کتنے ہی واقعات‘ دل کے دروازے پہ دستک دے رہے ہیں۔ اور شاعر یاد آتا ہے۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے
سترہ برس ہوتے ہیں، امریکہ کے دورے سے قاضی حسین احمد لوٹ کر آئے تو مقبوضہ کشمیر میں اچانک جنگ بندی کا اعلان ہوا۔ اسی روز حزب المجاہدین کے سربراہ محمد صلاح الدین سے ملنا تھا۔ امریکہ کے لیے پا بہ رکاب تھا۔ اس سے پہلے‘ جو ضروری کام نمٹانا تھے‘ ان میں سے ایک سید صاحب سے ملاقات تھی۔ محمد صلاح الدین کو‘ جن کا اصل نام سید محمد یوسف ہے‘ پیر صاحب کہا جاتا ہے۔ ایک سادہ اطوار‘ درویش منش آدمی‘ جس کے حسنِ اخلاق کی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔ بظاہر ایک بے نیاز اور بے ترتیب سا آدمی، حسنِ انتظام کا خوگر۔ آزادی کی تحریک میں حالات کے دبائو نے جس کے تیور بدل ڈالے ہیں۔ بہت دکھ اس نے سہے ہیں۔ عسکریت کی اب گنجائش نہیں‘ مگر تب و تاب وہی ہے۔
پی ٹی وی کا ایک نیا چینل شروع ہونے والا تھا۔ پہلے دن وہ صلاح الدین کا انٹرویو کرنے کے آرزومند تھے۔ سید صاحب نے معذرت کر لی۔ لوگوں کا حسنِ ظن یہ تھا کہ ناچیز کی التجا شاید وہ قبول کر لیں۔ ایک ذاتی مشورہ بھی درکار تھا۔ دانا آدمی ہیں اور راہِ سلوک کے مسافر۔ انہیں سرگرداں‘ مصروف اور الجھا ہوا پایا۔ مقبوضہ کشمیر میں حزب المجاہدین کے کمانڈروں سے رابطے کی کوشش میں جتے ہوئے۔ اس کے باوجود اپنے مہمان کا خوش دلی سے انہوں نے خیر مقدم کیا۔
ڈار نامی ان کے کمانڈر نے یکطرفہ طور پہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا تھا۔ واضح نہ تھا کہ ایسا اس نے کیوں کیا۔ تنظیم پہ مشکل وقت آن پڑا تھا۔ اتحاد اس کا خطرے میں تھا۔ کشمیری مجاہدین کی سب سے بڑی جماعت۔ اس کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا مطلب یہ ہوتا کہ بیٹھے بٹھائے بھارت کی بالاتری ہو گئی۔
اچانک وہ متوجہ ہوئے اور یہ کہا: قاضی صاحب نے ہمارے خلاف بیان کیوں دیا؟ سیّد صاحب کے لہجے میں قلق اور آواز میں نمی تھی۔ قاضی صاحب نے کہا تھا: جنگ بندی کا اعلان‘ تحریکِ آزادیِٔ کشمیر سے غدّاری ہے۔ صلاح الدین سے انہوں نے بات کی اور نہ دوسرے کشمیری لیڈروں سے۔ جنگ بندی کے وہ بھی خلاف تھے مگر غدّاری کا طعنہ دے کر اپنے لوگوں کو تقسیم کرنے کا خطرہ مول نہ لے سکتے تھے۔
ایک پیچیدہ صورتِ حال میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا تھا۔
معلوم نہیں‘ کہاں سے ایک خیال میرے دل میں در آیا۔ عرض کیا: لگتا ہے کہ ہمارے لیڈر سیرت کا مطالعہ نہیں کرتے۔ اس میں جی نہیں لگاتے، اس پہ غور نہیں کرتے۔ عالی جنابؐ کی حیات پہ ان کی نگاہ ہو تو اپنے کیا، اجنبیوں سے بھی ایسی بے دردی کے ساتھ پیش نہ آئیں۔ سیّد صاحب خاموش رہے۔ کہا تو بس یہ کہا: میں ایک جذباتی آدمی ہوں مگر میں نے صبر کا ارادہ کیا ہے۔
اللہ اس آدمی کا بھلا کرے، افسوس اس کا نام نقل کرنا میں بھول گیا، کل شب جس کی تحریر فیس بک پہ پڑھی۔ اس وقت دل سینے میں پتھر کا ایک ٹکڑا سا لگ رہا تھا۔ کم از کم تھوڑی دیر کے لیے‘ پگھل کر موم ہو گیا۔ طالبان کے کارنامے یاد آتے رہے۔ پھر ایک منظر یادوں میں مسلسل ابھرتا رہا۔ 2007ء کی پنجاب یونیورسٹی میں‘ اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن جب عمران خان پہ پل پڑے تھے۔ احتجاج ہوا تو تین دن تک اخبار نویسوں کو دھمکیاں دیتے رہے۔ مجھ ناچیز کو مدتوں معاف نہ کیا۔ کچھ اضافوں اور کچھ ترامیم کے ساتھ بارِ دگر میں اس عبارت کو لکھنے کی کوشش کرتا ہوں، شبِ رفتہ جس نے جی میں اجالا کیا تھا۔
سرکارؐ یتیم پیدا ہوئے۔ سات دن والدہ نے دودھ پلایا۔ آٹھویں دن چچا ابو لہب کی کنیز ثوبیہ کو یہ اعزاز عطا ہوا۔ چند دن اس نے درِّ یتیم کی دیکھ بھال بھی کی۔ تاریخ کے دوام میں‘ جسے رحمۃ للعالمینؐ قرار پانا تھا۔
رفعتِ شانِ رفعنا لک ذکرک دیکھے
چشمِ اقوام یہ نظّارہ ابد تک دیکھے
عمر بھر اس خاتون کو آپؐ نے یاد رکھا۔ مکہ مکرمہ میں جب بھی اسے دیکھا ''میری ماں‘ میری ماں‘‘ کہہ کر پکارا۔ مدینہ چلے آئے تو اسے لباس اور نقدی بھجوایا کرتے۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں‘ پھر حلیمہ سعدیہ کو یہ سعادت نصیب ہوئی۔ وہی ان کے بچپن کی سب سے بڑی گواہ اور تاریخ کا دریچہ ہیں۔ مدینہ منورہ میں ایک بار ملاقات کے لیے تشریف لائیں۔ ملاقات کے لیے دوڑ کر آگے بڑھے۔ سر سے چادر اتار کر زمین پر بچھا دی۔ اس پر ان سے بیٹھنے کی درخواست کی۔ غور سے ان کی بات سنتے رہے۔ ہر اس چیز کا اہتمام کیا‘ جس کی انہوں نے فرمائش کی‘ یا خود سے ضرورت محسوس کی۔ اسلام انہوں نے قبول نہ کیا تھا۔ اپنے پرانے مذہب ہی پر قائم تھیں۔
فتح مکّہ کے بعد‘ ان کی بہن ملاقات کے لیے حاضر ہوئیں۔ فوراً ہی رضاعی ماں کے بارے میں پوچھا۔ بتایا کہ وہ انتقال کر چکیں۔ آنکھوں سے آنسو بہے اور بہتے رہے۔ دیر تک آپؐ انہیں یاد کرتے رہے۔
غزوۂِ حنین کے قیدیوں میں شیما نام کی ایک خاتون شامل تھیں۔ حلیمہ سعدیہ کا انہوں نے دودھ پیا تھا۔ گویا آپ کی رضاعی بہن تھیں۔ معلوم ہوا تو یاد فرمایا۔ اپنی چادر بچھا دی۔ اپنے ہاں قیام کی دعوت دی۔ اپنے قبیلے میں انہوں نے واپس جانے کی خواہش کی۔ ایک غلام انہیں بخشا‘ ایک لونڈی عطا کی‘ کچھ بکریاں دیں اور احترام کے ساتھ رخصت کیا۔
سہیل بن عمرو ایک شاعر تھا‘ مشرک اور تند خو۔ بدزبانی کرتا‘ ہجو لکھا کرتا۔ گرفتار ہو کر آیا تو فاروق اعظمؓ نے کہا: اجازت ہو تو اس کے نچلے دو دانت نکال دوں تاکہ شعر نہ پڑھ سکے۔ آپؐ نے ارشاد کیا: ''اگر میں اس کے اعضا بگاڑ دوں تو اللہ میرے اعضا بگاڑ دے گا‘‘۔ ہمت اُس کی ٹوٹ چکی تھی۔ رحمت کا دریا بہتا ہوا دیکھا تو اس نے کہا: میری پانچ بیٹیاں ہیں۔ میرے سوا ان کا کوئی سہارا نہیں۔ فدیہ لے کر رہا کر دیجئے۔ فوراً ہی اسے رہا کر دیا گیا۔
غزوات میں سارے مشرک قبائل متحد ہو کر چڑھ آئے تھے۔ شہر میں یہودیوں کی سازش‘ ادھر سرما کی شدت اور قحط کا سا عالم۔ کس کا صبر و قرار ایسے میں باقی رہتا ہے؟ بری طرح زخمی ہو کر عمرو بن عدود‘ خندق میں گرا۔ دشمن نے سفیر بھیجا کہ دس ہزار دینار لے کر اس کی تڑپتی لاش اٹھانے کی اجازت دی جائے۔ فرمایا: میں مردہ فروش نہیں۔ ہم لاشوں کا سودا نہیں کرتے۔ اسے لے جائو۔
پیہم سازش‘ مسلسل وعدہ شکنی اور مسلسل بغاوت کرنے والے یہودی مدینہ سے نکال دیئے گئے۔ خیبر میں جا آباد ہوئے‘ آخر کو آپؐ کی قیادت میں قدوسیوں کا لشکر وہاں پہنچا۔ گھیرا ڈالا‘ سحر نیند سے بیدار ہوئے تو فرمایا: ''بری ہے ڈرائے گئیوں کی صبح‘‘۔ قلعے تسخیر ہو چکے تو تورات کے سب نسخے عبادت گاہوں سے جمع کیے۔ نہایت احترام کے ساتھ یہودیوں کے حوالے کیے۔
خیبر سے واپسی پر لشکر راستے میں سویا تو سویا ہی رہا۔ بیدار کرنے کی ذمہ داری بلالؓ کی تھی۔ آپؐ نے یاد فرمایا اور پوچھا: بلالؓ یہ تم نے کیا کیا۔ عرض کی: جس ذات نے آپؐ کو سلایا‘ اس نے مجھے بھی سلا دیا۔ سورج ابھر آیا تھا۔ اذان دی گئی‘ نماز پڑھی اور فرمایا: ''اگر تم بھول جائو تو جب یاد آئے پڑھ لیا کرو‘‘۔
جنگِ بدر کے ہنگام‘ حضرت حذیفہ کو مشرکین نے گرفتار کر لیا۔ اس پیمان پہ رہا کیا کہ جنگ میں وہ شریک نہ ہوں گے۔ سیدھے وہ اسلامی لشکر میں پہنچے۔ آپؐ نے انہیں مدینہ جانے کا حکم دیا اور فرمایا: ہم کافروں سے اپنے وعدے پورے کرتے ہیں۔
فتح مکّہ کے دن‘ سہیل بن عبادہ پرچم بردار تھے۔ ابو سفیان سے انہوں نے کہا: ''آج لڑائی کا دن ہے۔ آج کفار سے جی بھر کے انتقام لیا جائے گا‘‘۔ جھنڈا واپس لے کر آپؐ نے ان کے فرزند قیس کے حوالے کیا اور ارشاد کیا: ''پس آج لڑائی نہیں‘ رحمت اور معافی کا دن ہے‘‘۔
کتنے ہی واقعات‘ دل کے دروازے پہ دستک دے رہے ہیں۔ اور شاعر یاد آتا ہے۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے