مایوسی تو خیر زہر ہے‘ نرا کفر۔ گریہ و زاری سے بھی تقدیریں نہیں بدلتیں‘ بلکہ پُرخلوص اور کھری جستجو سے۔ اقوام کے باہمی رشتوں میں قدرت کا ایک ہی قانون ہے... طاقت کا۔ کمزوروں کے لئے دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔قومی کمزوری اجتماعی گناہوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔
اسرائیل کا قیام اور اس کے لیے مغرب کی پشت پناہی‘ چند عشروں کی نہیں‘ صدیوں میں پیدا کی جانے والی فصل ہے۔ تمام مثبت اور منفی ہتھکنڈے یہودیوں نے برتے‘ جو وہ برت سکتے تھے۔ علانیہ اور اس سے کہیں زیادہ رازداری کے ساتھ‘ نسل در نسل۔ کتنا طویل انتظار انہوں نے کیا ہے اور کس قدر عرق ریزی۔ تاریخ ایسی کوئی دوسری مثال پیش نہیں کرتی۔
امریکہ کو کوسنے کی بجائے‘ وہ بات ہمیں خود سے کہنی چاہیے‘ جو جو غرناطہ کے آخری حکمران‘ ابوعبداللہ کی ماں نے اس سے کہی تھی: مردوں کی طرح‘ جس حکومت کی حفاظت نہ کر سکے‘ عورتوں کی طرح اس پہ روتے کیوں ہو؟۔
یہودی اللہ کی معتوب قوم ہیں۔ قرآن کریم بار بار ان کی سرکشی اور جہالت کا ذکر کرتا ہے... اور جب فرعون‘ تمہارے مردوں کو قتل کرتا اور عورتوںکو زندہ رکھتا تھا... جب آل فرعون کو ہم نے غرق کر دیا اور تم دیکھتے تھے... جب ہم نے من اور سلویٰ تمہیں عطا کیا... جب چالیس راتوں کے لیے موسیٰؑ پہاڑ پر بلائے گئے اور تم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا... تم انبیاء کو قتل کرنے والے!
فلسطین سے ہجرت کرکے‘ عرب میں پناہ لینے والے یہودیوں نے ادبار کی بے شمار صدیاں بسر کیں۔ جرمنی میں لاکھوں یہودیوں کا قتل‘ ہولوکاسٹ تو ابھی کل کی بات ہے۔ روس‘ جرمن‘ فرانس‘ اٹلی اور سکینڈے نیویا‘ ہر کہیں وہ گھٹیا گردانے جاتے۔ انگریزی کے پہلے ناول کی ہیروئن اپنے باپ سے کہتی ہے: کیوں نہ ہم الجزائر میں جا بسیں‘ یہاں برطانیہ میں ہماری کمائی تو کبھی محفوظ نہ ہوگی۔
خود موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے بارے میں کہا تھا: اعوذ بااللہ اَن اکون من الجاہلین۔ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ ان جاہلوں میں سے ہو جائوں۔
معتوب اور مردود یہ قوم‘ کامیابی سے کیونکر ہمکنار ہوئی؟ پلٹ کر پچھلی صدیوں کو دیکھئے تو فوراً ہی آدمی جان لیتا ہے۔ زمینی حقائق کا انہوں نے ادراک کیا۔ اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے‘ اپنے معاشروں سے انہوں نے ہم آہنگی پیدا کی۔ ہر نسل نے دوسری کو بتایا کہ بقا کا جو چیلنج انہیں درپیش ہے‘ وہ ریاضت اور تحمل کا مطالبہ کرتا ہے۔ سائنس اور صنعت ہی نہیں‘ تجارت‘ ادب اور ذرائع ابلاغ کے میدانوں میں بھی انہوں نے دنیا کے بہترین دماغوں کو جنم دیا۔ مسلسل منصوبہ بندی‘ غالب اقوام سے تال میل‘ پیداوار کے ذرائع پر زیادہ سے زیادہ گرفت اور ذرائع ابلاغ میں زیادہ سے زیادہ رسوخ‘ یہودیوں کی حکمت عملی کے چار بنیادی اصول تھے۔
اللہ کا طریقہ یہ نہیں کہ وہ اپنے قوانین کا فہم حاصل کرنے اور ان کے لیے خون پسینہ ایک کرنے والوں کو محروم رکھے۔ مسلمانوں کا نہیں‘ وہ تمام انسانوں کا مالک ہے۔ افراد اور اقوام کو وہ مہلت دیتا ہے کہ اپنی فردِ عمل مرتب کریں۔
نیویارک میں میرے بھائی کی تعمیراتی کمپنی کو کچھ دیہاڑی دار مزدور درکار تھے۔ اپنے ایک سکھ ملازم سے اس نے کہا: کچھ آدمی لے آئو۔ اس نے جواب دیا: کون سے آدمی امین صاحب؟ پاکستانی‘ سکھ‘ میکسیکو والے‘ تعداد کا تعین ان کی قومیت کے اعتبار سے ہو گا۔ سکھ سب سے زیادہ محنتی ہیں۔ اقصائے عالم میں وہ پھیل گئے۔ یہودیوں کے بعد‘ دنیا کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور خوشحال اقوام میں سے ایک۔ ایسے سکھوں کو میں نے دیکھا جو سال میں 365 دن کام کیا کرتے۔فراغت سے آشنا ہی نہیں۔ ہمارا شاعر یہ کہتا ہے ؎
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
محبت کو سلام ‘مگر زندگی فقط خوابوں کے بل پر تو نہیں بتائی جا سکتی‘ خاص طور پہ جب بقا ہی خطرے میں ہو۔ کب سے عالمِ اسلام خطرے میں ہے۔ کب سے ہم کھیل تماشوں میں پڑے ہیں۔ حکمت عملی اور منصوبہ بندی تو کیا‘ کوئی غور و فکر نہ مطالعہ بلکہ احساس ہی نہیں۔
ان دنوں بار بار ایک سوال میں خود سے پوچھتا ہوں۔ اپنی زندگیاں کن چیزوں میں ہم بتا دیتے ہیں؟ خود ترسی سے اگر اوپر اٹھ سکیں تو مالی آسودگی‘ تفریح و نشاط اورفرصت ہو تو کتھارسس میں۔
ہمارے حکمران-حسنی مبارک‘ کرنل قذافی‘ میاں محمد نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور وہ عرب بادشاہ‘ جن کے ایک ایک دورے پہ اربوں ڈالر اٹھتے ہیں۔ ان میں ہر ایک کھرب پتی ہے۔ ہر ایک کی دولت مغرب میں پڑی ہے۔ ان کے حامی اور فدائین شب و روز ان کے لیے دلائل تراشتے ہیں۔ مذہبی جماعتوں کو فرقہ واریت سے فرصت ہو تو اقتدار میں حصہ پانے کے لئے دوڑتی ہیں۔ علماء علم سے خالی‘ دانشور‘ حکمت سے۔ کاروباری لوگ خیرات دیتے ہیں‘ ٹیکس نہیں۔ رئیس خانوادوں کے نکاح اب حجاز مقدس میں ہوتے ہیں۔ گھر کو ہم اجلا رکھتے ہیں‘ ڈرائنگ روم شاندار‘ باورچی خانہ آباد‘ لباس چمک دار۔ کوڑا گلی میں پھینکتے ہیں۔ حکمرانوں کی بداعمالیوں اور بدکاریوں کا ماتم کرتے ہیں۔ خود ہم کیا کرتے ہیں؟ کسی بچے کی تعلیم؟ کسی بھوکے کا کھانا؟ کتنے لوگ؟۔ کیا فقط ڈاکٹر امجد ثاقب اور ڈاکٹر ادیب رضوی ایسے لوگ‘ ایدھی اور چھیپا ایسے ادارے ہمارے گناہوں کا کفارہ ہیں؟۔
کسی بھی فرد اور قوم کے لیے اتنی ہی سربلندی ہے‘ جتنی ریاضت‘ تعلیم اور ہوش مندی وہ رکھتا ہو۔ تیس برس ہوتے ہیں‘ ایک سوشلسٹ مدّبر نے مجھ سے کہا: وہ قوم کیا ترقی کرے گی‘ پانچ بار جو نماز میں وقت ضائع کرے۔ عرض کیا: تبھی تو ترقی کی تھی۔ ساری دنیا پہ حکومت کی‘ محض نمازوں کے بل پر نہیں‘ علم اور ذہنی بیداری کے ساتھ۔ دنیا کی وہ سب سے معزز قوم تھے‘ ترقی پسندوں نے ہمیں برباد نہیں کیا۔ ان کی ہم سنتے ہی کب ہیں۔ ان سے زیادہ ہمارے ملّانے۔ علم اور حقائق سے کوئی علاقہ ہی نہیں‘ وہ جذبات کی دنیا میں جیتا ہے اورماضی میں۔
کل شب بعض مغربی ویب سائٹس دیکھیں۔ جیسے ہی ٹرمپ نے اعلان کیا تو مباحثے کا آغاز ہوا۔ برطانیہ کے روشن خیال رہنما جرمی کوربن نے مخالفت کی تو دھڑا دھڑ ان کی مذمت کی جانے لگی۔ بازاری لوگ بھی تھے‘ اکثر یہودی مگر دلیل سے مؤقف بیان کرنے والے۔ یہ تو خیر احمقانہ استدلال ہے کہ تین ہزار سال پہلے یہ ان کی سرزمین تھی‘ جہاں ان کے انبیاء تبلیغ کیا کرتے۔ اس اعتبار سے امریکہ ریڈ انڈینز اور آسٹریلیا ابارجنیز کا وطن ہے۔ ترکوں کا اپنی موجودہ سرزمین سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ برصغیر کی بیشتر اقوام کا بھی۔ خفت کا احساس ہوا‘ جب ایک یہودی نے لکھا: تعلیم سے ہم اپنے بچوں کو محروم نہیں رکھتے‘ اپنی عورتوں کو نہیں پیٹتے اور اپنی دولت آوارگی پہ ضائع نہیں کر دیتے۔
آخر شب ایک موضوع پر ایک ٹویٹ کیا ''سوئے پڑے مسلمان تب جاگیں گے‘ اسرائیل جب حجاز مقدسہ کا عقد کرے گا؟‘‘۔ 90 فیصد جوابی تبصرے‘ گہری سیاہ مایوسی کے مظہر تھے... وہ نہیں جاگیں گے‘ اس وقت بھی نہیں۔ ایک خاص مکتب فکر کے لوگوں نے عربوں پہ تبرّیٰ کیا کہ یہودیوں سے ملے ہیں۔ عربوں پہ اعتراضات بجا ہیں مگر آخری تجزیے میں ایران کا کردار کیا ہے؟
یہودی غلبہ نہیں پائیں گے۔ ہمیں معلوم ہے۔ ہمارے سچے پیمبرؐ نے خبر دی تھی۔ تم روم کو شکست دو گے‘ ایران کو بھی‘ ڈھابوں والے چہروں ایسے لوگوں (تاتاریوں) کو بھی... اور بالآخر دمشق میں یہودیوں کو بھی۔
خدا کا قانون ہی نہیں کہ انسانوں کو انسانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔ قرآن کہتا ہے کہ ایسا اگر ہوتا تو سب عبادت گاہیں ویران ہوتیں۔ پھر ارشاد یہ ہوتا ہے کہ بعض کو بعض کے ذریعے تباہ کر دیا جاتا ہے۔شیطان نے اسرائیل نام کا ملک بنایا تو رحمن نے پاکستان اس سے پہلے بنا دیا تھا۔ اپنے آپ کو حالات کے سپرد کرنے والوں کو مگر قیمت چکانا پڑتی ہے۔ پرہیز نہ کرنے والے‘ بروقت دوا نہ کھانے والے مریض کو صحت کیسے نصیب ہو گی؟
مایوسی تو خیر زہر ہے‘ نرا کفر۔ گریہ و زاری سے بھی تقدیریں نہیں بدلتیں‘ بلکہ پُرخلوص اور کھری جستجو سے۔ اقوام کے باہمی رشتوں میں قدرت کا ایک ہی قانون ہے... طاقت کا۔ کمزوروں کے لئے دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔قومی کمزوری اجتماعی گناہوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔