عجب لوگ اورا س سے بھی زیادہ عجب تر یہ بات کہ اس کاروبار کو وہ جمہوریت کہتے ہیں ۔ ع
شرم تم کو مگر نہیں آتی
لاہور کے دروبام پہ شام کے سائے اترنے والے ہیں۔ ابھی کچھ دیر میں سیرگاہیں آباد ہونے لگیں گی۔ حسنِ خیال کو حسنِ عمل سمجھنے والے ریستورانوں کا رخ کریں گے۔ سینکڑوں برس سے آباد چلی آتی محفلوں میں شگوفے کھلیں گے ‘چراغ جلیں گے۔ ابھی ابھی دنیا ٹی وی کے نیوز روم سے نکل کر آیا ہوں۔ بحث یہ تھی کہ این اے 120 میں پولنگ کی شرح اتنی کم کیوں ہے۔ بار بار وہی ایک جملہ کہ چھٹی والے دن لاہوریے‘ تاخیر سے جاگتے ہیں۔ پھر لذتِ کام ودہن میں مبتلاہو جاتے ہیں ۔ ہمیشہ سے یہی ان کا مشغلہ ہے۔ درجنوں نہیں‘ شاید سینکڑوں بار یہ بات کہی گئی تو پوچھا کہ لاہور والے ناشتے میں کیا افیون کھایا کرتے ہیں؟۔
تاریخ کے چوراہے پر سوئی پڑی ایک قوم‘ جس نے اپنا آج اور کل لیڈروں کے حوالے کر دیا ہے۔ حضرت عمران خان اور محترمہ مریم نواز صاحبہ کی رائے سے تو اتفاق نہیں کہ یہ انتخاب‘ ملک کے مستقبل کا فیصلہ کر دے گا‘ باایں ہمہ‘ یہ ایسا غیر اہم بھی نہیں۔ شام تین بجے تک اگر ووٹروں کی شرح پندرہ فیصد سے زیادہ نہ ہو سکی تو یہ المناک ہے بلکہ شرمناک ۔ غور کرنے والوں کو اس پہ غور کرنا چاہئے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خلق اپنے لیڈروں سے بیزار ہے؟ ۔اس نابکار سیاست ہی سے؟
ابھی کچھ دیر پہلے‘ محترمہ مریم نواز نے‘ کسی کا جاری کردہ پیغام اپنا کر خلقِ خدا تک پہنچایا: نون لیگ کے حامی پی ٹی آئی کے ووٹر بن کر‘ ان کے کیمپ سے پرچی حاصل کرتے ہیں۔ ایک ارب پتی خاندان سے تعلق رکھنے والی نون لیگ کی ایم پی اے حنا بٹ نے ارشاد کیا کہ ان کے حامیوں کو ووٹ ڈالنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ لاحول ولاقوۃ۔ غلط بیانی کی کوئی آخری حد بھی ہوتی ہے۔ یہ تشہیر اور پروپیگنڈے کا مقابلہ ہے یا کذب بیانی کا؟
چھ ہفتے تک مریم نواز یہ بتاتی رہیں کہ ایک طوفان اٹھے گا اور عدلیہ سمیت شریف خاندان کے سب مخالفین کو بہا لے جائے گا۔اب اچانک کیا ہوا؟۔ نون لیگ کے ووٹر خوف زدہ ہو کر تحریک انصاف کے کیمپوں میںکیوں جا چھپے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہر گز نہیں۔ مافیا تو نون لیگ کو کہا گیا۔ گلوبٹ تو اس میں پائے جاتے ہیں۔ پنجاب اور مرکز میں حکومت تو ان کی ہے۔ پولنگ سٹیشنوں کا عملہ انہی کی منظوری سے مقرر ہوا ۔ شکایت تو ان سے ہے کہ گوگی بٹ قسم کے ''رہنمائوں‘‘ نے سینکڑوں اور ہزاروں کے شناختی کارڈ جمع کرنے کی کوشش کی۔ فرشتے تحریک انصاف والے بھی نہیں۔ جہاں کہیں موقعہ ملے‘ کرشمہ کر دکھانے کی کوشش کریں گے۔ مگر دھاندلی کا تیس سالہ تجربہ نون لیگ رکھتی ہے... تو کیا آخری مرحلے پر شکست کے اندیشے نے آ لیا؟۔ حفظِ ماتقدم کے طور پرواویلا شروع کر دیا گیا؟۔
محترمہ حنا بٹ کو‘ صبح ناچیز نے خود کہتے سنا کہ فلاں پولنگ سٹیشن پر نون لیگ کے 140 حامیوں نے ووٹ ڈالے۔ملّی مسلم لیگ کے 40تھے اور تحریک انصاف کے صرف بارہ ووٹر نمودار ہوئے۔ تین چار گھنٹے میں ایسا کیا ہوا کہ سرکاری پارٹی کے لوگ اتنے پست ہو گئے‘ اس قدر شکست خوردہ؟۔ خدانخواستہ شہباز شریف حکومت چھوڑ کر بھاگ گئے یا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بغاوت کر دی؟۔
پیپلز پارٹی کے فیصل میر نے صبح ساڑھے نو بجے ہی چیخ و پکار شروع کردی کہ بیلٹ باکس ووٹوں سے بھر دئیے گئے ہیں۔ تعداد بھی انہوں نے بتا دی۔ انتیس ہزار ووٹ نون لیگ کی حمایت میں ڈال دئیے گئے ہیں۔ بار بار انہوں نے کہا: الیکشن کمیشن کو نواز شریف نے خرید لیا ہے۔ موصوف بھول ہی گئے کہ بیلٹ باکس فوجی جوان لے کر آئے ہیں۔ پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتیںبار بار جن پر اعتماد کا اظہار کرتی رہیں۔ سینکڑوں جعلی ووٹ ہر ڈبے میں اگر ٹھونس دئیے گئے ہیں تو اپوزیشن کی دوسری پارٹیوںنے واویلا کیوں نہ کیا؟۔ تحریک انصاف کیوں چپ رہی‘ خاموشی جس کی سرشت ہی میں نہیں۔ سوشل میڈیا پر‘ جس کے دلاوروں نے صبح سویرے سے شیر کو میمنا سا بنا رکھا تھا۔
کچھ دیر میں قمر زمان کائرہ ٹی وی پر نمودار ہوئے۔ صاف صاف انہوں نے کہا کہ الیکشن کا ماحول قابل اعتماد ہے۔ شکایت اگر کسی کو تھی تو پولنگ سے قبل دھاندلی کی۔ 29 ہزار غیر تصدیق شدہ ووٹ اور ایسا الیکشن کمیشن جو اقدام نہیں صرف روں روں کرتا ہے۔ رانا مشہود مسلّح غنڈوں سمیت درّاتے پھرتے رہے‘ کوئی معترض نہ ہوا۔ مختلف پارٹیوں کے ارکان اسمبلی بھی۔ قانون نام کی اگر کوئی چیز ہوتی‘ رانا مشہود کو حلقے میں داخل ہونے کی جرأت ہی نہ ہوتی۔ خود اپنی پارٹی کیلئے بدنامی کا وہ باعث ہے۔ خیر‘ قانون اور ضمیر سے زیادہ یہ ذوق کی بات ہے کہ رانا مشہودوں کو گوارا کیا جائے۔
الیکشن کمیشن نے اب تک ایک ہی قابل ذکر کارنامہ انجام دیا ہے کہ توہین عدالت کے ملزم عمران خان کو گرفتار کرنے کی دھمکی دی ہے۔ نون لیگ کے قانونی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ نااہل قرار دئیے جا سکتے ہیں۔ ان میں وہ صاحب بھی شامل ہیں‘ جن کے بارے میں میاں محمد نواز شریف نے‘ میرے ایک دوست سے کہا کہ لاہور میں ایک قیمتی پلاٹ انہیں بخش دیا۔ ان کے صاحبزادے کو مشیر کے منصب پر فائز کر دیا۔ اس کے باوجود ان کا کشکول دراز ہے۔ اپنے ایسے ہی ایک مشیر کے بارے میں‘ قاضی حسین احمد مرحوم سے قائداعظم ثانی نے کہا تھا: اس کے منہ میں جب تک لقمہ ڈالتے رہو‘ شاد رہتا ہے‘ ورنہ بگڑ جاتا ہے۔
یہ ہیں ہمارے لیڈر اور یہ ہیں ان کے مشیر۔ یہ ہے ہماری جمہوریت اور وہ دیوتا‘ قوم سے جن کا مطالبہ یہ ہے کہ اطاعت ہی نہیں‘ ان کی عبادت کرے۔ عدالت اگر ان کے خلاف فیصلہ صادر کرے تو اسے اٹھا پھینکا جائے۔ مسلح افواج سے اگر جھوٹی شکایت بھی ہو توا سے بدنام اور رسوا کیا جائے۔ ایک آدھ نہیں‘ بعض اعتبار سے تمام سیاسی پارٹیوں کا حال یہی ہے۔
سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
سب کے تو گریباں سی ڈالے‘ اپنا ہی گریباں سی نہ سکے
بحیثیت مجموعی اتوار کو پولنگ‘ خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ اس کے باوجود پھل جھڑیاں چھوڑنے کا مطلب کیا ہے؟۔ اس سے بھی مضحکہ خیز یہ کہ ایک ضمنی الیکشن کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر ریفرنڈم قرار دیا جائے۔ کلثوم نواز اگر جیت جائیں تو کیسے یہ ثابت ہوگا کہ عدالت عظمیٰ کے معزز اور محترم جج قانون کے تقاضے سمجھ نہ سکے۔ عمران خان کی پارٹی اگر کامران ہو تو اس کا مطلب یہ کیسے ہوا کہ عدالت کے فیصلے پر مختلف رائے دی نہیں جا سکتی۔ اس قدر ذہنی افلاس!
اور جناب احسن اقبال مدظلہ العالی۔ فرمایا: ایک عدالتی شخصیت نے نیب کو مجبور کر دیا کہ حدیبیہ پیپر ملز کا مقدمہ پھر سے کھول دیا جائے۔ ارے بھائی‘ یہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا نتیجہ ہے۔ اسحاق ڈار کا حلفیہ بیان اگر درست ہے۔ اگر اپنی آزاد مرضی سے دیا اور غالب رائے یہی ہے...تو شریف خاندان کالا دھن سفید کرنے کا مرتکب ہوا۔ اگر نہیں تو اسحاق ڈار ملزم ہیں۔ ان پہ جو الزام ہے‘ اس کا انہیں جواب دینا ہے۔ مزید یہ کہ شریف خاندان سے متعلق مقدمات کی نگرانی‘ اسی شخصیت کی ذمہ داری ہے۔ اس باب میں اگرکوئی استفسار انہوں نے کیا تو حدود سے تجاوز کیسے ہوا۔ تجاوز تب ہوتا ہے جب کوئی وزیر اشتہاری غنڈے پالے۔ ان کے بل پر انتخابی مہم چلائے۔ جب ووٹ خریدنے کیلئے لیپ ٹاپ بانٹے جائیں۔ جب لارنس گارڈن میں پانچ ایکڑ زمین پر قبضہ کرنے اور باغبانی کا کوئی نام نہاد ادارہ قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔
عجب لوگ اورا س سے بھی زیادہ عجب تر یہ بات کہ اس کاروبار کو وہ جمہوریت کہتے ہیں۔ ع
شرم تم کو مگر نہیں آتی