شریف خاندان کا ماتم بہت ہو چکا‘ گریہ و زاری سے کیا حاصل؟ ملک کو اب اپنے مستقبل کی فکر ہونی چاہیے۔
حاجی محمد اسلم ایک عجیب و غریب آدمی ہیں۔ فیض احمد فیض کو انہوں نے لکھا تھا کہ آپ کمیونسٹ کیوں ہیں۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ کمیونسٹ پارٹی کے وہ ممبر ہی نہیں۔ اسی طرح کے خطوط لنڈن بی جانسن اور برزنیف کو بھی۔ ان کی شاہکار تحریر ‘ مگر لارڈ مائونٹ بیٹن کے نام ہے‘ جب وہ گلاسکو کے مکین تھے: قیامت کے دن تم سے پوچھا جائے گا کہ لاکھوں انسانوں کے قتل کی ذمہ داری تم پر ہے۔ گھبرا کر فوراً ہی انہوں نے جواب لکھا اور وضاحت کی۔ اس خط کی تفصیل ان کی کتاب ''لدھیانہ کے مسلمانوں کا قتلِ عام ‘‘میں رقم ہے۔ عالمی لیڈروں کی رہنمائی کا یہ سلسلہ تب تمام ہوا‘ جب برطانوی انٹیلی جنس نے ان کی نگرانی شروع کی۔ حاجی اسلم کے لطائف ان گنت اور بے شمار ہیں۔ مثلاً صدر غلام اسحٰق سے ملنے گئے اور ان کے ساتھ تصویر بنوائی تو کہا: بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔ ایک مفصل خاکہ ان موصوف کا لکھا جا سکتا ہے لیکن یہ پھر کبھی۔ ہنسنے کے محل پر تو لوگ ہنستے ہی ہیں مگرحاجی صاحب کو قہقہہ برسانے کے لئے کسی جواز کی ضرورت نہیں ہوتی۔
بدھ کو ٹیکسٹائل انڈسٹری کی حالت زار پہ بات کرنے کے لئے میں فیصل آباد پہنچا۔ اسلم ٹیکسٹائل ملز جڑانوالہ اور احمد دین ٹیکسٹائل ملز کے وہ کرتا دھرتا ہیں۔ ان کارخانوں کو زندہ رکھنے کے لئے 6 کروڑ روپے مالیت کا ایک مکان وہ فروخت کر چکے ہیں۔ نو دس کروڑ کانقد نقصان اس کے سوا۔ ضد کے پکے ہیں اچھے دنوں کے انتظار میں جی رہے ہیں‘ قہقہہ مار زندگی۔
پاکستان کی، گزشتہ چار برس کے دوران، برآمدات 25 ارب ڈالر سے کم ہو کر 20.4 بلین ڈالر رہ گئی ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ کبھی 90 فیصد ہوا کرتا تھا۔ گھٹتے گھٹتے اب تیس چالیس فیصد رہ گیا ہے۔ باقی ماندہ بھارت‘ بنگلہ دیش اور ویت نام لے گئے۔
جو کچھ میں اخذ کر پایا‘ وہ یہ ہے کہ نوازشریف وزارتِ عظمیٰ کے منصب پہ برقرار رہتے اور اسحٰق ڈار ہی فیصلہ ساز ہوتے تو پارچہ بافی کی صنعت گھٹ کے مر جاتی۔ جنوری 2017ء میں 180 ارب روپے کے پیکیج کا وزیراعظم نے اعلان کیا تھا‘ اسحٰق ڈار کی مزاحمت کے باوجود۔ 2016ء میں آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے گروپ لیڈر گوہر اعجاز‘ وزیراعظم کے ساتھ تاجکستان کے دورے پہ گئے۔ انہوں نے فریاد اور چیخ وپکار کی تو میاں صاحب کا دل پسیجا اور مدد کا اعلان کیا۔ مگر اسحٰق ڈار نے اس پر عمل ہونے نہ دیا۔ دھاگے‘ ان دھلے پارچات اور کپڑے کی برآمد پر دو سے 6 فیصد زرتلافی (Rebate) کا وزیراعظم نے اعلان کیا۔ صرف چھ ماہ تک ہی عمل درآمد ہو سکا۔ پھر اسحٰق ڈار پتھر کی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔ ایسی دیوار‘ جس میں کوئی در نہیں ہوتا اور جس سے صرف سر ہی ٹکرایا جا سکتا ہے۔ اس سے بڑا ستم یہ کہ صنعت ِپارچہ بافی کے لگ بھگ 250 ارب روپے‘ ایف بی آر کے پاس پڑے ہیں‘ کل سرمایے کا چالیس سے پچاس فیصد۔ اس سرمایے کے بغیر اپنی کاروباری سرگرمیاں وہ کیونکر جاری رکھیں۔ ٹیکسٹائل‘ پاکستانی برآمدات کا 65 فیصد سے زیادہ ہے۔ وہی اگر نڈھال اور بے بس ہو تو انجام معلوم‘ پاکستانی معیشت کا گلا گھونٹنے کے لیے اس سے بہتر نسخہ کوئی نہیں۔ ڈاکٹر شعیب سڈل ٹیکس کے وفاقی محتسب تھے تو ایک سے تین ماہ کے دوران یہ رقم واپس کردی جاتی۔ ٹیکس کے ضمن میں جو وصول کی جاتی ہے ‘ مگر ہوتی قابل واپسی ہے۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ساتھ اسحٰق ڈار کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار تھے۔ اس موضوع پر کوئی تحقیق کرے تو شاید ہوشربا انکشافات ہوں۔ نومبر2013ء میں اپٹما کا ایک وفد لاہور کے گورنر ہائوس میں آنجناب سے ملنے گیا‘ مطالبات پیش کئے تو چھوٹتے ہی انہوں نے کہا: جن قیمتی گاڑیوں میں تم لوگ آئے ہو‘ وہ میں نے دیکھی ہیں... اور تمہارے لباس کتنے قیمتی ہیں‘ یہ بھی دیکھ رہا ہوں۔ کسی رعایت کے تم لوگ مستحق نہیں۔ اس کے بعد گوہر اعجاز نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی کہ کسی وزیر سے ملنے جائو تو سادہ لباس پہنا کرو۔
فریاد کناں یہ لوگ کبھی‘ تجارت کے وفاقی وزیر خرم دستگیر کے پاس پہنچتے تو وہ مجبور صنعتکاروں سے بڑھ کر روتے پیٹتے۔ ''وہ میری سنتا ہی نہیں‘ مجھے وقت ہی نہیں دیتا‘‘۔ کاروباریوں کا جی چاہتا کہ اس کے سر پہ ہاتھ پھیریں‘ اس کی دلجوئی کریں۔ پھر رازداری کے ساتھ پوچھیں: حال اگر یہ ہے تو آپ اس وزارت سے چمٹے کیوں بیٹھے ہیں۔
اچھی خبر یہ ہے کہ سحر سے شام تک وزیراعظم ہائوس میں پڑے فائلوں کے انبار پڑھنے اور ہر کسی سے ملنے والے شاہد خاقان عباسی نے اقدام کا ارادہ کرلیا ہے۔ جلد ہی فیصلے کی امید ہے۔ دوچار دن میں شاید کوئی اعلان سامنے آئے۔
پاکستانی صنعت کے لیے بجلی اور گیس کے نرخ سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ 10.63 روپے بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت ہے۔ گیس ایک ہزار روپے فی یونٹ MMBTU۔ ویت نام‘ بنگلہ دیش اور بھارت میں بجلی 7 روپے اور گیس 200 سے 400 روپے تک۔ عالمی منڈی میں ملک کیسے مقابلہ کرے۔ صورت حال سے فائدہ اٹھا کر بھارت نے افغانستان اور دبئی کے ذریعے سمگلنگ کا بازار گرم کردیا ہے۔ بنگلہ دیش کی برآمدات پاکستان سے 15 ارب ڈالر زیادہ ہیں۔ میمن سنگھ ڈھاکہ روڈ پر پلازوں کی تعداد دو تین سے بڑھ کر ایک ہزار ہو چکی۔ اسحٰق ڈار سے اپٹما کے وفد نے یہ کہا کہ برآمدات کی بربادی‘ معیشت کی بربادی ہے۔ ان کا جواب یہ تھا: ایک فیصد شرح سود پر‘ دنیا بھر میں سرمایہ دستیاب ہے۔ معلوم نہیں کون سی منحوس گھڑی تھی کہ میاں محمد شریف مرحوم کو ڈار صاحب خوش آئے۔ میاں محمد نوازشریف کے اندازِ فکر میں معلوم نہیں کیا خرابی ہے کہ سب کچھ انہوں نے اس شخص کو سونپ دیا۔ دل نہیں ‘ جس کے سینے میں شائد ایک پتھر دھرا ہے۔ ایک بار تو یہ بھی ہوا کہ شہبازشریف اپٹما کا وفد اپنے ساتھ لے کر گئے۔ اس کے باوجود اسحٰق ڈار کے کان پر جوں نہ رینگی۔
بہتری کا جو امکان جاگا ہے‘ وزیرتجارت پرویزملک کا بھی‘ شاید اس میں کچھ دخل ہے۔ وہ اپٹما پنجاب کے صدر ہیں‘ ایک عدد ٹیکسٹائل فیکٹری کے مالک بھی۔
دھاگا بنانے والی چالیس فیصد‘ کپڑا بُننے والی تیس فیصد سے زیادہ۔ تقریباً دو سو فیکٹریاں ‘ تین کی بجائے آٹھ گھنٹے کی ایک شفٹ چلا رہی ہیں۔ پانچ سے سات لاکھ مزدور بے روزگار ہو چکے اور ''دست بہ دعا‘‘ ہیں۔ 150 کارخانے بند ہوئے تو ایک تہائی نے یکسر مایوس ہو کر اپنی مشینیں کاٹھ کباڑ کے بھائو بیچ دیں۔ 25 سے 50 کروڑ کی فیکٹری‘ ایک تہائی میں بکی۔
کارخانہ دار‘ پیپلزپارٹی کو یاد کرتے ہیں۔ کارخانہ داروں کی ناراضی سے خوف زدہ‘ کچھ نہ کچھ رعایت وہ دے ہی دیا کرتے۔ اسحٰق ڈار کی ناراضی کا ایک سبب غالباً یہ بھی تھا۔
شریف خاندان اصلاً کاروباری ہے۔ سٹیل ملوں کا طویل تجربہ۔ انہی کے دور میں پاکستان سٹیل مل یکسر برباد ہوگئی۔ پی آئی اے کی پریمیئر سروس پہ میاںصاحب نے چار ارب لٹا دیے۔ بجلی کے نرخ دوگنا کرنے کے باوجود‘ بحران باقی ہے۔ پارچہ بافی کی صنعت کو تو برباد ہی کردیا۔ شاہد خاقان عباسی کو شایداللہ توفیق دے۔
سرفرازی کا انحصار اگر تشہیر پہ ہوتا‘ وعظ اور تصاویر پہ ہوتا تو شریف برادران‘ تاریخ کے سب سے کامیاب حکمران ہوتے۔ زندگی مگر زبان نہیں‘ جدوجہد سے سرفراز ہوتی ہے۔
شریف خاندان کا ماتم بہت ہو چکا‘ گریہ و زاری سے کیا حاصل؟ ملک کو اب اپنے مستقبل کی فکر ہونی چاہیے۔