کامیابی ایک چیز ہے۔ اسے برقرار رکھنا اور ثمر خیز بنانا بالکل دوسرا عمل۔ اقوام کی تعمیر وہ رہنما کرتے ہیں‘ دانش و ریاضت کے چراغ جو روشن رکھیں۔ الجھے ہوئے پاکستانی معاشرے میں سینکڑوں گرہیں کھولنے کے لئے‘ جذبے سے زیادہ حکمت درکار ہے۔ فرمایا: جسے حکمت دی گئی‘ اسے خیرِ کثیر عطا کیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کو لافانی ہیرو سمجھنے والے بہت ہیں۔ ایسے بھی کہ حسنِ کردار کے پیکر محمد علی جناح کو مسترد کرتے اور بھٹو کا نغمہ گاتے ہیں‘ خیرہ کن ذکاوت کے باوجود جو المناک خرابیوں کا مجموعہ بھی تھے۔ افتخار چوہدری سے ساری قوم نے دھوکہ کھایا۔ تاویل کے ساتھ ہی سہی‘ اب بھی کچھ ان کی تعریف کرتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو مرحومہ کے بارے میں‘ہمارے محترم اعتزاز احسن نے اطلاع دی تھی: یا اللہ یا رسولؐ‘ بے نظیر بے قصور۔ نواز شریف اور شہبازشریف کے فراواں فدائین پائے جاتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ زرداری صاحب کے بھی‘ علّامہ طاہر القادری کے‘ مولانا فضل الرحمن کے‘ حضرت مولانا سمیع الحق مدظلہ العالی کے۔ دانش و بصیرت الگ‘ سراج الحق کے حامی کم از کم اتنا جواز تو پیش کر سکتے ہیں کہ دامن پہ داغ کوئی نہیں۔
ابھی ابھی ان کے ایک سابق دوست نے‘ عمران خان کو ''راسپوٹین‘‘ کہا۔ تبھی ان سے وہ گزارشات کیں‘ اوپر جوپیش کی ہیں۔ کل پیپلز پارٹی کے ایک پختہ کار کارکن نے کہا: دو باتیں تو ماننا ہوں گی‘ کپتان دیانت دار ہے اور دلیر بھی۔ حیرت سے میں نے سوچا: تحریکِ انصاف اگر منظم ہوتی تو اس تجربہ کار سے فائدہ اٹھاتی۔ وہاں تو مگر گھمسان کا رن پڑا رہتا ہے۔بدنظمی دوسری پارٹیوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ تحریکِ انصاف کراچی سے چترال تک پھیلا ہوا‘ ایک مچھلی بازار ہے۔
فیس بک پہ ایک خاتون ماہرِ تعمیرات اوّل اپنے خاندان کی تین نسلوں کی فضیلت بیان کرتی ہیں۔ پھرعمران خان سے ملاقات کا حوالہ دے کر‘ اپنے مداحوں کو مطلع کرتی ہیں کہ ان کے خیالات سے متاثر ہو کر پی ٹی آئی سے انہوں نے وابستگی اختیار کر لی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ملک کا مستقبل اگر تابناک ہونا ہے تو انہی کی رہنمائی میں ہوگا۔ بس وہی ایک آفتاب ہے‘ باقی تمام تاریکی۔
ایک عجیب اور مختلف حوالہ ذہن کے آفاق پہ روشن ہوا۔ انکسار صوفیا کی شخصیات کا اٹل حصہ ہوتا ہے۔ اپنے آپ کی نفی جو نہ کر سکے‘ کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ درویش نہیں۔
ایک عجیب واقعہ‘ شیخِ ہجویرؒ نے لکھا ہے‘ جس کی معنویت دیر تک غور و فکر کا تقاضا کرتی ہے۔ فرمایا: ایسا ایک سوال تھا کہ گرہ کسی طرح کھلتی ہی نہ تھی۔ کسی صاحبِ علم کی تلاش میں‘ ایک سے دوسرے دیار کو روانہ ہوئے۔ مسافرت کے دوران ایک سرائے میں قیام کیا۔ خوش حال تاجروں کا ایک گروہ ایک دن مقابل تھا۔ خاندانی تربیت نہ ہو تو مال داری چھچھورا بنا دیتی ہے۔ کم ہی روحیں‘ اقتدار اور دولت کی تاب لا سکتی ہیں۔ فرمایا کہ خربوزے کھا کر یہ تاجر چھلکے ان پر پھینکتے رہے۔ اس پر آپ نے صبر کیا۔ لکھا ہے کہ کچھ دیر میں نکتہ آشکار ہو گیا۔ رمز اس میں یہ ہے کہ ضبطِ نفس میں ذہنی استعداد‘ اللہ کی رحمت سے‘ عمیق تر ہو سکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ مجبوری سے صبر نہ کیا جائے‘ خود ترسی کے عالم اور بے بسی کے احساس کے ساتھ نہیں۔ بلکہ جیسا کہ یعقوب علیہ السلام نے فرمایا تھا ''صبرِ جمیل‘‘۔
نسل در نسل جیسا اعتراف‘ جیسا خراجِ تحسین مولانا رومؒ کے حصے میں آیا‘ تاریخ میں اس کی مثال کم ہوگی۔ شمس تبریز کے سائے میں فقیہہ‘ آخری عمر میں صوفی ہو گیا۔ پھر شعر کہنے لگا اور ایسی شاعری جسے ''ہست قرآں در زبانِ پہلوی‘‘ کہا گیا۔ سیّد سلمان ندوی نے لکھا ہے: ہر صدی میں ایک انقلاب‘ مثنوی مولانا روم کے زیرِ اثر برپا ہوتا ہے۔ خیر‘ یہ سب تو شاعرانہ مبالغے کی حد ہے۔ سرکارؐ کے فرمان کو ملحوظ رکھیے تو مجدّد کی عمر بھی ایک صدی ہوتی ہے۔ اسے مگر کیا کہیے کہ اقبالؔ ایسا مفکّر‘ اس کو ''پیرِ رومی‘‘ کہتا اور ان سے اکتسابِ نور کرتا ہے۔
وہ انکسار کی بات۔ ان سے پہلے زمانے میں ایک صاحبِ کشف درویش ''عطّار‘‘ہو گزرے تھے۔ مولانا روم کے نزدیک ان کا مقام یہ ہے:
ہفت شہرِ عشق را عطار گشت
ما ہنوز اندر خمِ یک کوچہ ایم
عطّار عشق کے سات شہروں کی سیاحت کر چکے۔ میں ابھی ایک کوچے کے کنارے کھڑا ہوں۔ہمارے عہد کے عظیم شاعر افتخار عارف یہ شعر پڑھتے اور زانو پیٹتے تھے۔ کہا: ''کوچہ‘‘ تو میں بھی لکھ سکتا تھا‘ ''خمِ یک کوچہ‘‘ انہی کا اعجازہے۔ کالم میں اس کا ذکر کیا تو شریف خاندان کے قلم کاروں میں سے ایک نے مذاق اڑایا۔ عجز اور بندگی کے کیف میں لکھے گئے ان کے اس شعر کو حوالہ کیا۔
شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگِ زمانہ ہیں‘ ہم کیا ہماری ہجرت کیا
فہم و بصیرت کا چراغ کم جلتا ہے۔ انسان اپنی افتادِ طبع کا قیدی ہے۔ اپنے تعصبات اور اپنے مفادات سے پھوٹنے والی پسند اور ناپسندکا۔ کسی لیڈر سے نفرت‘ کسی دوسرے کو قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ کون جانے کہ ایک شاعر سے ناپسندیدگی‘ اس کے حریف کو گوارا بنا دے۔ انیس ناگی مرحوم کو میں نے کہتے سنا: مشتاق احمد یوسفی کیا ہیں‘ اخبار میں لکھنے والا قاسمی‘ ان سے بڑا مزاح نگار ہے۔ پھر وہ اس فقیر کی طرف پلٹے‘ اگرچہ ایک دوسرے حوالے سے اور بولے: میں آپ سے متاثر ہوں۔ کہاں راجہ بھوج‘ کہاں گنگوا تیلی۔ بخدا میں شرمندہ ہوا۔ ایاز قدرِ خود بشناس۔ اتنے میں اپنے عہد کا عظیم نثر نگار آگے بڑھا‘ اور کہا ''میرا نام انتظار حسین ہے‘‘۔ سوچا: یہاں سے مجھے سٹک لینا چاہئے۔ عرض کیا'' آپ کو پڑھ کر‘ ہم نے لکھنا سیکھا۔‘‘ یہ جو کبھی کبھی کوئی محاورہ ڈھنگ سے بھی برت لیتے ہیں تو اس میں انتظار صاحب کا فیض شامل ہے۔ برسبیل تذکرہ‘ میرے محترم دوست منصور آفاق نے ایک دن مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ احمد فرازؔ‘ میر تقی میرؔ سے بڑے شاعر ہیں۔ گزارش کی: اس ادبی غنڈہ گردی کے لئے ایک وسیع میدان‘ پہلے سے آپ کو دستیاب ہے‘ مجھ پہ نوازش کیوں ضروری ہے۔ ناچیز اس شاعر سے مختلف ہے‘ جس نے کہا تھا:
جو ستم ہے بے سبب ہے‘ جو کرم ہے بے طلب ہے
مجھے یہ بھی ہے گوارا‘ مجھے وہ بھی ہے گوارا
کرکٹ کا عالمی کپ‘ مدتوں بعد محروم قوم کے لئے ایک بڑی خوشخبری تھی۔ شوکت خانم ہسپتال‘ ایک اعتبار سے‘ تاج محل سے بھی بڑی یادگار ہے۔ عالمی معیار کی نمل یونیورسٹی‘ سب کارنامے اپنی جگہ۔ عمران خان کی پذیرائی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ نواز شریفوں اور آصف علی زرداریوں سے ہم اکتا چکے۔ اس لئے کپتان ہی اب نجات دہندہ ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک کارکن نے لکھا: نون لیگ کے فلاں اخبار نویس اور آپ میں کیا فرق ہے؟۔ کپتان پر آپ بھی بے رحمی سے تنقید کرتے ہیں۔ خیر خواہی سے کی جانے والی تنقید بھی گوارا نہیں تو اللہ آپ پہ رحم کرے۔ جذباتیت کی اس کیفیت نے‘ تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہم سے چھین لی ہے۔ علم و ادراک نہیں‘ ہم فقط جذبات کی سطح پہ زندہ ہیں... اور یہ تقریباً حیوانی سطح ہوتی ہے۔ جوش و جذبہ اور جنون ہم میں بہت ہے۔ غور و فکر‘ خال خال۔
''علم کی دنیا میں رعایت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی‘‘۔ عارف نے کہا تھا اور تاکید کی تھی کہ تجزیے میں نفرت اور محبت کو اکٹھا رکھنا چاہیے۔ دوسروں سے کیا کہوں 16 برس تک میں خود اسے ہیرو بنانے پر تلا رہا...اور تنِ تنہا!
کپتان ہیرو بن چکا۔ نئی نسل کی بہت بڑی تعداد اس پہ فدا ہے۔ کیا وہ اقتدار حاصل کر سکے گا؟ کر پایا تو کیا کچھ کر دکھائے گا؟۔ جذبات کی آگ اس نے بھڑکا دی ہے مگر منصوبہ بندی کی فصل کاشت کرنے پر آمادہ نہیں۔ دلاور ہے‘ خون نچھاور کر سکتا ہے‘خون پسینہ بہانے کے لئے تیار نہیں۔ پوری پارٹی میں کوئی نہیں۔
کامیابی ایک چیز ہے۔ اسے برقرار رکھنا اور ثمر خیز بنانا بالکل دوسرا عمل۔ اقوام کی تعمیر وہ رہنما کرتے ہیں‘ دانش و ریاضت کے چراغ جو روشن رکھیں۔ الجھے ہوئے پاکستانی معاشرے میں سینکڑوں گرہیں کھولنے کے لئے‘ جذبے سے زیادہ حکمت درکار ہے۔ فرمایا: جسے حکمت دی گئی‘ اسے خیرِ کثیر عطا کیا گیا۔