کب تک جہل اور ردّعمل کی یہ سیاست۔ کب تک بنی اسرائیل کی طرح صحرا نوردی؟ آخر کب تک؟
علامہ خادم حسین رضوی ہماری تاریخ کا پہلا حادثہ نہیں۔ ان معاشروں کامجموعی حافظہ اور بھی کمزور ہوتا ہے ‘جو فرار کی ذہنیت میں مبتلا ہوں۔ ہوش مندی اور گہرے غوروفکر کی بجائے‘ جذبات سے مغلوب جو فیصلے کرتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو‘ شیخ مجیب الرحمن‘ میاں محمد نوازشریف ‘ الطاف حسین اور افتخار چودھری اسی انداز میں ملک کے سیاسی منظر پہ ابھرے تھے۔ قاضی حسین احمد نے بھی یہی نسخہ برتنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں سے ہم نفرت کرنے لگے تھے۔ ایک عشرے میں ہم اکتا گئے تھے۔ جمہوری آزادیاں ہمیں درکار تھیں۔ کچھ کو سوشلزم اور کچھ کو اسلامی نظام۔
اس طالب علم نے ایوب خاں کے عہد میں ہوش سنبھالا۔ ان کے عہد کی اولین یاد یہ ہے کہ چک نمبر42 جنوبی سرگودھا میں‘ تختی پر لکھنے کی سیاہی سستی ہو گئی تھی۔ سننے میں آیا کہ دکانداروں کے پاس ملاوٹ والی جو اشیاء تھیں‘ وہ قریبی نہر میں بہا دی گئی تھیں۔
معاشی اور عسکری اعتبار سے‘ یہ نوتخلیق وطن کی تعمیرکا آغاز تھا۔ سیاسی رہنما اور کارکن مگر ان سے نفرت کرتے‘ تحریک پاکستان کے ہنگام جو ابھرے تھے اور آزادی جنہیں عزیز تھی۔ اکثریت شاد تھی مگر گلی محلّے میں ایوب خاں کے حق میں بات کرنے والے خال خال۔ 1965ء کی جنگ کا آغاز ہوا تو دل مرجھائے ہوئے تھے۔ ابھی چند ماہ قبل سرکاری دھاندلی سے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ہرا دیا گیا تھا۔
جنگ شروع ہوئی توقوم انگڑائی لے کر جاگ اٹھی۔ اچانک ایوب خاں ایک ہیرو تھے۔ پاکستانی فوج صلاح الدین ایوبی کا لشکر تھا جو بھارت کو روندتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ بے شک پاکستانی فوج نے بہت بہادری اور اوالعزمی کا مظاہرہ کیا۔ سرخ لہو سے خاکِ زمیں پر کبھی نہ مٹنے والی کہانیاں لکھ دیں۔اقتدار پہ براجمان عسکری قیادت نے مگر پہاڑ جیسی غلطیوں کا ارتکاب بھی کیا۔ جنگ میں کم مگر اس سے پہلے بہت زیادہ۔ میدان جنگ اور عالمی سیاست میں عواقب و نتائج کا اندازہ کئے بغیر کشمیر میں مداخلت کی اور حادثہ برپا ہوگیا۔
ریڈیو پاکستان پیہم اگر یہ بتا رہا تھا کہ پاک فوج ہر محاذ پہ پیش قدمی کر رہی ہے۔ تو جنگ بندی کا جواز کیا تھا؟ عوامی جذبات بھڑک اٹھے تو شاطر ذوالفقار علی بھٹو نے ادراک کرلیا‘ ایوب خاں جن سے اب ناخوش تھے۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم پانے اور عوامی جذبات کا بہتر ادراک رکھنے والے آدمی نے حالات سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ کیا۔ باقی تاریخ ہے۔
بلند ہمت اور بالاقامت سہروردی دنیا سے اٹھ گئے تھے۔ نوابزادہ نصراللہ خان ان کے جانشین تھے مگر شعلہ نوا شیخ مجیب الرحمن بنگالیوں کے نئے لیڈر تھے۔ احساس محرومی سے دوچار معاشرے میں وہ اس لیے بھی جادو جگانے میں کامیاب رہے کہ بنگالیوں میں قوم پرستی کا احساس ہمیشہ سے گہرا چلا آتا تھا۔ 1947ء میں آزادی کے ہنگام بھی متحدہ بنگال کی تجویز سامنے آئی تھی‘ 1946ء کے الیکشن کے بعد سہروردی جس کے وزیراعظم رہ چکے تھے۔ قائداعظمؒ نے اس تجویز کی مخالفت نہ کی تھی۔ عوامی احساسات کی شدت میں یہ تحریک مگر اپنی موت آپ مر گئی۔ بنگالیوں کو حقیر نہ سمجھا جاتا اور اقتدار میں پورا حصہ دیا جاتا تو علیحدگی کا المیہ رونما نہ ہوتا۔ باقی تفصیلات ہیں۔
1970ء میں ہیرو کی طرح ابھرنے والے ذوالفقار علی بھٹو 1977ء میں‘ جوابی طوفان سے دوچار تھے۔ صنعتیں انہوں نے قومیا لی تھیں۔ آٹا پیسنے اور چاول صاف کرنے کے کارخانے تک‘ حتیٰ کہ پرائیویٹ سکول بھی‘ جن میں تعلیم کا معیار سرکاری اداروں سے بدرجہا بہتر تھا۔ مخالفین کی وہ تضحیک کرتے۔ ان کی فصل اجاڑنے اور ان کو پامال کر ڈالنے کے آرزو مند رہتے۔ بلوچستان پہ فوج کشی کی اور عطاء اللہ مینگل کی صوبائی حکومت برطرف کردی۔ احتجاجاً پختون خوا میں مفتی محمود کی مخلوط حکومت مستعفی ہوگئی۔ اخبارات سہمے ہوئے تھے۔ اخبار نویس جیلوں میں ڈال دیئے جاتے‘ مثلاً مقبول اردو ڈائجسٹ اور ہفتہ روزہ زندگی کے مدیر ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور الطاف حسن قریشی۔ بھٹو کی شان میں گستاخی کے مرتکب وہ ضرور ہوئے تھے۔ ویسی ہی جارحیت اور گنوار پن‘ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے کارکنوں میں جس کا مقابلہ پچھلے کئی برس سے جاری ہے۔ تب ایک جلسۂ عام میں بھٹو نے کہا تھا: میں نہیں تو میری اولاد ان سے انتقام لے گی۔ 23 مارچ 1973ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں‘ متحدہ اپوزیشن کے جلسۂ عام پہ ذوالفقار علی بھٹو کے جواں مردوں نے گولیوں کی بارش کی۔ سامعین کو لانے والی درجنوں بسیں جلا دی گئیں اور سب سے پہلے جلسہ گاہ میں پہنچنے والے نیشنل عوامی پارٹی کے ایک درجن سے زیادہ کارکن ہلاک کر دیئے گئے۔ یہ مستقل طور پر جاری رہنے والی محاذ آرائی کا آغاز تھا۔
1977ء کے انتخابی معرکے میں بھٹو کی فتح کا امکان قدرے زیادہ تھا۔جاگیرداروں سمیت ہر قابلِ ذکر لیڈر کو پارٹی میں انہوں نے شامل کرلیا تھا۔ نوکر شاہی پہ گرفت مضبوط تھی۔ 1971ء کی المناک شکست کے اثرات کہ افواج پاکستان غیرمتعلق تھیں۔ فعال طبقات میں‘ البتہ بھٹو سے نفرت پائی جاتی تھی۔ بہت سے متحرک اور ذہین لوگ ملک چھوڑ گئے۔ سرمایہ لے جانا آسان نہ تھا مگر جو لے جا سکتے تھے وہ لے گئے۔ مثلاً تحریک انصاف کے ایک نمایاں لیڈر کے والدِ گرامی نے کچھ روپیہ نیویارک منتقل کیا۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں شریف خاندان کے سرخیل میاں محمد شریف مرحوم نے مشرقِ وسطیٰ۔
بھٹو ایک قوم پرست تھے۔ بھارت کیا امریکہ سے بھی وہ مرعوب نہ ہوتے۔ اپنی صلاحیت پہ انہیں غیرمعمولی اعتماد تھا‘ فیلڈ مارشل محمد عمران خان مدظلہ العالی سے کہیں زیادہ۔ ظاہر ہے کہ لائق تو وہ ان سے زیادہ تھے ہی۔ یہ الگ بات کہ نرگسیت کے مارے تھے۔ ایثار کا جذبہ کبھی ان کی کھال میں داخل نہ ہوا تھا۔
روشن پہلو بھی تھے۔ 1971 کا عظیم المیہ رونما ہونے باوجود فاتح انداگاندھی کے مقابل مذاکرات کی شاندار مہارت کا مظاہرہ کیا۔ 90 ہزار قیدی چھڑا لائے اور مفتوحہ علاقے واپس لے لیے۔ پاکستان کی عسکری تعمیر نو کی۔ عام آدمی کے ہاتھ میں پاسپورٹ تھما کر بیرون ملک ملازمتوں کے دروازے کھولے۔ سمندر پار انہی پاکستانیوں کے بل پہ آج ہماری معیشت جیتی ہے۔ عالم اسلام سے تعلقات میں حرارت پیدا کی۔ متفقہ آئین تشکیل دیا۔ ایسا کہ سبھی کو صاد کرنا پڑا۔ سب سے بڑھ کر مشکل حالات میں ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی جو آج ہمارے دفاع کی سب سے بڑی ضمانت ہے؛ اگرچہ افواج کا اس میں حصہ تھا؛ اگرچہ اس پروگرام کو جنرل محمد ضیاء الحق نے تکمیل تک پہنچایا۔
نوازشریف پیپلزپارٹی کے خلاف ردّعمل کا شکار طبقات کا مظہر بنے۔ ایک معمولی آدمی جو معاشرے کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا ہنر جانتا تھا۔ جہاں ضرورت ہو جھکا رہتا۔ جہاں ممکن ہو انسانوں کے ضمیر خریدتا۔ جہاں موزوں اور موثر ہوتا‘ اسلام اور اخلاقی اقدار کا علمبردار بن کر کھڑا ہو جاتا۔ نوازشریف نیم خواندہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ گورنمنٹ کالج میں امتحانات بھی ان کی جگہ کوئی اور دیا کرتا۔ مذہبی پارٹیوں کی تائید اور افواج کی سرپرستی نے انہیں وزیراعلیٰ بنایا اور پہلی بار وزیراعظم بھی۔ بعد میں اپنے کچھ حامیوں کو جوہڑ میں پھینک کر کچھ دوسرے مفادپرستوں اور اسی اشرافیہ کی مدد سے وہ اقتدار میں آئے‘ جو ہر روز ایک نئے سورج کی پوجا کرنے پہ آمادہ رہتی ہے۔
الطاف حسین اور چودھری افتخار بھی ردّعمل اور نفرت میں پیدا ہونے والی تحریکوں کے لیڈر تھے۔ الطاف حسین مہاجروں کے اور افتخار چودھری پوری قوم کے۔ دونوں سے وابستہ کی جانے والی امیدیں مرجھائیں۔ الطاف حسین تو جرائم پیشہ نکلے۔ ملک اور قوم ہی نہیں‘ اپنے حامیوں کو بھی انہوں نے بیچ ڈالا‘ اپنی ذاتِ بابرکات کے لیے... وہی نفرت اور نرگسیت کی بیماری جو خودترسی‘ عدم تحفظ اور جہل سے پھوٹتی ہے۔ انسانی ضمیر کو گہری نیند سلا دیتی ہے۔ زندگی بے ثمر اور بنجر ہوتی ہے اور ہوتی چلی جاتی ہے۔
کب تک جہل اور ردّعمل کی یہ سیاست۔ کب تک بنی اسرائیل کی طرح صحرا نوردی؟آخر کب تک؟