تبدیلی کی فصل پک چکی۔ دعوے داروں کو مگر معلوم نہیں کہ شجر سے پھل اتارنا کیسے ہے۔
کل شام ایک ممتاز اور معتبر آدمی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اخلاقی اقدار کو جنہوں نے ہمیشہ ملحوظ رکھا اور اپنے فرائض عزم و ہمت کے ساتھ ادا کیے۔ دنیا بھر میں ان کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ عمران خان سے کبھی ان کی ملاقات کرائی تھی کہ ریاست کے نظم و نسق کو وہ سمجھ سکیں۔ ان سے میں نے درخواست کی کہ فوری طور پر وہ خان سے ملیں۔ انہیں قلق تھا کہ الیکشن کا بائیکاٹ کرکے کپتان نے ایک بالکل ہی غلط فیصلہ کیا۔ رابطہ رکھا ہوتا تو ایسے فیصلوں سے بچ جاتا۔ کم لوگ ہیں، کاروبارِ ریاست کو جو سمجھتے ہیں۔ زندگی کو جو اپنی آنکھ سے دیکھتے ہوں ۔ خیانت ، کذب اور مصلحت پسندی سے بچتے ہوں۔
اس وقت بھی ، جب 2013ء کے الیکشن میں ٹکٹوں کی بندر بانٹ پر بیزار ہو کر لا تعلقی اختیار کر لی تھی ، ان صاحب کو آمادہ کرنے والوں میں ، میں شامل تھا کہ پختون خوا میں احتساب کمیشن کی تشکیل میں مدد کریں ۔ پارٹی کے لیڈروں نے منصوبے کو سبوتاژ کر دیا ، جو پختون خوا کو ایک مثال بنا دیتا۔ یہ کہہ کر خان نے خاموشی اختیار کر لی کہ اسے صدمہ پہنچا ہے ۔
یہی اُس کا مسئلہ ہے ۔ ترجیحات کے تعین اور نفاذ میں عرق ریزی سے گریز۔ اجتماعی زندگی کا اصول کیا ہے ؟ ''و امرھم شوریٰ بینہم‘‘ ان کے معاملات مشاورت سے انجام پاتے ہیں ۔ ثمر خیز، بامعنی اور ریاضت سے کی جانے والی مشق ۔ اعلیٰ کی بجائے ادنیٰ لوگ گھیر لیتے ہیں تو حیات نچلی سطح پہ اترتی ہے ۔ جس پر نازک ذمہ داریوں کا بوجھ ہو ، دوسروں سے زیادہ اسے محتاط رہنا پڑتا ہے ۔ لازماً ایسے کچھ لوگ اس کے ارد گرد ہونے چاہئیں ، جو اسے ٹوک سکیں ۔ غلطیا ں کم ہوں گی۔ ہو جائیں تو ازالے کا امکان زیادہ ہو گا۔
تحریکِ انصاف میں بعض ذمہ دار مناصب پر بہت ادنیٰ لوگ مسلط ہیں۔ خود عمران خان کے ذاتی سٹاف اور صدر دفتر میں اس قدر سستی مخلوق موجود ہے ، جسے کوئی بھی برت سکتا ہے ۔ صرف خفیہ ایجنسیاں نہیں ، اس کے سیاسی حریف اور ارب پتی کاروباری بھی۔ کچھ واقعات میرے علم میں ہیں ۔ دو آدمیوں کا نام بھی لیا۔ بالآخر ان دونوں کو رخصت کرنا پڑا جو من مانی اور ہیرا پھیری کے عادی تھے۔ اس وقت تک بہت نقصان ہو چکا تھا۔ 2013ء میں اسے بتا دیا گیا تھا کہ گوجر خان سے گوجرانوالہ تک اس کا ایک امیدوار بھی جیتنے والا نہیں ۔ ابھی سے میں انتباہ کرتا ہوں کہ پوٹھوہار میں موجودہ قیادت برقرار رہی تو ایک بار پھر المناک شکست ہو گی۔ کراچی میں پی ٹی آئی کے ووٹروں کی تعداد 9 لاکھ سے کم ہو کر ایک لاکھ رہ گئی ، عام انتخابات سے بلدیاتی الیکشن تک ۔ ٹکٹ بیچنے والے اب بھی پارٹی میں موجود ہیں۔ غداروں نے ٹیپو سلطان کو مروا دیا، عمران خان کیا چیز ہیں۔
عمران خان ہماری ضرورت ہیں۔ وہی ایک اپوزیشن لیڈر ہیں ۔ زرداری صاحب مکمل طور پر ناقابلِ اعتبار ہیں ۔ نئی نسل میں عمران خان سب سے زیادہ مقبول ہے ۔ لاکھوں افراد کو وہ متحرک کر سکتا ہے ۔ شوکت خانم ہسپتال سمیت، اس کے کارنامے اجاگر ہیں ۔ کرشماتی شخصیت کا حامل ہے ۔ پانامہ کیس سیاست اور عدلیہ کی راہداریوں میں بوسیدہ کاغذ کا ٹکڑا ہوتا‘ اگر وہ ڈٹ کر کھڑا نہ رہتا ۔ اس کی مدد کرنی چاہیے ۔ اس کا مگر اصول ہے اور وہ اللہ کی کتاب میں لکھا ہے: نیکی میں تعاون ، زیادتی اور گناہ میں نہیں۔
توہین اور زیادتی ہے۔ یہ بات اسے جتلائی جانی چاہیے ۔ گالی کے جواب میں بھی گالی نہیںدی جا سکتی؛ چہ جائیکہ تمسخر کو شعار کر لیا جائے ۔ زندگی حکمت و دانش سے سرخرو ہوتی ہے، جیسے قائدِ اعظم کی ہوئی۔ قائدِ اعظم کے مخالفین ایسے جنون سے نہیں ، جس کا وہ مدعی ہے ۔ اس طرزِ عمل میں انتقام کی بو ہے ۔ اس پیمبرؐ کے امتیوں کو کیا یہ زیبا ہے ، جس نے تاریخ کے بدترین انسانوں کو معاف کر دیا تھا؟ انتقام نہیں قصاص اور اس کا فیصلہ فرد نہیں، ادارہ کرتا ہے ۔ عمران خان کہتے ہیں: اگر میں آ گیا تو کسی کو چھوڑوں گا نہیں ۔ آپ کون ہیں، تقدیروں کے فیصلے کرنے والے ۔ یہ عدالت کا کام ہے ۔ فریب دہی سے یزدگرد نے عمر فاروقِ اعظمؓ سے وعدہ لے لیا: جب تک میں پانی کا یہ پیالہ پی نہ لوں، آپ مجھے قتل نہیں کریں گے ۔ پانی اس نے ریت پر گرا دیا تو امیرالمومنینؓ کے مشیروں نے کہا: اب آپ اسے قتل نہیں کر سکتے۔ وہ رہا کر دیا گیا مگر مسلمان ہوا۔
عمران خان نے یہ حیرت انگیز دعویٰ کیا ہے کہ انقلاب ایک آدمی لاتا ہے۔ رسولِ اکرمؐ، نیلسن منڈیلا اور قائدِ اعظم کی اس نے مثال دی۔ جی نہیں ، ایک تربیت یافتہ گروہ اور ایک واضح حکمتِ عملی کے ساتھ ۔ قائدِ اعظم حریفوں سے الجھتے نہیں تھے۔ نیلسن منڈیلا نے سبھی کو معاف کر دیا۔ سرکارؐ نے چار پانچ ہزار لوگوں کی تربیت کی، اخلاقی عظمت کے مینار اور اکثر جامع الصفات۔ رہنمائی کے لیے معاشروں کو مردانِ کار کی ضرورت ہوتی ہے۔ مردانِ کار کو علم، تربیت اور ضبطِ نفس کی۔ عمران خان بڑے بڑے مغالطوں میں مبتلا ہیں اور کوئی انہیں سمجھانے والا نہیں ۔ مقبولیت بڑھنے کے ساتھ اپنے آپ پہ اس کا اعتماد بڑھتا جا رہا ہے... اور یہ خطرناک ہے ۔ ان شاء اللہ شریف خاندان سے قوم کو نجات مل جائے گی لیکن جس طرح کی جماعت اس نے بنائی ہے ، اقتدار ملنے پر بھی وہ ملک کو استحکام نہ دے سکے گا ۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی پولیس، سول سروس ، ہسپتال اور تعلیمی ادارے بہتر ہوں گے ۔ عدالتوں کو مضبوط بنانے کی کوشش کرے گا ، کرپشن کو محدود کر دے گا۔ اقتدار ملے تو کرے گا۔ پارٹی کی موجودہ ہیئت کے ساتھ واضح اکثریت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ زیادہ سے زیادہ ایک کمزور مخلوط حکومت۔
جہانگیر ترین ایثار کرتے ہیں اور متحرک ہیں مگر پارٹی کو ایسا سیکرٹری جنرل درکار ہے ، جو ہمہ وقت تنظیم میں جتا رہے۔ جو تمام توانائی اور وقت اس میں کھپا دے۔ صدر دفتر کے لیے ایک آدمی تجویز کیا تھا۔ مان گیا لیکن پھر بھول گیا۔ آزاد کشمیر کے لیے بھی کسی سے ملاقات کرا دی تھی۔ بعد میں اس نے کہا: مجھے تو اس کا نام بھی یاد نہیں۔ عمارتیں ستونوں پر اور پارٹیاں مردانِ ہنر مند و صالح اطوار پہ تعمیر ہوتی ہیں۔ بسترِ مرگ پہ دوسرا نکتہ اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے فرزند کو تعلیم کیا تھا۔ وہ بھی بھول گیا تھا۔
قرآن کہتا ہے: الجھ جائو تو راسخون فی العلم کے پاس جائو۔ وہ اپنی ذات میں مگن ہے، اپنے حاشیہ برداروں میں ۔ دہرانے کی ضرورت نہیں کہ شریف خاندان سے وہ بہتر ہے مگر سیاست کے ان کاغذی جنرلوں کے ساتھ وہ سرخرو نہ ہو سکے گا، جو اسے یہ بھی نہ بتا سکے کہ دہشت گرد طالبان کیسا اور کس قدر سنگین مسئلہ ہیں ۔ فرض کیجیے، حکومت مل بھی جائے تو یہی لوگ اس کا سب سے بڑا مسئلہ ہوں گے ۔ جنہوں نے ٹکٹیں بیچیں ، کیا وہ سرکاری خزانے میں نقب لگانے کی کوشش نہ کریں گے؟ وہ خود غرض اور سستے لوگ ، جو ایک د وسرے کی کردار کشی میں لگے رہتے ہیں۔
موضوع ادق اور پیچیدہ ہے، ورق محدود۔ مختصراً یہ کہ آہنی ہاتھ کے ساتھ چند ہفتوں میں پارٹی کی تنظیمِ نو کرنا ہو گی۔ بہترین لوگوں کو ذمہ داریاں سونپنا ہوں گی، خواہ باہر سے لائے جائیں۔
تبدیلی کی فصل پک چکی۔ دعوے داروں کو مگر معلوم نہیں کہ شجر سے پھل اتارنا کیسے ہے۔