مسئلہ ہمارا مزاج ہے۔ خود ترسی اور جذباتیت۔ انفرادی، لہٰذا اجتماعی بھی۔ اپنے تضادات اور جہل سے اوپر اٹھے بغیر نہ کبھی کوئی شخص سرخرو ہوا ہے، نہ کبھی کوئی معاشرہ... اور اس کا ایک ہی راستہ ہے، علم کی قندیل سے اپنے باطن میں تاریکیوں کی تلاش!
لاہور کے چرچ کو محترمہ مریم نواز کے خطاب سے لا تعلقی کا اعلان کرنا پڑا۔ نوآموز سیاسی رہنما کی وعدہ خلافی پر وہ ملول ہیں کہ اپنے لیے دعا کرانے آئیں لیکن پھر سیاست بگھار دی۔
یہ خود مسیحی ووٹروں کے احتجاج کا ثمر ہے ۔ نہ صرف متعلقہ بشپ بلکہ بین الاقوامی شخصیات سمیت ان اداروں سے بھی ، جو عبادت گاہوں کا نظام چلاتے ہیں۔ جن عیسائی ووٹروں کو صدمہ پہنچا تھا، انہوں نے تحریک چلائی اور ڈٹے رہے۔ نون لیگ نے ایسا کیوں کیا؟ مخالف کہیں گے، گھبراہٹ طاری ہے ۔ اس لیے کہ این اے 120 کو کھو دینے کا مطلب لاہور کھو دینا ہے... اور لاہور کو کھونے کا نتیجہ پورے پنجاب میں شکست و ریخت۔
یہ ہماری افتادِ طبع ہے۔ ہتھیلی پہ سرسوں اگانا چاہتے ہیں ۔ راتوں رات فیصلہ کن کامیابیوں کے خواہاں ۔ خوف ہماری رگ رگ میں ہے ۔ ہمہ وقت شکست کا اندیشہ ۔ خوف برباد کن چیز ہے ۔ عقلِ سلیم کو چاٹ جاتی ہے۔
ٹرمپ کے نام الوداعی خط میں ، صدر اوباما نے مشورہ دیا تھا کہ ہنگامی انداز کی بجائے ساری دنیا میں بکھرے امریکی مفادات کو ملحوظ رکھیں۔ ظاہر ہے کہ نصیحت پر عمل نہ کیا گیا۔ سب اپنے مزاج کے قیدی ہوتے ہیں ۔ اس وقت اور بھی جب منفی ہتھکنڈوں سے ظفریاب ہوں ۔ کامیابی گمراہ کن ہوتی ہے۔ اعتماد بڑھا کر کائنات میں کارفرما اصولوں کو نظر انداز کرنے پہ اکساتی ہے ۔ ناکامیابی اچھی ہے ، اگر اس سے آدمی سبق سیکھے۔
اندیشے بھی تباہ کن ہوتے ہیں، ناکامی کے بعد اگر پھوٹ پڑیں۔ ژولیدہ فکری کی اساس بن جاتے ہیں ۔ زندہ شخصیات، اعتدال کی روش اپنا کر، نمو پذیر رہتی ہیں، زندہ معاشرے بھی۔ ولولہ انگیزی آدمی کو سرشار کرتی اور قوتِ عمل بڑھاتی ہے۔ ہاں! زیادہ ہو جائے تو تجزیہ کرنے کی صلاحیت کند، آخر کار شکستوں کی بنیاد بنتی ہے۔
جنرل منٹگمری سے پوچھا گیا : تاریخ کے دو عظیم ترین جنرل کون ہیں ؟ کہا کہ دوسرا نپولین تھا۔ منٹگمری کیا، نپولین بھی عظیم ترین جنرلوں میں سے ایک نہیں تھا۔ ملٹری سائنس کے ماہرین کی نظر میں رومیل، منٹگمری سے بڑا تھا۔ نپولین کی خیرہ کن فتوحات کا سبب یہ بھی تھا کہ تب کا یورپ کمزور اور منتشر تھا۔ اپنی سحر انگیز شخصیت اور حیرت انگیز یادداشت کے ساتھ ، فوج کو اس نے اپنا دیوانہ بنا لیا۔ اہلِ فرانس ہی نہیں ، اپنی محبوبہ سے بھی وہ اپنی عبادت کا آرزو مند تھا۔ خیر خواہوں نے ٹوکا مگر خود اپنے ہاتھوں شکست کھا گیا۔ واٹر لو میں کھیت نہ رہتا، اگر روس کے برف زار میں فرانسیسی ہیبت کو جھونک نہ دیا ہوتا۔ مہینوں تک جاری رہنے والی پسپائی کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔ 1971ء کی شکست بھلانے کے لیے پاک فوج کو افغانستان درکار تھا، جہاں سوویت یونین کی کمر اس نے توڑ دی۔ اسی شوکت میں دو بڑی غلطیاں سرزد ہوئیں۔ مذہبی لشکروں کی سرپرستی اور کارگل۔ کارگل میں ہم فتح کے علم لہراتے۔ عالمی حالات مگر سازگار نہ تھے۔ افغانستان میں 122 اقوام ہماری پشت پر کھڑی تھیں۔ کارگل پہ، دنیا ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپنے کو تیار ۔ معاشی طور پر دست نگر ہونا خطرناک ہوتا ہے۔
برما کے خلاف اعلانِ جہاد کا مطالبہ کرنے والے ہیرو اس نکتے کا ادراک نہیں کرتے ۔ وہ تو خیر نقشہ دیکھنے کے روادار بھی نہیں کہ اراکان کی راہ میں مودی اور حسینہ واجد پڑتے ہیں۔ دل دکھتا ہے۔ ان کا زیادہ، جو اللہ کو اپنا رب مانتے اور رحمۃ للعالمینؐ سے محبت کرتے ہیں۔ ہاں مگر سرکارؐ کے طرزِ عمل پہ اکثر نے شاید غور ہی نہیں کیا۔
مدینہ میں آپؐ نے حکومت بنائی ۔ ایسی شرائط پر جو باہم متحارب اوس اور خزرج قبائل ہی نہیں ، لگ بھگ اتنی ہی تعداد کے یہودیوں اور گنتی کے مسیحی باشندوں کو بھی قبول ہوں ۔ اوّل روز سے ایسی بے ریا اخلاقی برتری کا مظاہرہ کیا کہ عدل گستری اور عہد کی پاسداری کا سکّہ بیٹھ گیا۔ اس سے بھی پہلے ، ان سب لوگوں کے لیے رزق کا اہتمام، مکّہ میں اپنے وسائل اور جائیدادیں جو چھوڑ آئے تھے ۔ حکومت جم چکی تو آپؐ شمال کو گئے۔ کمزور قبائل کو دفاعی معاہدے کی پیشکش کی ، اندیشوں میں جو حیات کرتے تھے۔ پھر جنوب کو نکلے ، جو زیادہ ضروری تھا کہ دشمن اسی سمت مکّہ میں آباد تھا۔ مشرق اور مغرب کے قبائل سے بھی سمجھوتے کیے۔ پوری آبادی کو جنگ کی تربیت دی۔ سخت جانی کی حوصلہ افزائی فرماتے ، خصوصاً تیز دوڑنے کی۔ مقابلے منعقد کراتے ، گھڑ دوڑ کے بھی۔ ایک اونچے ٹیلے پر تشریف فرما ہوتے اور پانچ بہترین شہسواروں کو انعام عطا کرتے ۔ نشانہ بازی کی مشق کرایا کرتے۔ ایک ارشاد کا خلاصہ یہ ہے: جنگی مہارت کی اصل نشانہ بازی ہے ۔ اسی ہنگام تعلیم و تربیت پہ بہت توجہ مرکوز رکھتے کہ علم سے جِلا پانے والے ذہن یکسو ہوتے ہیں۔ ایثار کو عربوں کا شعار بنا دیا ۔ نظم و نسق سختی سے قائم کیا۔ امن کو یقینی بنایا کہ جرم کرنے والا خوف زدہ رہے ۔ محبت سے خلق کے دل جیتے؛ حتیٰ کہ اہلِ مکہ کے بھی۔ نجد کا سردار ثمامہ بن اثال گرفتار ہوا۔ خود اس نے کہا تھا کہ وہ ''خون والا‘‘ ہے یعنی قتل کا مستحق۔ فدیہ تک نہ لیا اور فرمایا ''میں تمہیں رہا کرتا ہوں‘‘۔ خشک سالی نے جزیرہ نمائے عرب کو ویران کر دیا تھا ۔ صرف نجد بچا تھا۔ مسلمان ہو جانے والے سردار نے کہا: مکہ کو گندم کا ایک دانہ بھی نہ دوں گا۔ قریش نے التجا کی تو سفارش فرمائی۔ سونے کی 500 اشرفیوں کا عطیہ بھی عنایت فرمایا۔
اس کے باوجود احتیاط کا عالم یہ تھا کہ جنگ کے لیے بھی نکلتے تو اصحابِ کبارؓ کو بھی منزل بتائی نہ جاتی ۔ آپؐ پہ جان چھڑکتے تھے۔ جنگ مگر رازداری چاہتی ہے ۔ مدینہ میں جنگی تیاریوں کا معیار حجاز اور یمن کیا ، ایران اور روم سے بھی بہتر تھا۔ ظاہر ہے کہ معیشت سو فیصد آزاد تھی ۔ مسلمان تساہل پسند تھے اور نہ عیش پرست۔ روزمرہ خور و نوش میں بھی اس قدر محتاط کہ غیر ملکی طبیب مریضوں کو ترستا رہا۔ اکثر لوگ بھوک سے کچھ لقمے کم کھاتے۔ رسولِ اکرمؐ ہر روز شہد کا ایک چمچ نوش فرماتے ۔ ظاہر ہے کہ بہت سے اہلِ ایمان بھی۔ زیتوں کا تیل برتتے ، کھجور ، جو ، بکری اور اونٹنی کا دودھ۔ مستقلاً گندم کی روٹی کھانے والے کو عرب ''عیاش‘‘ کہا کرتے۔
محمد بن قاسم سپر پاور کے نمائندہ تھے اور جہاندیدہ لشکر کے امین۔ صلاح الدین ایوبی کی پشت پہ پوری امت تھی ۔ اس کے باوجود برسوںجنگ بندی انہوں نے قبول کی؛ حتیٰ کہ رچرڈ کے بھائی کی طرف سے مدینہ منورہ پر حملے کی کوشش کے باوجود؛ حتیٰ کہ کرک کے بھیڑیے ریجنالڈ کے ساتھ ، جسے مغربی مورخ بھی ''پاگل کتا‘‘ کہتے ہیں ۔ جنگ میں ایک قوم اترتی ہے تو فقط عزم ہی نہیں ، منصوبہ بندی ، اسلحہ اور ہم آہنگی کے ساتھ۔ ترجیحاً اپنے طے کردہ وقت پر۔ حسینہ واجد کے ہمسائے پر حملہ نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی دبائو سے اسے زچ کیا جانا چاہیے ۔ روہنگیا مسلمانوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ روپیہ انشاء اللہ رکاوٹ نہ بنے گا ۔
مسئلہ ہمارا مزاج ہے ۔ خود ترسی اور جذباتیت ۔ انفرادی، لہٰذا اجتماعی بھی۔ اپنے تضادات اور جہل سے اوپر اٹھے بغیر نہ کبھی کوئی شخص سرخرو ہوا ہے، نہ کبھی کوئی معاشرہ... اور اس کا ایک ہی راستہ ہے ، علم کی قندیل سے اپنے باطن میں تاریکیوں کی تلاش!