میاں شہباز شریف کی تربیت ایک مختلف ماحول میں ہوئی۔ میں حیران ہوتا رہا کہ کیا خواجہ رفیق کے متحرک اوربلند ہمت فرزند نے ‘ کبھی اقبالؔ کے مطالعے کی زحمت کی ہوگی۔
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں‘ جہاں پیدا
مینارِ پاکستان تاریخی یادگار ہے۔ شاعر کا خواب 23 مارچ 1940ء کو مجسّم ہوا۔ مسلم لیگ نے جب راوی کے پاٹ سے پیدا ہونے والے‘ میدان میں قراردادِ پاکستان منظور کی۔ پنجاب مسلم لیگ کی تنظیم کے تحفظات کے باوجود‘ اقبال ؔپوری طرح واضح تھے۔ محمد علی جناحؒ واحد لیڈر ہیں‘جومسلم برصغیر کوادبارسے نجات دلا سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ پارٹی بن سکتی ہے۔ اسی زمانے میں کہا تھا کہ وہ قائداعظمؒ کے سپاہی ہیں۔
مینار پاکستان کی اہمیت مسلّمہ ہے۔ بیتے ہوئے برسوں میں‘ رفتہ رفتہ بتدریج ایک جذباتی وابستگی نے جنم لیا اور وقت کے ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ باایں ہمہ یہ تعمیراتی کمال کا کوئی نمونہ ہرگز نہیں۔ ایک کھلے میدان میں‘ اس کی بلند و بالا چوٹی کو دیکھتے ہوئے‘ اچانک آپ اس کے پاس پہنچتے ہیں۔ پھرحیران کھڑے رہ جاتے ہیں۔ مینار پر اساطیری خوش نویس‘جناب نفیس رقم کے قلم سے کتابت شدہ قرارداد کا مطالعہ کرنے کے بعد کوئی کیا کرے۔ کیونکر سمجھے کہ یہ مینار کیوں تعمیر کیا گیا ۔ اس لافانی پیغام اور جلیل مقصد کی وضاحت کرنے‘ اس پہ روشنی ڈالنے کے لیے کچھ بھی تو موجود نہیں‘ آنے والی صدیوں کے لیے جس نے مسلم برصغیر کو بدل ڈالا۔ یکسر ایک نئی شاہراہ تعمیر کر دی۔
اس کے برعکس‘ بابِ پاکستان کا تصور کہیں گہرا‘ متنوع اور بامعنی ہے۔ سامنے کی وجہ یہ ہے کہ ان ماہرین کے برعکس‘ جنہوں نے تعمیر کا فیصلہ صادر ہونے کے بعد‘ ساخت کے گل بوٹوں پر غورفرمایا‘ بابِ پاکستان‘سوچا سمجھا ایک خواب ہے۔ برسوں تک ایک طالب علم کے دل و دماغ میں جوپرورش پاتا رہا۔ مینارِ پاکستان جوش و جذبے اور والہانہ محبت کا بے تابانہ اظہار ہے۔ پاکستان جیتنے والی نسل کی طوفانی امنگوں کا اظہار ‘ جو آسمان کو چھو لینے کی تمنا رکھتی تھی۔ بابِ پاکستان مگرنئے وطن کے مقاصد پر غوروفکر کرنے والے فصیح ذہن کا کرشمہ ہے۔ وہ خواب جو پیدا ہوا ‘پالا پوسا اور سینچا گیاحتیٰ کہ تناور ہونے کیلئے بے قرار ہوا۔کبھی اگر مکمل ہوگیا اور انشاء اللہ ہو کر رہے گا تو تحریکِ آزادی سے وابستہ تقاریب میں‘ کہیں بڑے‘ کہیں زیادہ خوش دل ہجوم یہاں امڈ آیا کریں گے۔
افسوس کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف اور خواجہ سعد رفیق‘ قوم کے لیے خوابوں کی اہمیت کا قطعاً کوئی ادراک نہیں رکھتے‘ کاروباری لوگ! نفع و نقصان اور روپیہ پیسہ ان کی سمجھ میں آتا ہے۔ خوب سمجھ میں آتا ہے۔لائبریری‘ آڈیٹوریم‘ کتاب اور پیغام نہیں‘ تاریخ میں دوام سربلندی اورسرفرازی کی جستجو نہیں۔ زندگی ان کے لئے اقتدار میں ہے‘ طاقت وحشمت اور زر و مال میں۔ نعرے بازی اور خوش کن وعدوں سے نیم خواندہ ووٹروں کو متاثر اور مرعوب کرنے میں ۔اس ہنر میں وہ تاک ہیں مگر رائے عامہ کی اخلاقی‘ تعلیمی اور نظریاتی تربیت کا کوئی تصور ان دماغوں میں جگہ پا نہیں سکتا۔
شریف خاندان کے برعکس‘آزادی کے ہنگامہ کبریٰ میں‘ الگ تھلگ جو کاروباری حیات میں مگن تھا‘ غلام حیدر وائیں تحریکِ پاکستان کے کارکن تھے۔ یہ بات ان کی سمجھ میں آتی تھی۔ ہمہ وقت بھاگتے رہنے والے ‘اہلِ علم‘ کتاب اور فکر و تدبر سے گریزاں خادمِ پنجاب کے فہم میں کیسے آئے ۔کون سمجھائے کہ جس قوم کا کوئی مقصود نہ ہو‘ اس کی منزل بھی کوئی نہیں ہوتی۔
ذرا سا اندیشہ بھی اگر ہوتا کہ بابِ پاکستان میں داخل ہونے کی کوئی مزاحمت کرے گا تو کوئی تدبیر کی جاتی۔ مزاحمت ہوئی بھی نہیں۔ ایک ذرا سے تامل کے بعد‘ دیہاتی سے چوکیدار نے راہ میں رکھا بانس ہٹا دیا۔ اس کے بعد جو کچھ پیش آیا‘ وہ حیران کن اور تکلیف دہ تھا۔ ادھوری مرکزی عمارت کے قریب‘ ایک
صاحب نے راستہ روکا ۔ اس طرح برہم جیسے ہم نے ان کے گھر کی دیوار پھلانگ لی ہو۔ ''بدتمیز‘‘ اور ''بکواس‘‘ یہ وہ الفاظ تھے‘ جوموصوف مسلسل دہراتے رہے ''تم بدتمیز ہو‘‘۔ ''تم بکواس کر رہے ہو‘‘۔ معاملہ رفع دفع ہونے کے باوجود‘ بار بار پلٹ کر وہ آتے اور چیختے ''بدتمیز بکواس‘‘۔ تعارف کرایا گیا اور بات سمجھانے کی کوشش کی گئی۔ وہ کچھ سمجھ بھی گئے مگر اب انہوں نے کہا ''اگر تم دہشت گرد ہو؟‘‘۔
ہیولیٰ برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا
میری تعمیر میں مضمر ہے اِک صورت خرابی کی
گاڑی کے آگے پیچھے ‘ وہ آدمی کھڑے کر دیتا اور فون پر کسی سے کہتا ''وہ ہم پر گاڑی چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ بابِ پاکستان کے سیکرٹری اور مقامی فوجی دفتر کی مداخلت سے بالآخر نجات ملی؛ اگرچہ چیخ و پکار جاری رہی۔ ''تم ہمارے گھر میں داخل ہوئے ‘‘ بار بار اس نے کہا ''میں تمہیں معاف نہیں کروں گا‘‘۔ صرفِ نظر کا فیصلہ کیا۔ خواہش اس کی یہ لگتی تھی کہ کسی طرح زورِ بازو کی نمائش کا موقع ملے۔
بابِ پاکستان میں داخلے کیلئے والٹن روڈ کے سامنے سے گاڑی گزری تو فوراً ہی یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ خادمِ پنجاب یہاں ایک بزنس کمپلیکس تعمیرکرنے کے آرزومند کیوں ہیں۔ لگ بھگ دس بارہ ہزار فٹ کے عرض پر مشتمل‘ ایک ہموار قطعۂ زمین ۔ سامنے‘ ڈیفنس‘مالداروں کی وسیع و عریض بستی‘ برق رفتاری سے کام کرنے والی کوئی ترک یا چینی کمپنی‘ اگر دس بارہ منزلہ عمارتوں کا ایک سلسلہ پنجاب سپیڈ سے تعمیر کردے تو اس کی مالیت کیا ہوگی؟۔درہم و دینار کے بندوں پر کتنے ہی نئے آفاق کھلیں گے۔
چہار جانب اونچی گھاس‘ خود رو درخت‘ نامکمل عمارتوں کا زنگ کھایا ہوا سریا اور وحشت زدہ کر دینے والی ویرانی۔ 2010ء سے کام رکا ہے۔ 2006ء ‘ جنرل پرویز مشرف اور چودھری پرویزالٰہی کے عہد میں‘ عملاً‘ تعمیراتی کام کا آغاز ہوا تھا۔ پھرشہباز شریف نمودار ہوئے۔ کچھ عرصہ گوارا کیا ۔پھر نادر شاہی حکم صادر ہوا۔
وہ آئے بزم میں اتنا تو ہم نے دیکھا میرؔ
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
ہر سال خادمِ پنجاب اعلان کرتے ہیں: شہیدوں کا یہ قرض ہے‘ جو ہم چکا کر رہیں گے۔ سات برس سے مگر ایک روپیہ بھی جاری نہیں ہوا۔ ایک ایسے دہقان کی طرح‘ جس کی زمین نمی اور بیج کو ترس گئی ہو‘ اداس امجد چوہان نے بتانا شروع کیا: شالامار باغ کی طرح‘ مرکزی عمارت کے راستے میں ایک کے بعد دوسرا تختہ۔ اس کے بعد ایک خیر مقدمی دفتر‘ اس کے برآمدے اور چاروں طرف خیموں کی طرز پر بہت سی انتظار گاہیں۔ ان میں بنچ دھرے ہوں گے کہ سیر کرنے والے سستا سکیں۔ ہر طرف فوارے‘ ہر موسم میں کھلنے والے پھول ۔ایک وسیع و عریض آڈیٹوریم کے علاوہ ریستوران‘ جہاں کام و دَہن کی تواضع ممکن ہو۔ سووینئر شاپ‘ جو سیر کو یادگار بنا دے۔ایک ایسی جگہ‘ ملک بھر سے لوگ‘ جہاں امڈے چلے آئیں گے۔ دلچسپی کے ہزار سامان ہوں گے۔ تنگ آبادیوں کے درمیان‘ آلودگی کے مارے شہر میں وہ تازہ ہوا اوراپنی تاریخ میں سانس لے سکیں گے۔ جنہیں توفیق عطا ہو وہ غوروفکر کریں گے۔
خواجہ سعد رفیق‘ تحریکِ پاکستان کے ایک کارکن‘ خواجہ محمد رفیق کے فرزند ہیں۔ محدود سی آمدن اور بے پایاں تکریم کے خواجہ رفیق لاہور کے ماتھے کا جھومر تھے۔ ان لوگوں میں سے ایک‘ شہر‘ جن کے وجود سے ثروت مندہوتے اور خود پر فخر کرسکتے ہیں۔
میاں شہباز شریف تو الگ کہ ان کی تربیت ایک مختلف ماحول میں ہوئی۔ میں حیران ہوتا رہا کہ کیا خواجہ رفیق کے متحرک اوربلند ہمت فرزند نے ‘ کبھی اقبالؔ کے مطالعے کی زحمت کی ہوگی۔
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں‘ جہاں پیدا