ہر دس پندرہ برس کے بعد ایک حکمران اسلام آباد کی راول جھیل میں ڈوب جاتا ہے۔ مہلت پانے والے کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیشہ کے لیے‘ ان کی رسی دراز ہے۔ دائمی مہلت کبھی کسی کو ملی ہے؟پنجابی کا محاورہ یہ ہے: سوگز رسّی اور سرے پہ گانٹھ!
شریف خاندان والے اب تک کاشت کرتے آئے ہیں‘ اب فصل انہیں کاٹنی ہے۔ اب تک وہ کماتے آئے ہیں‘ اب انہیں حساب دینا ہے۔ تین عشرے سے مخالفین پر وہ یلغار کرتے آئے ہیں‘ اب انہیں یلغار کا سامنا ہے۔اب تک وہ مظلومیت کا نقاب اوڑھے رہے۔ اب بے نقاب ہونا ہے۔
یہ نمازِ عصر کا وقت ہے‘ یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی
وہ قیامتیں جو گزر گئیں‘ تھیں امانتیں کئی سال کی
ابھی ابھی لندن سے لوٹنے والے ایک عینی شاہد نے بتایا: میاں محمد نوازشریف کا فرزند‘ اپنے محلات کے قریب‘ ایک دکان میں سودا سلف خریدنے گیا۔ ایک پاکستانی کہیں سے نمودار ہوا۔ ان کے درمیان یہ مکالمہ ہوا۔
''السلاّم علیکم و رحمتہ اللہ‘‘
''وعلیکم السلاّم و رحمتہ اللہ‘‘
''آپ کیسے ہیں؟‘‘
''الحمدللہ...‘‘
''ابّو کیسے ہیں؟‘‘
''الحمدللہ...‘‘
''مگر آپ کے ابو تو......‘‘
دشمن کو بھی اس دن سے خدا محفوظ رکھے‘ والدین کی وجہ سے‘ اولاد کو جس دن خفّت کا سامنا ہو۔ ایک آدھ نہیں‘ پے در پے ایسے واقعات نمودار ہوئے ہیں۔ صرف لندن ہی نہیں‘کہیں بھی وہ چلے جائیں‘ یہی ہوگا۔ اس لیے کہ سمندر پار پاکستانیوں میں کم از کم ستر فیصد ‘ عمران خان کے حامی ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نون لیگ اور تحریک انصاف کے بہت سے ووٹر‘ ایک دوسرے سے محض اختلاف نہیں کرتے۔ ایک دوسرے کے وہ دشمن ہیں۔یہ دونوں کی کمائی ہے‘ ایک سے بڑھ کر ایک برطانیہ کے کسی بھی شہر میںشاید یہی ہو۔ پاکستان میں اگرپناہ نہ مل سکی‘ نیویارک‘ کوپن ہیگن‘ سٹاک ہوم یا ایمسٹرڈیم کا رخ کرنا پڑا تو شاید وہاں بھی یہی کچھ رو نما ہو۔ وہ آدمی کتنا مفلس ہوتا ہے‘ جس کے پاس دھن دولت کے سوا کچھ نہ ہو۔مشکل وقت میں جس کے مددگاربہت کم اور مخالف بہت زیادہ ہوں۔
چالیس برس ہوتے ہیں‘ ریڈرز ڈائجسٹ میں ایک لطیفہ پڑھا تھا۔ مسرّت سے چیختی آواز میں ‘ جانسن نے دریا کنارے گٹار بجاتے اپنے دوست اور پڑوسی ٹامی سے کہا:
''میں نے ایک مشین خریدی ہے‘ ایک نئی قسم کا ٹریکٹر‘ ہل چلانے کے علاوہ جو کھیتی میں بیج ڈال سکتا ہے‘ کھاد بکھیر سکتا ہے‘ فصل کاٹ سکتا ہے۔‘‘
''کس لیے؟‘‘
جانسن حیرت زدہ رہ گیا اور اس نے کہا:
''سینکڑوں ہیکٹر پر پھیلی‘ زمین کاشت کرنے کے لیے۔ تم جانتے ہو کہ کتنا بڑا یہ عذاب ہے۔ کتنی مشکل میں پڑتا ہوں ۔درجنوں ملازم‘ ان کی تنخواہیں‘ ان کی نگرانی۔ معاوضہ ادا کرنے کے باوجود‘ گائوں کے ان لونڈوں کے نخرے۔‘‘
''مگر کس لیے؟ ‘‘
'' زیادہ سے زیادہ آلو اگانے کے لیے‘‘
''کس لیے؟‘‘
''ظاہر ہے کہ منڈی میں بیچنے کے لیے ‘‘
''کس لیے؟‘‘
''تاکہ آمدن بڑھے اورمزید زمین خریدی جائے؟‘‘
''کس لیے؟‘‘
''تاکہ بہت سی دولت کمائی جائے‘ ہر سال لاکھوں ڈالر‘ میرے یار‘‘
''کس لیے؟‘‘
''تاکہ آدمی ٹھاٹ سے رہے اور زندگی کا لطف اٹھائے‘‘
'' کیوں اتنی مصیبت میں پڑے ہو۔ اتنی کھکھیڑ کی ضرورت کیا ہے‘ کیوں اس قدر انتظار کیا جائے۔ میری طرف دیکھو‘ اپنے گٹار کے ساتھ میں مزے اڑا رہا ہوں۔ہر روز اڑاتا ہوں‘‘
عمر ابن خطابؓ کا ایک گورنر دیناروں کی تھیلی اٹھائے اپنے گھر میں داخل ہوا۔ اپنی شریک حیات سے اس نے کہا ''ہم پر مصیبت آن پڑی‘‘۔
'' کیا امیرالمومنین انتقال کر گئے؟‘‘
''نہیں‘ اس سے بھی بڑی‘ دنیا ہمارے گھر میں داخل ہوگئی۔‘‘
وہ کوفہ کا حاکم تھا اور التجا کرکے بھیجا گیا تھا۔ شہریوں کے ایک وفد نے... سال میں کئی بار مدینہ منورہ‘وہ لوگ جایا کرتے... گورنر کی شکایت کی تھی۔ یہ نہیں کہ وہ ظالم یا لاپروا ہے بلکہ یہ کہ چیتھڑے سے لٹکائے پھرتا ہے۔ اس کے پاس ایک ہی لباس ہے‘ اور کبھی یہ میلا بھی لگتا ہے‘ گاہے تاخیر کے ساتھ گھر سے وہ باہر نکلتا ہے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ گم سم رہنے والا گورنر‘ سنگین ذاتی مسائل کا شکار ہے‘ مالی مدد کا محتاج۔
اسی لیے یہ تھیلی اسے بھیجی گئی تھی کہ اپنی ضروریات پوری کرے۔ ضرورت ہو توچند لباس اور سلوا لے۔ گھر میں گھسا رہنے کی بجائے سارا وقت سائلوں‘ فریادیوں اور ضرورت مندوں کو دیا کرے۔
''دنیا ہمارے گھرے میں داخل ہوگئی‘‘۔ ہیجان اور گھبراہٹ میں اس نے دہرایا۔
خاتون نے سر اٹھا کر دیکھا اور یہ کہا: یہ کون سا مسئلہ ہے۔ دنیا ہمیشہ ضرورت مندوں سے بھری رہتی ہے۔ ان میں بانٹ دو اور اس مصیبت سے نجات پائو‘اگر یہ تمہیں ناگوار ہے۔
ابدیت سفر کو ہے‘ مسافر کو نہیں۔ دانا وہ ہیں‘ جو اپنا بوجھ بانٹتے رہتے ہیں۔کوئی احمق اس نکتے کو کبھی نہیں پا سکا کہ لدا پھندا ہوا آدمی منزلِ مراد تک پہنچ نہیں سکتا‘ مسافت ہی میں ہلاک ہوتا ہے۔
شریف خاندان ہی کا کیا ذکر‘ ان سب کا حال برا ہے‘ جو جوڑتے اور جمع کرتے رہتے ہیں۔ گن گن کر رکھتے اور حیات کو گراں بار کرتے جاتے ہیں۔ میاں محمد نوازشریف اور ان کی اولاد کے مقدمات کا ذکر زیادہ ہے کہ وہ بھنور کی آنکھ میں ہیں۔ زرداری صاحب بھی اسی عذاب میں مبتلا ہیں۔سونے چاندی سے لدے‘ ہانپتے کانپتے ہوئے۔ راولپنڈی کی ایک احتساب عدالت روزانہ کی بنیاد پر‘ ان کے خلاف کرپشن کے ایک مقدمے کی سماعت کر رہی ہے۔ چند روز میں فیصلہ متوقع ہے۔ اگر ان کے خلاف صادر ہوا۔ اگر ہائی کورٹ نے ضمانت قبول نہ کی تو اپنے ہم نفس سے پہلے ہی‘ سلاخوں کے پیچھے ہوں گے‘ جس کے پیغام پر پیغام چلے آتے ہیں۔ پہلے نہیں تو کچھ بعد میں۔چند ہفتے‘ چند ماہ یا زیادہ سے زیادہ ایک دو برس۔ جیل نہیں تو جلا وطنی ہے۔
ہر دس پندرہ برس کے بعد ایک حکمران اسلام آباد کی راول جھیل میں ڈوب جاتا ہے۔ مہلت پانے والے یہی سمجھتے ہیں کہ ہمیشہ کے لیے‘ ان کی رسی دراز ہے۔ دائمی مہلت کبھی کسی کو ملی ہے؟پنجابی کا محاورہ یہ ہے: سوگز رسّی اور سرے پہ گانٹھ!