تب خیال کہیں اور جا پہنچا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کے دو اشعار یاد آئے۔
اپنے باطن کے چمن زار کو رجعت کر جا
دیکھ اب بھی روشِ دہر سے وحشت کر جا
اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لیے
اور خود عرصۂ ایام سے ہجرت کر جا
کل شام سے سوچنا شروع کیا کہ بہت دن سے خزاں کا خیال کیوں ذہن پہ سوار ہے۔ پے در پے کچھ واقعات ہوئے۔ برسات بیت چکی تو لاہور میں اپنے گھر کے سامنے املتاس کے درخت پہ نگاہ پڑی۔ سب چراغ بجھ چکے تھے۔
املتاس کا شجر بارش کے ساتھ کھلتا ہے‘ سرسوں کی طرح کہ جب گندم کے حشر ساماں سبزے کے ساتھ پھولتی ہے تو ایک خیرہ کن جلوے کو جنم دیتی ہے۔ میرؔ صاحب یاد آتے ہیں۔
چلتے ہو تو چمن کو چلئے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں‘ پھول کھلے ہیں‘ کم کم بادوباراں ہے
کوشش کرتا ہوں کہ جنوری یا فروری میں‘ صبح سات بجے کی ریل کار سے راولپنڈی کا قصد کروں۔ دریائے راوی سے ادھر نور جہاں کے مزار کا اجڑا ہوا گنبد دکھائی دیتا ہے۔ خورشید طلوع ہوتا، سحر کی دھند تحلیل ہوتی اور منظر اجاگر ہونے لگتے ہیں۔ دریائے جہلم تک گیہوں کی ہریالی سے نور پھوٹتا رہتا ہے۔ شاذ شاذ‘ کہیں کہیں‘ مسکراتی ہوئی سرسوں بھی۔
دریا کے پار‘ پوٹھوہار میں دینہ سے راولپنڈی کے نواح تک بیچوں بیچ سرسوں کے کھیت۔ تاب لانا مشکل ہو جاتا ہے۔ بیتے ہوئے ایام زندہ ہونے لگتے ہیں۔ بھولے ہوئے لوگ اور اقوال و اشعار اجاگر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
گو اب بھی ہوائیں آتی ہیں شبنم میں دھلے گلزاروں سے
برکھا میں برستے ہیں نغمے بوندوں کے لچکتے تاروں سے
تسکین کی تانیں اڑتی ہیں جھرنوں کے حسین فوّاروں سے
بیتے ہوئے دن کچھ ایسے ہیں‘ تنہائی جنہیں دہراتی ہے
کبھی میں سوچتا ہوں‘ املتاس کے درختوں کی قطار اگر کہیں گاڑ دی جائے۔ دو چار برس کے بعد ان پہ دیئے روشن ہوں تو کیسا جہاں طلوع ہو گا۔ آگرہ سے ظہیرالدین بابر نے سری نگر کا قصد کیا۔ ٹیکسلا گزر چکا تو ایک وادی نے اجالا سا کر رکھا تھا۔ چشموں‘ ندیوں اور باغوں کی سرزمین‘ وادیء فرغانہ کے فرزند نے پڑائو ڈال دیا۔ تین دن تک ڈالے رکھا۔ جیسا کہ خوش ذوق اور پُرعزم فاتح کا مزاج تھا‘ ایک عدد باغ بسایا اور فواروں کی قطاریں نصب کیں۔ دھرتی کے اسی ٹکڑے کو ''واہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بے ساختہ یہ لفظ اس کی زبان سے نکلا تو یہی اس قطعے کا نام ہو گیا۔
شیبانی خان سے شکست کھا کر‘ ثمرقند سے نکلا اور دور دراز کے گائوں میں پناہ لی تو بادشاہت سے بے زار تھا۔ ترائیوں میں ننگے پائوں گھومتا۔ بچے کھچے اپنے ساتھیوں کو اجازت دے دی کہ جہاں سینگ سمائیں چلے جائیں۔ کہا کرتا کہ زندگی شاعروں کی ہوتی ہے یا فقیروں کی۔ ہمیشہ جو زندہ رہتے ہیں‘ اسی زمانے میں اس مفہوم کا ایک شعر پتھر پر کندہ کرکے‘ اس گائوں میں نصب کرایا۔ 452 برس کے بعد ایک محقق نے وہ پتھر تلاش کیا اور ازبکستان کے قومی عجائب گھر میں رکھ دیا گیا۔
بابر اور اس کے جانشینوں نے ہندوستان کو نئے طرزِ تعمیر سے آشنا کیا۔ آبادیوں کو چمن زاروں کا تحفہ دیا۔ مغل عہد کا نتیجہ یہ تھا کہ آدھے سے زیادہ لاہور باغوں پہ مشتمل تھا۔ بعد ازاں ایک کے بعد دوسری طوائف الملوکی میں جو بر باد ہو گئے۔ بستیاں بسیں اور ان باغوں پر وہی بیتی جو ان دنوں سی ڈی اے کے ہاتھوں پچاس برس سینچے گئے، سر سبز درختوں پر بیت رہی ہے... قتلِ عام! کیوں نہ ہو، ایک پراپرٹی ڈیلر اب شہر کا حاکم ہے۔ درہم و دینار کے بندوں کو خوش ذوقی سے‘ سبزہ و گل سے کچھ زیادہ تعلق نہیں ہوتا۔
پوٹھوہار کے لیے بابر کی ایک اور یادگار بھی ہے۔ جھیل کنارے‘ کلر کہار کا تخت بابری۔ چشموں کا پانی جھیل میں اترتا ہے‘ جھیل سے وادی میں اور گلاب کے کھیتوں کو سیراب کرتا چلا جاتا ہے۔ اوپر کوہسار کی مغربی رفعت پر ایک فقیر کا مزار ہے‘ جہاں مور ناچتے ہیں۔ سینکڑوں اور ہزاروں۔ شگون یہ ہے کہ ان موروں کو گرفتار کرنے والا خود گرفتارِ بلا ہو گا۔
ڈاکٹر خورشید رضوی کی شاعری کے علاوہ‘ ان کی نثر بھی انہیں پڑھنی چاہئے‘ حسن بیان کے جو آرزومند ہوں۔ پچھلے ہفتے ان کی کتاب ''بازدید‘‘ اٹھائی کہ بارِ دگر پڑھی جائے۔ علامہ عبدالعزیز میمن کس بلا کے آدمی ہوں گے کہ ڈاکٹر صاحب ان کی عربی دانی اور حافظے پہ رشک کرتے ہیں۔ ایک واقعہ لکھا ہے کہ علامہ کے فرزند نے واشنگٹن کے موسمِ خزاں کی تصویر اپنے خطہ میں کھینچی۔ امریکہ تشریف لانے کی والد گرامی سے درخواست کی۔ زبان و بیان کے باب میں علامہ حساس تھے‘ مگر علامہ اقبالؔ کی طرح جو اقبال کو ''اکبال‘‘ کہا کرے‘ پت جھڑ کا لفظ وہ ''پت جھاڑ‘‘ کہا کرتے۔ فرمایا ''دیکھئے یہ صاحبزادے مجھے ''پت جھاڑ‘‘ کی کہانیاں سنا رہے ہیں‘ حالانکہ میں خود ''پت جھاڑ‘‘ سے آگے نکل چکا ہوں۔‘‘
یہی دن تھا کہ رئوف کلاسرا نے واشنگٹن سے موصول ہونے والی خزاں کی تصاویر اپنے ٹویٹ میں شائع کیں۔ ایک چرکہ سا لگا‘ مرحوم فاروق گیلانی یاد آئے۔ واشنگٹن کے موسم خزاں کا ذکر ایک لہک کے ساتھ کیا کرتے۔ پیلے پتے فٹ پاتھوں پہ گرتے رہتے ہیں۔ شاخوں پہ بدلتے رنگ شاعری کرتے ہیں۔ غلام اسحٰق خاں مرحوم یاد آئے۔ آخری برسوں میں ایک بار ان سے کہا: صحت اچھی لگ رہی ہے‘ چہرے پہ رونق ہے۔ کھوئی ہوئی آواز میں بولے: گرنے کا موسم آتا ہے تو پتے سرخ ہو جاتے ہیں۔ خان صاحب کا شین قاف درست نہ تھا مگر فصیح بہت۔ انگریزی‘ اردو‘ پشتو اور فارسی حتیٰ کہ عربی زبان میں بھی جستجو کرتے۔
منیر نیازی کے ہاں بہار و خزاں کا ذکر ایک اور پیرائے میں ہے۔
موسموں کے آنے جانے میں یہ سونا جاگنا
فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت
کبھی یہ گمان ہوتا ہے کہ منیر ؔ عہدِ جاہلیت کے عرب شاعروں کا سا طبع زاد تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے سامنے ایک بار یہ بات کہی تو ایک واقعہ انہوں نے سنایا۔ کہا کہ کچھ معروف انگریز شاعروں کا تذکرہ ان سے کیا۔ پھر اس بارے میں سوال کیا تو خالص پنجابی محاورے میں جواب دیا: حرام ہے کہ جو میں نے ذرا سا بھی انہیں پڑھا ہو۔ جی ہاں‘ شاعر تلمیذالرحمٰن ہی ہوتے ہیں۔
تین دن ہوتے ہیں، منیرؔ کا ایک شعر ٹویٹر پہ نقل کیا۔
پتوں کا رنگ خوف سے پہلے ہی زرد تھا
پاگل ہوا کے ہاتھ میں شہنائی آ گئی
ایسے ایسے مفاہیم و معانی‘ پڑھنے والوں نے اخذ کیے کہ میں دنگ رہ گیا۔ اکثر کا خیال تھا کہ میرا موضوع سیاست ہے۔ حالانکہ واقعی میں موسموں کی چھب اور چھینٹ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ بادِ خزاں اپنے ساتھ اتنی گہری اداسی کیوں لاتی ہے؟ اس میں درد کیوں جاگ اٹھتا ہے۔ سحر اور شب کی خاموشی میں گداز اور رچائو کا احساس زیادہ کیوں محسوس ہوتا ہے۔ کیا یہ روزِ ازل کے پیمان کی بازگشت ہے؟ لکھنے والا کبھی ایک بات کہتا ہے، قاری دوسرا مفہوم اخذ کرتا ہے۔ پڑھنے والے کی قوت متخیلہ کبھی کسی اور رخ پہ پرواز کرتی ہے۔ کبھی وہ کلام کرنے والے سے زیادہ زرخیز بھی ہوتی ہے۔ کل شب اس کا اظہار کیا اور یہ کہا کہ خورشید طلوع ہو تو بارِ دگر اس پر بات کروں گا۔
تب خیال کہیں اور جا پہنچا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کے دو اشعار یاد آئے۔
اپنے باطن کے چمن زار کو رجعت کر جا
دیکھ اب بھی روشِ دہر سے وحشت کر جا
اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لیے
اور خود عرصۂ ایام سے ہجرت کر جا