"HRC" (space) message & send to 7575

عدل اور اقتدار

وہ مسلمان کہیں کھو گئے ہیں۔ جو قانون کے مطیع تھے‘ کسی شخص کے نہیں۔ عدالت سے روگردانی کا جو تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ جن کے لیے عدل ہی بنیادی اصول تھا۔ اقتدار اور سلطنت کی خاک برابر بھی وقعت نہ تھی۔
ہم اس پیامبر کے نام سے واقف نہیں مگر واقعے کی باقی تمام تفصیلات محفوظ ہیں۔ شیخ علی طنطاوی کی کتاب ''قصص من التاریخ‘‘ میں تمام تر جزئیات کے ساتھ۔
سمرقند سے روانہ ہونے والا قاصد‘ منزلوں پر منزلیں مارتا دمشق آ پہنچا۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ہوش مند آدمی تھا۔
جب وہ شاندار عمارتوں اور مساجد کے شہر میں وارد ہوا تو اس نے کوئی وقت ضائع نہ کیا۔ فوراً ہی لوگوں سے حاکم کے گھر کا پتہ پوچھا اور جا پہنچا۔ اب وہ حیران کھڑا تھا۔ تین براعظموں پر پھیلی سلطنت کے حکمران کا نام عمر ابن عبدالعزیز تھا‘ جس کی وفات پر‘ قسطنطنیہ کے عیسائی بادشاہ نے کہا تھا: سلطان نہیں‘ وہ ایک راہب تھا‘ دنیا جس کے قدموں میں ڈھیر کر دی گئی۔ مگر اس نے نظر اٹھا کر بھی اس کی طرف نہ دیکھا۔
وہ لوٹ آیا۔ گمان اس کا یہ تھا کہ یا تو اس کا ٹھٹھا اڑایا گیا‘ یا وہ سمجھ نہ سکا۔ اس نے ایک شخص کو دیکھا‘ سیڑھی پر چڑھا جو اپنے گھر کی لپائی میں مصروف تھا۔ مٹی اٹھائے‘ ایک خاتون اس کی مدد کر رہی تھی۔ ایک بار پھر وہ لوگوں سے تصدیق کا طالب ہوا۔ بیک زبان سب نے اسے یقین دلایا کہ وہی تو گھر ہے۔
واپس آ کر اس نے دروازے پر دستک دی‘ جیسے کسی بھی عامی کا کواڑ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ اور یا للعجب‘ فوراً ہی اسے باریابی نصیب ہو گئی۔ اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ دروازہ خود اسی آدمی نے کھولا تھا۔ اس کے چہرے پر زردی کی کھنڈت تھی‘ کم خوری اور کم خوراکی سے پیدا ہونے والی۔ قاصد نے اپنا تعارف کرایا اور یہ کہا‘ دور دراز شہر سے‘ وہ ایک تحریری شکایت لے کر آیا ہے۔ ایک خط جس میں فریاد کی گئی تھی اور داد رسی کی درخواست بھی۔ درخواست پر شہر کے پادری نے دستخط ثبت کئے تھے۔ مسیحی دنیا میں یہ مذہبی حکمرانی کا عہد تھا۔
فوراً ہی اس خط کی پشت پر ایک عبارت لکھ دی گئی۔ عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے‘ عاملِ سمرقند کے نام۔ فوراً ہی ایک قاضی کا تقرر کرو‘ جو پادری کی شکایت سنے۔ مہر لگائی گئی اور خط واپس کر دیا گیا۔ دنیا بھر کی مصروفیات‘ اس آدمی کو گھیرے رکھتی تھیں۔ کچھ دیر میں سورج ڈوب جائے گا۔ ایک ساعت کے بعد‘ سلطنت کے امور سے فارغ ہو کر اہلِ علم اس کے ہاں جمع ہوں گے۔ اہم ترین امور پر وہ ان سے مشورہ کرے گا اور دیر تک۔ ان گمبھیر مسائل کے علاوہ‘ دمشق میں پالیسیوں کی تشکیل کے علاوہ‘ جن کا تعلق دنیا جہان کے ملکوں سے ہو گا۔ پھر کچھ دیر اہل خانہ سے وہ بات چیت کرے گا اور تھوڑی دیر کے لیے سو رہے گا‘ تاکہ مؤذن کی صدا بلند ہونے سے پہلے بیدار ہو جائے۔ صبح کے سورج نے کبھی اسے سوتے ہوئے نہ دیکھا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نیند کے اوقات کم سے کم ہوتے گئے۔ کبھی وہ ایک شہزادہ تھا۔ ایک شہر سے دوسرے کا قصد کرتے ہوئے‘ جس کا سامان ساٹھ ستر اونٹوں پر لدا ہوتا‘ جس کے ملبوس کی خوشبو سے راستے مہک اٹھتے۔ جس کے حسنِ سخاوت اور علم کی‘ وہ بھی داد دیا کرتے‘ جن سے داد پانا سہل نہ ہوتا۔
سمرقند سے موصول ہونے والے خط میں شکایت قتیبہ بن مسلم باہلی کے بارے میں تھی۔ وہ تیز رو فاتح‘ جس نے وسطی ایشیا میں کامرانیوں کے جھنڈے گاڑے اور ملک ختا کے دروازوں پر دستک دی۔ بعد کے زمانوں میں فاتحِ عالم تیمور نے جس کی حسرت کی تھی۔ اس ملک کو چین بھی کہا جاتا تھا۔
شکایت یہ تھی کہ مسلم جنگجو نے دمشق میں طے کیے گئے دستور کو فراموش کر دیا۔ رتی برابر بھی اس کی پروا نہ کی۔ اس نے اعلان جنگ ہی نہ کیا۔ مہلت نہ دی کہ وہ خراج کا تعین کریں یا اسلام قبول کر لیں۔ ''یہ ایک غاصبانہ عمل ہے‘‘ پادری نے لکھا تھا اور یہ کہ قتیبہ کے خلاف‘ اس کی حکومت کو اقدام کرنا چاہیے۔
پیامبر حیرت کا شکار تھا۔ اوّل یہ کہ مسلمانوں کی عبادت گاہ تو ایسی رفیع الشان ہے اور بادشاہ کا گھر ایسا خستہ و درماندہ کہ اس کی چھت ہی فرسودہ تھی۔ دوسرے یہ کہ ایک قاضی اس معاملے کا فیصلہ کیسے کرے‘ جس کا تعلق لشکر اور سلطان کے ساتھ ہے۔
تھکا ماندہ قاصد سمرقند پہنچا اور کاغذ پادری کے حوالے کر دیا۔ پادری پریشان ہوا۔ یہ خط اسی آدمی کے نام تھا‘ جس کے بارے میں شکایت کی گئی تھی۔ کاغذ کا یہ ٹکڑا ان کے لیے کیسے مددگار ہو گا۔ اب مگر اس کے سوا کیا چارہ تھا کہ وہ سمرقند کے نئے حکمران کی خدمت میں حاضر ہوں‘ جس نے یکایک انہیں دہشت زدہ کر ڈالا تھا۔ عشروں سے جمی جڑی زندگی کی بساط الٹ دی تھی۔
کسی قدر انہیں تعجب ہوا‘ جب فوراً ہی قاضی کا تقرر کردیا گیا۔ اس آدمی کو ''جمیع‘‘ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ بات کرنے والے‘ اس کا احترام ملحوظ رکھتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے عدالت نے کارروائی کا آغاز کر دیا کہ دن کی روشنی نمودار تھی۔ ایک چوبدار نے قتیبہ کا نام پکارا۔ کسی لقب‘ منصب اور ظاہری اکرام کے بغیر۔ اپنی جگہ سے سردار اٹھا اور پادری کے قریب جا کھڑا ہوا۔
سمرقند سے قاضی جمیع نے پوچھا: کیا دعویٰ ہے تمہارا؟ سادہ سے الفاظ میں اس نے شکایت بیان کر دی۔ سوچ بچار کا ہمیں موقع نہ دیا گیا۔ شرائط کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اچانک ہم پر حملہ کیا گیا؛ ممکن ہے کہ ہم خراج ادا کرتے۔ شاید کچھ لوگ اسلام قبول کرنا پسند کرتے؛ ہمارا حق ہم سے چھین لیا گیا۔
قتیبہ بن مسلم سے کہا گیا کہ اپنا موقف وہ بیان کرے۔ جواب کا آغاز اس نے ایک غیر متوقع دلیل سے کیا۔ قاضی صاحب! جنگ تو ہے ہی ایک دھوکہ۔ مزید یہ کہ ان سرزمینوں کا ہمیں تجربہ ہے۔ اس سے قبل ترکوں نے کبھی اسلام قبول کیا اور نہ جزیہ ادا کرنے پر آمادہ ہوئے۔ شاداب اور سرسبز وادیوںکے یہ لوگ بھی جنگ کے سوا کون سی راہ اختیار کرتے؟۔
قاضی جمیع نے جیسے قتیبہ کی بات سنی ان سنی کر دی۔ اپنا سوال اس نے دہرایا: کیا تم نے انہیں اسلام قبول کرنے یا جزیہ ادا کرنے کی دعوت دی؟ ''جی نہیں! ہم نے موقعہ سے فائدہ اٹھایا‘‘ اس نے کہا۔ قاضی نے اپنی آنکھیں فاتح کے چہرے پر گاڑ دیں اور کہا: میں دیکھتا ہوں کہ اپنی غلطی کا تم اعتراف کر رہے ہو۔ اس کے بعد عدالت کے کرنے کا کوئی کام ہی نہیں رہ جاتا۔
قتیبہ: اللہ نے اپنے دین کو فتح عطا کی۔
قاضی نے فیصلہ سنا دیا: تمام مسلمان اور ان کے اہل و عیال‘ سمرقند کی حدود سے باہر نکل جائیں۔ کوئی مسلمان شہر میں موجود نہ رہے۔ پھر سے اگر کسی کو آنا ہو تو بھی پیشگی اطلاع اور بات چیت کے بغیر ہرگز نہیں۔ پھر قاضی اٹھا اور قتیبہ کے ساتھ ہی روانہ ہو گیا۔ خود اسے بھی سفر کی تیاری کرنا تھی۔ اس بارے میں ہرگز کوئی شبہ اسے نہ تھا کہ اس کے حکم کی تعمیل کی جائے گی۔
چند گھنٹوں میں مسلمانوں کے قافلے شہر سے روانہ تھے۔ ترک حیران تھے کہ ایسا کیوں ہے۔ جو جانتے تھے‘ دوسروں کو وہ دمشق سے موصول ہونے والے حکم اور عدالت کے بارے میں بتا رہے تھے۔
مفتوحین ایک پورا دن بھی اپنے فاتحین کے بغیر بسر نہ کر سکے۔ جانے والوں کا انہوں نے تعاقب کیا کہ گفتگو کا آغاز ہو۔ اکثریت کی رائے یہ تھی کہ نیا دین قبول کر لیا جائے‘ جس کے ماننے والے اس قدر انصاف پسند ہیں۔
وہ مسلمان کہیں کھو گئے ہیں۔ جو قانون کے مطیع تھے‘ کسی شخص کے نہیں۔ عدالت سے روگردانی کا جو تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ جن کے لیے عدل ہی بنیادی اصول تھا۔ اقتدار اور سلطنت کی خاک برابر بھی وقعت نہ تھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں