہی نہیں ایران کے ایک سابق حکمران نوشیروان عادل کے عہدِ حکومت اور قوانین کا سنجیدگی سے جائزہ لیا گیا۔ ان میں سے کچھ نافذ کر دیے گئے۔ مثال کے طور پر خزانے کا انتظام و انصرام۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ بہت سے قوانین کا تعلق مذہب نہیں بلکہ عالمی انسانی اقدار اور عام ضروریات سے ہوتا ہے۔ عیسائیت اور یہودیت میں یہ اقدار اسلام سے مختلف نہیں۔ کون سا مذہب ہے‘ دروغ گوئی اور خیانت کی جو اجازت عطا کرتا ہے۔ ایثار اور قربانی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا‘ عدل کی اہمیت پر جو زور نہیں دیتا؟ برسبیل تذکرہ یہ بھی کہ کسی سیکولر مفکر نے کبھی کوئی اخلاقی اصول وضع نہیں کیا۔ سب کے سب ادیان سے لیے گئے‘ جن کی اقدار میں کوئی تصادم اور تضاد نہیں۔ یہ الگ بات کہ ہندو مت‘ مسیحیت اور یہودیت کی تعلیمات بتدریج مسخ ہوتی گئیں۔
انحراف کے واقعات ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ رواداری اور وسعتِ ظرف کی ایسی مثالیں مسلمان معاشروں کی تاریخ میں مگر موجود ہیں کہ آج کا مغرب بھی‘ ان پہ رشک کرے۔
عثمانی ترک‘ جو جدید سول سروس اور جدید فوج کے بانی تھے‘ سرکاری مناصب پر غیر مسلموں کو ترجیح دیا کرتے۔ صرف ترجیح ہی نہیں‘ بعض ادوار میں ان کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ اس پر تعجب کیا جاتا۔ بظاہر اس کی وجہ یہ تھی کہ‘ مرکز سے قوت حاصل کرنے والے افسر‘ معاشرے کے تعصبات سے بالا ہو کر فیصلے صادر کر سکیں۔ اس سے مگر یہ واضح ہے کہ مملکت‘ مسلم اور غیر مسلم رعایا کے درمیان‘ اعتماد کا رشتہ کتنا پائیدار‘ کتنا گہرا تھا۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ اسی روایت کے پاسدار تھے‘ میثاق مدینہ سے‘ جس کا آغاز ہوا۔ آنے والے برسوں میں جو قائم رہی‘ حتیٰ کہ مسلمان فرقہ پرست‘ ایک دوسرے کے مقابل اٹھے۔ منطق‘ دلیل‘ قرآن کریم اور سیرت رسولؐ کے بجائے‘ مکاتب فکر کے انتہا پسند اساتذہ کی پیروی کی جانے لگی۔ چیخنے چلانے‘ خواب دکھانے اور جذبات کا استحصال کرنے والوں کے ہاتھ میں طاقت آ گئی۔ ایران اور برصغیر میں فرقہ پرستی کے ماروں نے‘ ایک دوسرے پر یلغار کی۔ ایسے مذہبی گروہ وجود میں آئے‘ جن کا مقصد اعتقاد کی صحت اور اخلاق کی تربیت نہیں بلکہ اقتدار کا حصول تھا۔ ان کے خفیہ سیل قائم ہوئے۔ نسل در نسل ان کا اصل اور خفیہ پیغام منتقل ہوتا رہا۔ مخالف فرقوں کی تردید اور مذمت ہی نہیں بلکہ نفرت پر‘ جنہوں نے اپنے لوگوں کو تحریک دی اور منظم کیا۔ جہاد کے نام پر حکومت کا حصول‘ جن کی سب سے بڑی ترجیح تھی۔
1946ء کے انتخابات میں‘ قائد اعظمؒ کو 75.6 فیصد ووٹ ملے۔ آل انڈیا مسلم لیگ ان کی واحد نمائندہ بن کر ابھری۔ واضح ہو گیا‘ غیر معمولی طور پر متحرک ان گروہوں کو مسلم عوام نے ہمیشہ کیلئے مسترد کر دیا ہے۔ قیام پاکستان کی جدّوجہد‘ میں اقلیتی مذہبی گروہ‘ دوسروں سے زیادہ سرگرم تھے۔ ثابت ہوا کہ مسلمانوں کی اکثریت تنگ نظری سے نالاں تھی‘ علماء کرام کے بعض گروہ صدیوں سے‘ جس پہ اصرار کرتے آئے تھے۔
اس خطّۂِ ارض میں‘ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ‘ مسلمانوں کے اجتماعی مزاج کا سب سے بڑا مظہر تھے۔ پڑھے لکھے‘ غیر متعصب مسلم عوام نے‘ جو معلومات اور ادراک رکھتے تھے‘ انہی دو شخصیات کو اخلاقی اعتبار سے بھی‘ افضل ترین مانا۔ اب بھی مانتے ہیں۔ کٹھ ملّائوں کی طرح‘ اوّل روز سے‘ پاکستان کے لبرل طبقات کا المیہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر نے‘ قائد اعظم کو خلوص دل سے قبول نہ کیا۔ ایک شاعر کی حیثیت سے فیض احمد فیضؔ بہت بڑے اور اپنی شائستگی کے سبب محترم ہیں۔ اس کا مگر کیا کیجئے کہ ''یہ داغ داغ اجالا‘‘ والی نظم‘ قیام پاکستان کے فوراً بعد انہوں نے لکھ دی تھی۔ وہ یہ بھی فرمایا کرتے کہ پاکستان میرے لئے بیوی اور بھارت محبوبہ کی طرح ہے۔ اس نظم پر ایک نگاہ ڈالیے‘ جو میاں محمد نواز شریف اور سیکولرازم کی پُرجوش حمایت کرنے والی ایک افسانہ نگار/کالم نگار نے نقل کی ہے۔ ساری عظمت اور قبولیت کے باوجود‘ فیضؔ بھی خوابوں کی دنیا کے مکین تھے۔
سودائے عشق اور ہے وحشت کچھ اور شے
مجنوں کا کوئی دوست‘ فسانہ نگار تھا
انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون نے پاکستانی اخبار نویس‘ جناب ناصر عباس کا ایک تجزیہ‘ صفحۂ اول پہ شائع کیا ہے۔ وہی شکوہ سنجی کہ قرارداد مقاصد منظور کرکے‘ لیاقت علی خان نے‘ قائد اعظمؒ کے پاکستان کو پس پشت ڈال دیا۔ قرارداد مقاصد میں ایسی کیا چیز ہے‘ عدم رواداری اور انتہا پسندی کی طرف جو مائل کرتی ہے؟ کیا اسلام کا اپنی روح کے مطابق بروئے کار آنا‘ غیر مسلموں کی زندگی دشوار کر دے گا؟ اسلام کے حقیقی نمائندے تو اقبالؒ اور جناحؒ تھے۔ ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی سمیت‘ دین کی محدود توجیہ کرنے والوں کو‘ مسلم برصغیر نے مسترد کر دیا تھا۔ انہیں تو وہ شریعت کا شارح مانتے ہی نہیں۔ کبھی انہیں ووٹ ہی نہیں دیتے‘ الّا یہ کہ کوئی امیدوار ذاتی طور پر قابل قبول ہو۔ بلوچستان اور پختون خوا کے چند حلقے‘ جہاں ایک خاص مکتب فکر کی اکثریت ہے۔ جہاں علمائے دین‘ دین کی نہیں مقامی مفادات اور تعصبات کی سیاست کرتے ہیں۔ نعوذ بااللہ‘ خطرہ کیا قرآن کریم اور سیرت رسولؐ کی پیروی سے ہے؟ اللہ کی آخری کتاب مومن کی صفات بیان کرتی ہے: ''جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے‘ اس میں سے وہ (محروموں پہ) خرچ کرتے ہیں‘‘۔ ''ایثار کرتے ہیں‘ خواہ تنگ دست ہوں‘‘۔ ''خلق ان سے عافیت میں رہتی ہے‘‘۔ ''جاہل ان سے بات کریں (اور الجھنے کی کوشش کریں تو وہ نہیں الجھتے اور) یہ کہتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو‘‘۔ اللہ کے آخری رسولؐ؟۔ دمِ رخصت‘ جن چند چیزوں کی آپؐ نے وصیت کی‘ ان میں سے ایک یہ تھی کہ غیر مسلموں کا پوری طرح خیال رکھا جائے۔ روایتی مسلمان اکثریت سے ہمارے لبرل مسلمان کا مطالبہ کیا ہے؟ یہ کہ‘ وہ دین ہی سے دستبردار ہو جائے؟ اگر ایسا ہے تو یہ احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے معاشرے کو وہ سمجھتے ہی نہیں۔
مغرب کے نقطۂ نظر سے‘ مسلمان معاشرے کا کبھی ادراک نہ کیا جا سکے گا‘ جس طرح کہ مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے مغرب کا۔ تاریخ الگ‘ مزاج الگ‘ ماحول الگ‘ مشاغل الگ‘ کردار کا تانا بانا ہی الگ۔ ع
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ