آج کا سانحہ نہیں‘ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے۔ دو سو برس ہوتے ہیں‘ دلّی میں پکار کر کسی نے کہا تھا۔
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
دھاندلی فقط یہ نہیں کہ اسد کا ووٹ شہباز ڈال دے۔ یہ کیا دھاندلی نہیں کہ دس ہزار نوکریاں بانٹ دی جائیں؟ کیا یہ فراڈ نہیں کہ مختلف علاقوں کے ہزاروں ووٹ ، کسی دوسرے حلقے میں منتقل کر دیئے جائیں۔
قومی اسمبلی کے سپیکر جناب ایاز صادق کے حلقۂِ انتخاب میں یہ واقعہ رونما ہو چکا۔ الزام ثابت بھی ہو چکا۔ اس کے باوجود وہ قومی اسمبلی کے ممبر ہی نہیں بلکہ اپنے منصب پر براجمان بھی ہیں۔ ایسا عہدہ‘ بعض اعتبار سے جو وزیر اعظم کے بعد سب سے زیادہ اہم ہے ۔
وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد‘ نون لیگ کے وکیلوں کا دعویٰ یہ تھا کہ عوامی عدالت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیا ۔ اوّل تو عوامی عدالت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ یہ اشتراکی تحریکوں کا دیا ہوا نعرہ ہے‘ جو پست و پامال ہو چکیں۔ اب صرف ان کے نوحہ گر باقی ہیں۔ جج فقط وہ ہوتے ہیں ‘ جو دستور اور قانون کے تحت مقرر کیے جائیں۔ عام لوگ عدالت نہیں ہوتے۔ یہ پرکھنے والے ماہرین کا کام ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر تشریف لے گئے۔ واپس آئے تو اللہ کی بجائے ‘ اپنی قوم کو انہوں نے سونے کے بچھڑے کی عبادت کرتے پایا۔ بالکل اسی طرح ‘ جیسے بھارت میں گائے کی پوجا کی جاتی ہے۔ وہ حیرت زدہ رہ گئے اور برہم ۔ اس قدر ناراض کہ اپنے بھائی ہارون کی داڑھی پکڑ لی ۔ بھائی نے کہا: مجھ سے کیوں آپ ناراض ہوتے ہیں‘ میں نے تو انہیں بتا دیا تھا‘ سمجھا دیا تھا۔ وہ مگر سامری جادوگر کے سحر میں تھے۔
جمہوریت ہمیشہ عوامی امنگوں اور عوامی مفادات کا نام نہیں ہوتی۔ ہمیشہ شعور کا مظہر بھی نہیں۔ کبھی کبھی وہ سامری کے سامنے سجدہ ریز ہو جایا کرتی ہے۔ ایسے میں اگر الیکشن منعقد ہوں تو پورا امکان ہوتا ہے کہ جادوگر اکثریت کی حمایت حاصل کر لے۔
سامنے کی بات ہے کہ لوگ کبھی ایک پارٹی کو چنتے ہیں ‘ کبھی دوسری کو ۔ کبھی ایک لیڈر کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں‘ کبھی دوسرے کو۔ چالیس برس تک مصطفیٰ کھر ‘ مظفر گڑھ سے ظفر یاب ہوتے رہے۔ ہرانے کا کوئی تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔ پھر جمشید دستی کے مقابلے میں وہ کھڑے ہوئے اور فقط سات ہزار ووٹ ہی لے سکے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ چار عشرے تک، لوگ ایک ناموزوں آدمی کی تائید کرتے رہے ؟ یا یہ کہ اب انہوں نے غلط گھوڑے پر دائو لگایا؟۔ غور کیا جائے تو بات سمجھ میں آ سکتی ہے۔ مصطفیٰ کھر ایک شعبدہ باز تھے۔ محروموں ، مفلسوں اور محتاجوں کے‘ افتادگان خاک کے جذبات بھڑکایا کرتے۔ جمشید دستی، ان سے بڑا شعبدہ باز ہے۔ وہ صرف تقریر نہیں کرتا۔ اپنے ووٹروں کے جوتے بھی پالش کرتا ہے۔ اب کی بار بھی مصطفیٰ کھر‘ دستی کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ‘ اس مرتبہ سات ہزار ووٹ بھی وہ حاصل نہ کر سکیں۔ ایک احمق بھی، اپنی تائید اور توانائی ضائع نہیںکرتا۔
جمہوریت کے جو لوگ مخالف ہیں، اسے جو ایک ناقص طرز حکومت سمجھتے ہیں ، وہ سامری جادوگر کے واقعہ سے استنباط کرتے ہیں۔ وہ رسول اکرمؐ کے قولِ مبارک کا حوالہ دے سکتے ہیں : لوگ کیا ہیں ؟ اونٹوں جیسے‘ سو میں سے ایک بھی سواری کے قابل نہیں۔
اونٹ کو سواری کے قابل بنایا گیا اور خلق کی تربیت کی گئی۔ صحرا میں اونٹ کے سوا کوئی سواری کارگر نہیں تھی ۔ لوگوںکو سکھانے‘ پڑھانے کے سوا چارہ بھی کیا ہے؟۔
ہرچند آزادی کے معانی ابھی سمجھتے نہیں‘ ہر چند اس کی قدروقیمت سے واقف ہیں اور نہ اس کے تقاضوں کا ادراک کرنے والے۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ عام آدمی آزاد ہو چکا۔ جن کی طرح‘ بوتل میں جو واپس نہیں دھکیلا جا سکتا۔ مخلوق خدا‘ ایک بار آزادی کا مزہ چکھ لے تو اس سے محرومی کبھی گوارا نہیں کرتی۔ ہمارے سامنے‘ اب ہی راستہ کھلا ہے اور وہ سلطانیِٔ جمہور کا ہے۔
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے
پون صدی پہلے‘ اقبالؔ نے جب یہ بات کہی تو کتنے لوگ سمجھ پائے ہوں گے؟ مفکر جانتا تھا۔ اس لئے آخری برسوں میں پورے یقین سے وہ کہتا رہا کہ پاکستان بن کے رہے گا۔ فلسفی اس کے باوجود پر اعتماد تھا کہ قراردادِ پاکستان کا تصور تک ابھی پیش نہ کیا گیا تھا۔ جمہوریت کا انحصار ووٹر پر ہوتا ہے۔ ووٹر سے مگر رہنمائی طلب نہیں کی جاتی۔ وہ خود رہنمائی کا محتاج ہوتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت ''آج‘‘ میں زندہ ہوتی ہے۔ آج بھی کہاں‘ گزرے ہوئے کل میں۔ جنت سے نکالا گیا آدمی‘ ماضی پرست ہے۔ اس کی تشکیل ہی ایسی ہے کہ بیتے ہوئے ایّام کی یادوں میں مگن رہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ وہ زیادہ علم‘ زیادہ عزت اور زیادہ وسائل پا سکتا ہے۔ اکثر پا بھی لیتا ہے۔ کوئی مگر یہ نہیں کہتا کہ اس کا آج‘ گزرے ہوئے کل سے بہتر ہے۔ ان دنوں سے آدمی ڈرتا ہے‘ جو ابھی طلوع ہونے ہیں۔ یہ نامعلوم کا خوف ہے۔ بہشت بریں سے کرّۂِ خاک پر بھیج دیا گیا۔ یہاں جنگل تھے اور ان میں خوں آشام درندے‘ جن سے بچ کر اسے پیٹ بھرنا تھا‘ جن کے ساتھ جینا تھا۔ راتوں کی تاریکی‘ تاریکی میں سرسراتی آوازیں اور ان آوازوں میں بھرے ہوئے اندیشے۔ زندگی خوف ہی خوف تھی۔ آدمی کے لاشعور میں وہ ایّام زندہ ہیں۔ اولیا کے سوا کسی کو ان سے نجات نہیں۔ وہی اولیا‘ جاہل مولوی جنہیں کافر کہتا ہے‘ کافر نہیں تو اجنبی۔
آنے والے کل سے ڈرا ہوا آدمی‘ اس چھوٹی سی صداقت کا اعتراف ہرگز نہیں کرے گا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد جیت چکی ہیں۔ محترمہ کلثوم نواز ہار گئی ہیں۔ فرض کیجئے‘ صوبائی اور مرکزی حکومت کی مدد سے‘ کروڑوں روپے لٹا کر‘ تین ہزار ووٹوں سے وہ جیت بھی جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پھر بھی 36 ہزار ووٹوں سے ہار گئی ہیں۔ اس لئے کہ پچھلی بار برتری 39 ہزار کی تھی۔
لوگ اکتا جاتے ہیں۔ لوگ اکتا چکے تھے۔ یہ آدمی کی فطرت ہے اور بدل نہیں سکتی۔ دنیا ٹی وی کے پروگرام ''تھنک ٹینک‘‘ میں‘ نون لیگ کے موقف کو مسترد کرنے والے عام لوگوں کا تناسب 65 سے 82 فیصد رہتا ہے۔ خال ہی اس میں استثنیٰ پیدا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس وقت جب اتفاق سے شریف خاندان کا موقف درست ہو۔ بر سبیل تذکرہ‘ اس موضوع پر کمال کا ایک فقرہ‘ کبھی شہباز شریف نے کہا تھا۔ حسِّ مزاح ان کی اچھی ہے‘ البتہ بادشاہت کے جلال تلے سسکتی رہتی ہے۔ وہ جملہ یہ ہے:
"For a change, this time we are not at fault"
فارسی کا محاورہ یہ ہے: سگ باش برادرِ خورد مباش۔ چھوٹے بھائی کو بہرحال کمتر جانا جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی سے کہیں زیادہ عملی آدمی ہیں۔ انہوں نے ادراک کر لیا ہے۔ یہ ادراک ان کے دوست چوہدری نثار علی خان کے کلام بلاغت نظام میں ظاہر ہوتا ہے۔ زمانہ بدل گیا ہے اور بعض کو خبر ہی نہ ہوئی۔
آج کا سانحہ نہیں‘ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے۔ دو سو برس ہوتے ہیں‘ دلّی میں پکار کر کسی نے کہا تھا۔
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
پس تحریر: قائدِ اعظم ثانی‘ میاں محمد نواز شریف مدظلہ العالی‘ برما کے مجروح مسلمانوں کے ذکر سے گریزاں کیوں ہیں؟ کیا کوئی اس سوال کا جواب دے گا؟