ابدیت سفر کو ہے‘ مسافر کو نہیں‘ مگر افسوس کہ کم ہی لوگ ادراک کرتے ہیں۔ پھر یہ کہ جو کچھ کسی نے بویا ہے‘ خود اسی کو کاٹنا ہے۔
میاں محمد نوازشریف نے اگر خیانت کا ارتکاب کیا ہے‘ جیسا کہ اکثریت سمجھتی ہے۔ اگر وہ قانون کی زد میں آتے ہیں‘ جیسا کہ بیشتر کو یقین ہے تو کیا ہو گا؟۔ کیا ان کے حامی انہیں بچا لیں گے؟۔ وقت بدل جاتا ہے اور آدمی نہیں بدلتا۔ پھر وہ اس کی نذر ہو جاتا ہے۔
1970ء کے عشرے میں صدر نکسن امریکہ بہادر کی نئی کامیابیوں کے معمار تھے۔ چین کے ساتھ تعلقات کا دروازہ کھول کر‘ اپنے وطن کے لیے امکانات کی دنیا اس آدمی نے وسیع کردی تھی۔ پاکستان کی مدد سے‘ خفیہ طور پر ان کے وزیرخارجہ ہنری کیسنجر بیجنگ گئے۔ تاریخ کا ایک نیا باب کھل گیا۔ ویت نام کی خونیں جنگ سے‘ انکل سام چھٹکارا پا چکا تھا۔ راوی اب چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ اتنے میں واٹرگیٹ سکینڈل منظرعام پر آیا۔ عظیم الشان کامیابیوں کے باوصف‘ وہ جانتے تھے کہ احتساب سے بچ نہ سکیں گے۔ مشوروں کا آغاز کیا۔ وطن سے باہر بھی۔ فرانس کے اساطیری صدر‘ جناب ڈیگال زندہ تھے۔ انہیں لکھا کہ کیا کوئی راستہ اب بھی کشادہ ہو سکتا ہے؟۔ چھ متبادل انہوں نے تجویز کیے۔ مزید برآں یہ کہاکہ ساتویں راہ سکوت کی ہے۔ یہ بھی مگر ممکن نہ ہو سکا۔ دبائو اتنا بڑھا کہ امریکی صدر کے دستخط تک بگڑ گئے۔ آخرکار مستعفی ہوئے اور گھر کی راہ لی۔ کئی برس بعد‘ ان سے پوچھا گیا کہ خود ان کے خیال میں تاریخ کس طرح انہیں یاد رکھے گی۔ جواب دیا: واٹرگیٹ سکینڈل کو اگر بھلا دیا گیا تو ان کا نام روشن رہے گا۔ واٹر گیٹ کو بھلایا کیسے جا سکتا ہے؟
واٹر گیٹ کیا تھا؟ حریف سیاسی جماعت کے دفتر میں آلات نصب کرکے‘ اس کے لیڈروں کی گفتگو اور مشاورت سننے کی کوشش۔ اس پر نکسن کا یہ جھوٹ کہ ان کا کوئی تعلق اس معاملے سے نہیں۔ نکسن کو بچانے والا کوئی نہ تھا‘ ان کی اپنی جماعت میں بھی۔ آخرکار ایوانِ صدر سے انہیں رخصت ہونا پڑا۔
ڈیگال کو بھی اقتدار چھوڑنا پڑا تھا؛ اگرچہ معاملہ ان کا یکسر مختلف تھا۔ قوم سے انہوں نے مزید اختیارات مانگے۔ اس پر تنازع اٹھا تو انہوں نے ریفرنڈم کا ڈول ڈالا۔ اپنی ذات نہیں بلکہ صدرِ فرانس کے لیے مزید اختیارات۔ قوم نے ان کی درخواست مسترد کردی۔ ڈیگال کو اختیار شاید دیا جا سکتا تھا‘ مگر ہر ایک فرانسیسی صدر کو نہیں۔ کون جانتا تھا کہ ان کے بعد کس مزاج اور افتادِ طبع کا حکمران نصیب ہوگا۔ ڈیگال اپنے گھر چلے گئے۔ لوٹ کر تب آئے‘ ماحول جب بدل چکا تھا۔ وہ جنگِ آزادی کے ہیرو تھے۔ ہٹلر کے مقابل ڈٹ کر کھڑے رہے اور ایثار کے مہ و سال بِتائے تھے۔ اس کے باوجود‘ قوم نے ان کی بات نہ مانی۔
دو عالمگیر جنگوں سے یورپ گزرچکا تھا۔ مزاجوں میں قدرے اعتدال آگیا تھا۔ شخصیت پرستی کا مرض اس شدت سے باقی نہ رہا تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے ہنگام‘ قومی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے‘ چرچل نے برطانوی سلطنت کی قیادت کی تھی۔ وہ بھی زمانہ جنگ کے ہیرو تھے۔ فوراً بعد برپا ہونے والے انتخابات میں‘ وہ مسترد کیوں کر دیئے گئے یا کہیے کہ ان کی پارٹی؟ اس لیے کہ ایک برتر فلسفہ اور نظریہ ان کے مدِّمقابل نے پیش کردیا تھا۔ بے روزگاروں کے لیے گزارہ الائونس‘ سوشل سکیورٹی سسٹم۔
1960ء کے عشرے میں‘ ان کی انتخابی مہم کا انچارج ابھی زندہ سلامت تھا۔ پولیس افسر ذوالفقار چیمہ اور ڈاکٹر نثار چیمہ کے بڑے بھائی جسٹس افتخار چیمہ حصول تعلیم کے لیے برطانیہ میں تھے۔ پروفیسر سے ان کے گھر ملاقات ہوئی کہ انہی کے استاد تھے۔ برطانوی معاشرے میں بے بسوںکو تحفظ کے موضوع پر‘ بحث کے ہنگام‘ گرامی قدر استاد نے اپنے ایشیائی شاگردوں کو بتایا کہ یہ تصور اس نے پیش کیا تھا۔ خود اس کے ذہن میں یہ خیال کہاں سے ابھرا؟۔ پروفیسر کا کہنا تھا کہ عمرؓ فاروقِ اعظم کی سوانح کے مطالعے سے۔
سکینڈے نیویا کے ممالک ناروے‘ سویڈن اور ڈنمارک میں‘ جہاں امسال مئی میں ایک ہفتہ بسر کیا‘ اس قانون کو آج بھی ''عمر لا‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں اس قانون کا دائرہ وسیع ہے۔ ناگہانی آفت کی تلافی بھی‘ سرکار کے ذمہ ہے۔ ایک معروف پاکستانی تاجر نے‘ دوسروں کی موجودگی میں مجھے بتایا کہ دوبار اس قانون سے اس نے فائدہ اٹھایا۔ ایک بار ڈکیتی اور دوسری بار آتش زنی کا افسانہ تراش کر۔ پھر اس نے خود ہی کہا: دونوں بار اتنا ہی نقصان ہوگیا۔ تائب وہ پھر بھی نہ ہوا۔ اللہ اس کی مدد کرے اور توبہ کی توفیق دے‘ آج کل انہی حماقتوں کی وجہ سے بھنور میں ہے۔
سالِ گزشتہ میاں محمد نوازشریف‘ اس کے ہوٹل میں گئے کہ ظہرانہ تناول فرمائیں۔ کام و دہن کی تواضع کر چکے تو فرمایا: چھولے بہت مزیدار ہیں۔ پاکستان واپس جا رہا ہوں‘ تھوڑے سے باندھ دو‘ ساتھ لے جائوں گا۔ تھوڑا کیا‘ بہت خوشی سے‘ اس نے بہت سا کھانا ہمراہ کیا۔ اقتدار اور روپے کے لیے اکثر امیر لوگوں کی بھوک نہیں مرتی۔ میاں صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ کھانے سے بھی ان کی طبیعت کبھی سیر نہیں ہوتی۔ شہبازشریف مختلف ہیں۔ سات آٹھ برس ہوتے ہیں‘ چوہدری نثار کے ساتھ میرے ہاں تشریف لائے‘ سہ پہر کا وقت۔ میں نے دو تین بہت اچھے ریستورانوں سے‘ سینڈوچ منگوائے۔ موصوف نے چکھ کر نہ دیئے۔ چائے کی ایک پیالی پر اکتفا کیا‘ وہ بھی چینی کے بغیر۔
سب لوگ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں‘ سگے بہن بھائی تک۔ شہبازشریف‘ چوہدری نثار سے متفق ہیں کہ قومی اداروں سے تصادم مول نہ لیا جائے۔ آندھی میں جھکنے والے شجر ہی بچتے ہیں‘ جو تن کر کھڑے رہیں‘ ٹوٹ جاتے ہیں۔ میاں محمد نوازشریف اور ان کی اولاد پر الزام یہ ہے کہ کالادھن سفید کیا اور ٹیکس ادا نہ کیے۔ مختصراً یہ کہ ان کی دولت ناجائز ہے۔ عدالت میں اپنی بے گناہی وہ ثابت نہیں کر سکے۔ مزید برآں قطری شہزادے کا مضحکہ خیز خط اور جعلی دستاویزات۔ ان الزامات سے کیونکر وہ جان چھڑائیں گے؟ جلسۂِ عام نہیں‘ جہاں آپ کے حامی جمع ہوتے اور تالی بجاتے ہیں‘ اب عدالت سے واسطہ ہے۔ جج ثبوت چاہتے ہیں‘ شہادتیں اور دستاویزات۔
تیری رسوائی کے خونِ شہدا در پے ہے
دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا
ذوالفقار علی بھٹو ان سے زیادہ مقبول تھے۔ ان سے زیادہ پڑھے لکھے اور تردماغ بھی۔ ان کے حامی زیادہ جذباتی‘ زیادہ ایثار کیش اور زیادہ منظم تھے۔ الزام بھی لوٹ مار اور ٹیکس چوری کا نہیں تھا۔ احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل کا پرچہ درج تھا۔ براہِ راست گواہ کوئی نہ تھا‘ جس کی موجودگی میں حکم دیا ہوتا‘یا سازش کی ہوتی۔ قتل کا مقدمہ لڑنے کی بجائے‘ انہوں نے ایک سیاسی کیس کی طرح اپنا معاملہ اجاگر کیا۔ اپنی مظلومیت کی دہائی دیتے رہے۔ امریکہ اور عسکری قیادت پر سازباز کا الزام دھرتے رہے۔ فدائین ایسے مشتعل تھے کہ دو نوجوانوں نے ...کہا جا تا ہے کہ پرویزرشید کے اکسانے پر... خودسوزی کی۔ اس کے باوجود کیا وہ بچ گئے؟ ان کے صاحبزادوں پر کیا بیتی‘ جن میں سے ایک کو‘ بہن بے نظیر کے بقول اس کی بیوی نے زہر دیا۔
ابدیت سفر کو ہے‘ مسافر کو نہیں‘ مگر افسوس کہ کم ہی لوگ ادراک کرتے ہیں۔ پھر یہ کہ جو کچھ کسی نے بویا ہے‘ خود اسی کو کاٹنا ہے۔
پسِ تحریر: ہر قصور نوازشریف کا نہیں۔ ان کے حق میں دیئے جانے والے دلائل پر غور کیا جا سکتا ہے؛ بشرطیکہ یہ دلائل وہ لوگ دیں‘ جو میاں صاحب کے حکم پر‘ سرکاری دسترخوان سے فیض یاب نہ ہوتے ہوں۔