فرمانِ رسولؐ واضح ہے : قومیں وہ برباد ہوئیں ، طاقتوروں کو جو سزا نہیں دیتیں ، صرف کمزوروں کو ۔
دونوں حکومت کے پسندیدہ اخبار ہیں ۔ ایک کی اطلاع یہ ہے کہ حکومت کی بساط لپیٹنے کا فیصلہ ہے ۔ دوسرے کی یہ کہ مصالحت کی کوشش بروئے کار ہے ۔ جلد ہی میاں محمد نواز شریف کا رابطہ ہو جائے گا۔ یہ بھی کہ ارکانِ اسمبلی کی بہت بڑی تعداد تصادم کی پالیسی پہ نا خوش ہے مگر محترمہ مریم نواز کے حامی سننے کے لیے تیار نہیں ۔
ایک نے تاثر دیا کہ ایک بڑے ہنگامے یا عدالت کے ذریعے معاملہ نمٹا دیاجائے گا ۔ پسِ پردہ قوتیں حکمران جماعت میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ دوسرا یہ کہتاہے کہ تقسیم نے خود پارٹی کے اندر سے جنم لیا ۔ میاں محمد شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان بھی میاں محمد نواز شریف سے اتفاق نہیں کرتے ۔
کس کا یقین کیجیے ، کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں بزمِ ناز سے یار خبر الگ الگ
بتایاگیا ہے کہ چوہدری نثار اور شہباز شریف کو مارچ تک پارٹی اور جون تک حکومت کو بچا رکھنے کی فکر لاحق ہے ۔ دوسری طرف وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کا حوالہ دیا گیا ہے کہ ایک ہفتے میں تین بار انہوں نے ٹیکنو کریٹس حکومت کا خدشہ ظاہر کیا۔ اس سے ملک کو پہنچنے والے نقصانات پر انتباہ کیا۔
جس شام میجر جنرل آصف عبدالغفور نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ مارشل لا کے نفاذ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ٹیکنو کریٹس کی حکومت بھی نہیں بنے گی ، اسی صبح ناچیز کا کالم چھپ چکا تھا۔ واضح طور پر جس میں بتایا گیا تھا کہ مارشل لا کے نفاذ کو فوجی قیادت خطرناک سمجھتی ہے ۔ اس کی رائے میں یہ نواز شریف کا کھیل ہے ۔ جس نکتے کی زیادہ وضاحت نہ کی گئی ، وہ یہ ہے کہ ان کی رائے میں سابق وزیرِ اعظم اور ان کے انتہا پسند ساتھی فوج اور عدلیہ کو بلیک میل کرنے کے آرزومند ہیں ۔ اگر یہ نہیں تو اپنے حامی اخبارات اور پارٹی کی مدد سے ایک بڑا ہنگامہ اٹھا دیا جائے ۔ امن و امان کی صورتِ حال اس قدر بگڑ جائے کہ فوج کو مداخلت کرنی پڑے۔ اسی شام مگر دنیا ٹی وی کے پروگرام ''تھنک ٹینک‘‘ میں اس امر کی وضاحت کر دی ۔ یہ بھی عرض کیا کہ کم از کم دو وفاقی وزرا نے فوجی قیادت سے رابطہ کیا ہے ، جو نواز شریف کے پرجوش حامی سمجھے جاتے ہیں ۔ ان میں سے ایک نے وعدہ معاف گواہ بننے کی پیشکش بھی کی ہے ۔ بہت سے ارکانِ اسمبلی بھی رابطے کے خواہشمند ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا رہی ۔ امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ ترکی نے رابطہ کیا ہے ، شریف خاندان کے جس سے گہرے کاروباری مراسم ہیں ۔اس ترک جوڑے کو ترکی پولیس کے حوالے کرنے کی اطلاع ابھی نہیں آئی تھی ، لاہور ہائی کورٹ کی حکم عدولی کرتے ہوئے، بالکل غیر قانونی طور پر جسے پاکستان بدر کر دیا گیا ۔ امریکہ ، برطانیہ اور ترکیہ سے شریف خاندان کے حق میں پیغامات موصول ہوئے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے کوشش اور التجا کی گئی ۔ خواجہ آصف کے دورۂ امریکہ کے ہنگام ، امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ وہ پاکستانی حکومت کے مستقبل پر اندیشوں کا شکار ہیں ۔ اس حال میں انہوں نے یہ بات اخبار نویسوں سے کہی کہ ملاقات کے فوراً بعد خواجہ آصف غائب ہو گئے۔ بعض اخبارات نے لکھا کہ عقبی دروازے سے۔ دال میں اگر کالا نہیں تھا امریکی وزیر کی طرح صحافیوں کا سامنا کرنے سے انہیں گریز کیوں تھا؟
میاں محمد نواز شریف کی حکمتِ عملی واضح ہے ۔محاذ آرائی یا مصالحت، ہر حال میں عدالت کے سامنے جواب دہی سے گریز۔ضرورت پڑے تو افواج کے علاوہ ججوں کی کردار کشی۔ اپنے حامیوں کی مدد سے ججوں اور جنرلوں کی کردہ یا ناکردہ غلطیوں پر چیخ و پکار ۔ یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کہ وہ ظالم ، بدعنوان اور موقع پرست ہیں ۔ فرض کیجیے ، فوج اور عدلیہ سے تعلق رکھنے والی صرف ماضی کی شخصیات ہی نہیں ،موجودہ لوگ بھی بعض معاملات میں قصور وار ہیں۔اس سے یہ کیونکر ثابت ہوا کہ سمندر پار شریف خاندان کی اربوں کھربوں روپے کی جائیدادیں جائز اور طیب ہیں ؟
فیصلہ تو ظاہر ہے کہ عدالت ہی کرے گی اور ہر حال میں وہ قبول کیا جانا چاہیے۔ بادی النظری میں عمران خان نے لندن سے موصول ہونے والی تمام تر رقوم کا حساب پیش کر دیا ہے ۔ شریف خاندان کے کارناموں سے کسی طرح اس کا موازنہ ممکن نہیں۔ لندن میں جائز ذرائع سے اس نے روپیہ کمایا اور جائز طریقے سے واپس منگوایا۔ شواہد فراہم کرنا البتہ اس کی ذمہ داری تھی۔ روپیہ اس نے بیرونِ ملک منتقل نہ کیا تھا اور نہ لوٹ مار کا مرتکب ہوا تھا۔ کوئی سرکاری منصب اس کے پاس تھا ہی نہیں ۔ لوٹ مار کا کبھی وہ مرتکب نہ ہوا ۔ اس کے باوجود، تکنیکی بنیاد پر عدالت اگر اسے قانون سے انحراف کا ذمہ دار سمجھتی ہے تو سزا دے ۔ اسے یہ سزا صمیمِ قلب سے قبول کرنی چاہیے ۔ خود اس نے یہ بات کہی تھی ۔ یہ اعلان بھی کیا کہ نہ صرف پارٹی کی قیادت بلکہ سیاست سے بھی دستبردار ہو جائے گا ۔ کیا محمد نواز شریف ، ان کی صاحبزادی اور ان کے انتہا پسند ساتھی یہی اعلان کر سکتے ہیں ؟ ان میں سے بعض نے چپراسیوں اور ایک محترم ارب پتی خاتون نے گھریلو ملازمہ کا اقامہ لے رکھا ہے ۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ سفری دستاویزات میں سہولت کے لیے۔ یہ ایک مضحکہ خیز استدلال ہے۔ سب جانتے ہیں کہ امارات کا ویزہ حاصل کرنے کے لیے تو سفارت خانے تک جانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ، اسی طرح عمرے کا ویزہ‘ کب کسی کو انکار کیا گیا ۔ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کا خاندان تک سعودی عرب میں سرکاری مہمان ہوتے ہیں ۔مشہور اور موثر لوگوں کے لیے عرب بہت فیاض واقع ہوئے ہیں ۔ مجھ سے عامی کو بھی کبھی کوئی دشواری نہیں ہوتی، جس نے کبھی کسی سفارش کا سہارا نہ لیا۔ صرف ایک بار جب حج میں چند روز باقی تھے ، التجا کی اور فوراً ہی قبول کر لی گئی ۔ بالفرض اقامہ سفری آسودگی کے لیے تھا تو وزیرِ اعظم اور وزیر بننے کے بعد دستبردار ہو گئے ہوتے۔ کیوں نہ ہوئے؟ اس لیے کہ اقامے کو اکائونٹ کھولنے اور سرمایہ منتقلی کے لیے استعمال کیا جا سکتاہے ۔ صرف حکومت ہی نہیں ، اپوزیشن کے کئی لیڈر بھی اس حمام میں ننگے ہیں ۔ رفتہ رفتہ سب کے نام سامنے آئیں گے ۔ کبھی دبئی لیکس سامنے آئیں تو سندھ کابینہ کے بہت سے ارکان بھی۔
ملک کو چراگاہ بنادیا گیا اور یتیم کے مال کی طرح لوٹا گیا ہے ۔ اپنے پٹواری ، اپنے تھانیدار ، اپنے افسر اور صوابدیدی فنڈ۔ غضب خدا کا ، ایوانِ وزیرِ اعظم کے غسل خانے پر اڑھائی کروڑ روپے لٹا دئیے گئے ۔ عالم یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے اخبار کے ایڈیٹر نے گوادر میں ہزاروں ایکڑ زمین خرید ی ہے ۔ دوستوں کی خواہش کے باوجود اس کا نام نشر کرنے سے انکار کر دیا۔ کسی سے کوئی ذاتی جھگڑا نہیں ۔ ماضی کی اپنی غلطیوں سے اب یہ سیکھا ہے کہ افراد کے ساتھ الجھنے سے گریز کرنا چاہیے ۔ مجبوری نہ ہو تو نام نہیں لینا چاہیے ۔ انتقام نہیں ، قصاص درکار ہے ، مکمل انصاف۔ کب تک اللہ کی مخلوق ظلم سہتی اور برباد ہوتی رہے گی ۔ حد ہے ، دس ارب ڈالر ہر سال ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور کسی کو پروا ہی نہیں ۔ زرداری اور شریف حکومتوں نے ایک قدم تک نہ اٹھایا ۔ کیوں اٹھائیں ، وہ خود ملوث ہیں ۔ ملک کو چراگاہ بنا دیا گیا اور رتی برابر شرم کسی کو نہیں آتی ۔
فرمانِ رسولؐ واضح ہے : قومیں وہ برباد ہوئیں ، طاقتوروں کو جو سزا نہیں دیتیں ، صرف کمزوروں کو ۔