ابھی ابھی دانائے راز اقبالؔ کی آواز میں نے سنی۔ وہ گداز اور یقین میں گندھی آواز‘ کبھی جس نے مسلم برصغیر کے آفاق پہ اجالا کیا تھا۔
یقیں پیدا کر اے ناداں یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری
آزمائش اترتی ہے تو کردار کی خامیاں اور خوبیاںچھلک اٹھتی ہیں۔ مباحثہ ہے اور اس کا ہدف عالمِ اسلام کے حکمران ہیں۔مظاہرین کے تیور یہ ہیں:برما کے بارے میں اگر تم کوئی قدم نہ اٹھائو گے تو اور بھی زیادہ ہم تم سے نفرت کریں گے۔ کچھ خاص معتوب ہیں۔ بعض کا امریکہ بہادر اور اس کے حامی‘ چند ایک کا اقوام متحدہ۔ کچھ ناراض لوگ سعودی عرب پہ برسے ہیں کہ یمن میں وہ کارروائی کرتا ہے‘ تو برما میں کیوں نہیں۔
جنگ کا پہلا اصول یہ ہے:اپنے دشمن کو پہچانو!خطا معاف ،اپنے سب سے بڑے دشمن ہم خود ہیں۔ عرصۂ امتحان میں اوّلین ضرورت حواس قائم رکھنے کی ہوتی ہے۔ ع
ہدف سے بیگانہ تیراس کا،نظر نہیں جس کی عارفانہ
طے کرنا چاہئے کہ ہماری ترجیح مظلوم مسلمانوں کی امداد ہے یا برمی حکومت سے انتقام۔ اصول یہ ہے کہ انتقام میںتعجیل نہ کرنا چاہئے۔ ثانیاً بدلہ اتنا ہی ہوتا ہے‘ جتنا کہ جرم ہو۔ اور اس کا تعین کرنا ہوتا ہے۔
واحد لیڈر حرف تحسین‘ جس کے حصے میں آیا ہے‘ ترکی کے طیب اردوان ہیں‘ پہل کاری میں جو ثانی نہیں رکھتے۔ نازک مواقع پر حمیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایک بار پھر خطا معاف‘ بنیادی بات جو انہوں نے کہی‘ نظراندازکر دی گئی ۔ بنگلہ دیش کی حکومت کو انہوں نے پیشکش کی کہ اگر اپنی سرحدیں وہ کھول دے، اخراجات ترک برداشت کریں گے۔ سامنے کی دو باتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ مجبوروں‘ مقہوروں اور محتاجوں کو حامیوں کی چیخ و پکار سے زیادہ مرہم اور پناہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ برما کی حکومت کو اس طرح واضح پیغام ملے گا کہ اراکان کے مسلمان تنہا نہیں۔ ان کا ہاتھ تھامنے اور ان کیلئے ایثار کرنے والے موجود ہیں۔ یہ مرحلہ سر ہو جائے اور ظاہر ہے کہ ناراض حسینہ واجد کی موجودگی میں‘ بہت سہل نہ ہوگا تو دوسرے اقدامات کا آغاز ممکن ہوگا۔
مہاجرین کی تعداد پچاس ہزار سے ستر ہزار کے درمیان ہے۔ ایک لاکھ روپے فی کس کے حساب سے زیادہ سے زیادہ آٹھ دس ارب روپے درکار ہیں۔ پورے کے پورے دس لاکھ مظلوموں کی مدد کا تہیہ ہو تو ایک سو ارب روپے کے لگ بھگ۔ آسانی سے اس کے دسویں حصے کا بوجھ ہم پاکستانی اٹھا سکتے ہیں۔ مظلوم لوگوں میں اعتماد بحال ہونے لگے گا اور برما کے حکمرانوں پر دبائو کا آغاز ہو جائے گا۔ اس کا فطری نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ اقوام متحدہ اور مہاجرین کے علاوہ مجروح اقلیتوں کی مدد کرنے والے دوسرے عالمی اداروں میں تحریک پیدا ہو جائے گی۔دو لاکھ جواں سال انسانوں کی ایسی تربیت کے لیے کہ ہنر مند اور صاحبِ روزگار ہوں ، 200ارب سے زیادہ شاید درکار نہ ہوں گے۔ قرضِ حسنہ جو اکثر 90فیصد سے زیادہ واپس مل جاتاہے ۔
آغازِ کار کہاں سے ہو؟ یہی سب سے مشکل سوال ہے؛ اگرچہ اس کے ایک سے زیادہ جواب اور ایک سے زیادہ محاذ ہو سکتے ہیں‘ متوازی طور پر ایک ساتھ جو بروئے کار آئیں۔ پانی یہیں مرتا ہے۔ اگر ہمارا شعار فقط اشتعال کے اظہارسے ، دل کا بوجھ ہلکا کرنا ہے تو حکمت عملی کی تشکیل ممکن نہیں ۔
ایک پورا دن غور کرتے بتا دیا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب سمیت کچھ نام حافظے میں ابھرے‘ جو کوپن ہیگن میں زیر علاج ہیں۔ چند دن میں امید ہے کہ وطن لوٹ آئیں گے ۔ان کا آپریشن کامیاب رہا اور وہ روبہ صحت ہیں۔ ممکن ہے‘ اس دعوے کو مبالغہ آمیز سمجھا جائے مگر یہ کافی سوچ بچار کا نتیجہ ہے۔اگر ایک پورا دن وہ نکال سکیں۔ اگر وہ روزنامہ دنیا کے دفتر میں تشریف لا سکیں۔ پھر لاکھوں افراد کو متحرک کرنے والے اس آدمی سے بات کریں جس کا نام بعد میں عرض کیا جائے گا تو دس بیس کروڑ روپیہ فوراً ہی فراہم ہو سکتا ہے ۔ لاکھوں افراد پر مشتمل ایک ادارہ میرے ذہن میں ہے‘ جس کے فیصلہ سازوں کو آمادہ کیا جا سکے تو چند ہفتوں میں پچاس کروڑ روپے کا بندوبست آسانی سے ممکن ہے۔ میرا واسطہ ان لوگوں سے رہتا ہے۔ شوروغوغا کرنے کی بجائے‘ فقط کام پر توجہ دی جائے تو غیر ضروری بھاگ دوڑ کی ضرورت بھی نہ ہوگی۔سیاست نہ کی جائے تو یہ بنگلہ دیش سے مراسم بہتر بنانے کی ابتدا بھی ہوگی ۔
اگر پاکستان میں یہ تحریک اٹھا دی جائے۔ غیر متنازعہ شخصیات پر مشتمل ایک کمیٹی اگر بنا دی جائے۔ پھر عالمِ عرب اور ترکی میں اس کا چرچا شروع کر دیا جائے تو دوسرے مسلم ممالک سے ایثار کی بہت ا مید ہے۔خود اہلِ بنگال سے بھی ، جن کے کچھ عجیب کرداروں کا دنیا بھر میں تذکرہ ہے ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اس کام کا طویل تجربہ رکھتے ہیں ۔ بین الاقوامی اداروں کو سمجھتے ہیں۔ اعتبار اور ساکھ رکھتے ہیں۔ شاندار انتظامی ڈھانچہ موجود ہے ۔ کسی کے وہ حریف نہیں، دوست ان کے بے شمار ہیں‘ دشمن ایک بھی نہیں۔ عالم اسلام ہی نہیں‘ مغربی اداروں پر مشتمل ایک ایسا گروپ تشکیل دے سکتے ہیں ، امداد کے سوا جو برما حکومت سے بات چیت کر سکے۔ غیرسیاسی ، تنے ہوئے رسّے پر وہی چل سکتے ہیں۔
کیا قاتلوں اور غنڈوں کو سزا ملنی چاہئے؟اس وقت یہ سوال غیر اہم ہے ۔ ایک تحقیقاتی مشن‘ جب تک معاملے کی نوعیت طے نہ کرے‘ قصاص اور اس کی نوعیت کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔پھر یہ کہ جزا و سزا کے لیے قوت درکار ہوتی ہے ۔
حالات کا حقیقت پسندی سے مطالعہ کرنے کے بعد‘ ترجیحات طے کی جاتی ہیں۔ جذبات کے ابال میں یہ ممکن نہیں۔اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد آگے بڑھنا چاہیے کہ عالم اسلام کے حاکموں میں سے ہر ایک‘ اپنی بنائی ہوئی دلدل میں پڑا ہے۔ عوامی دبائو سے احساس کی لو تیز کرکے ،روپیہ پیسہ ان سے حاصل کیا جا سکتا ہے، کردار ان کا بدلا نہیں جا سکتا۔ یہ ایک اور عمل ہے اور اس کے اپنے تقاضے ہیں۔
خوف ایک ہتھیار ہے‘ سلیقہ مندی کے ساتھ جو استعمال کرنا چاہیے۔ چیخ و پکار کا موٹی کھال رکھنے والوں پہ اثر نہیں ہوتا۔ طعنوں سے کام نہیں نکلتا۔ غالبؔ نے کہا تھا ع
تیرے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پہ مہرباں کیوں ہو؟
زیادہ خوف پھیلانے کے نتائج منفی ہوتے ہیں۔ خاص طور پر پتھر دلوں میں۔ آوارہ فکر حکمرانوں کے دل پتھر ہی کے ہوتے ہیں۔
بنیادی اصول اور بنیادی حکمت کو سمجھنے کی کوشش ہی‘ حصول علم کی غایت ہوا کرتی ہے۔ کتاب یہ کہتی ہے کہ علم ہی دارد ہے‘ وہی مشعل ہے اوروہی قندیل۔ تاریخ کا تجربہ بھی یہی ہے کہ یقین کے حامل وہی ہوتے ہیں، کامل ادراک تک جو پہنچ جائیں۔ حیات کی پراسرار شاہراہوں پہ یکایک نمودار ہونے والے بیابانوں اور جنگلوں میں راستے وہی تلاش کرسکتے ہیں۔ غم و الم کے ماروں کو نجات سے وہی ہم کنار کر سکتے ہیں۔ تحمل‘ صبر اور سچائی کے ساتھ‘ کتاب میں لکھا ہے۔ عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ اس ناچیز کی رائے میں یہ اٹوٹ مایوسی ہے‘ غلامی اور بے عملی کی صدیوں میں جو پروان چڑھی۔ شاعر ن۔ م راشد کی زبان میں‘ تارکول کی طرح جو دلوں اور دماغوں پہ جم گئی ہے۔
قنوطیت کے اس تارکول کو پگھلانے کی ضرورت ہے۔ فقط حسنِ خیال نہیں‘ حسنِ عمل ہی کے ذریعے‘ رفتہ رفتہ یہ ممکن ہے۔ وگرنہ وہی ماتم‘ وگرنہ وہی خود فریبی و خودشکنی۔ ابھی ابھی دانائے راز اقبالؔ کی آواز میں نے سنی۔ وہ گداز اور یقین میں گندھی آواز‘کبھی جس نے مسلم برصغیر کے آفاق پہ اجالا کیا تھا۔
یقیں پیدا کر اے ناداں یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری