آسکر وائلڈ نے کہا تھا: پتھروں کے سوا دنیا میں ہر چیز کبھی نہ کبھی اپنی تردید کرتی ہے۔ اس میں اضافہ کرنا چاہئے... اور رانا ثناء اللہ کے سوا۔
رانا صاحب چاہتے کیا ہیں؟ پیر کی شام آنجناب نے انکشاف کیا کہ ایک خفیہ ایجنسی پیر حمیدالدین سیالوی کی پشت پر ہے۔ کہا کہ ارکانِ اسمبلی اور بلدیاتی نمائندوں کو اس ایجنسی کے لوگ فون کرتے رہے۔ ناراض نمائندوں کو انہوں نے روبوٹ قرار دیا۔ رانا صاحب پہ یقین کر لیا جائے، اگر وہ شواہد پیش کریں۔ مثلاً اگر وہ یہ کہیں کہ فلاں شخص کو، فلاں وقت، فلاں نمبر سے فون آیا۔
ایسے آدمی تو رانا صاحب قطعاً نہیں کہ آنکھیں بند کر کے ان کی بات مان لی جائے۔ صداقت شعاری کی وہ شہرت نہیں رکھتے۔ تازہ اور بڑی مثال سانحۂ ماڈل ٹائون پہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ ہے، جس میں رانا صاحب کی تعبیر باقی ساری دنیا سے الگ ہے۔ وہ اسے ردّی کا انبار سمجھتے ہیں۔ ان کی رائے میں، خامیوں اور غلطیوں سے پُر، یہ ایک بے معنی عبارت ہے۔ ایک ایسی دستاویز، رانا صاحب کے خیال میں جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، قصوروار کا جو تعین نہیں کرتی اور حقائق جاننے میں کوئی مدد نہیں کرتی۔ رپورٹ سے اختلاف دوسری بات ہے۔ کوئی ایک مبصر بھی رانا صاحب کی رائے سے اتفاق کرنے والا نہیں۔ رپورٹ کا بغور مطالعہ کرنے والوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ نہایت عرق ریزی سے لکھی گئی یہ رپورٹ مجرموں کی تلاش میں مددگار ہو سکتی ہے۔ یہ رانا ثناء اللہ کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ اس بنا پر کہ عدالتی حکم کے باوجود انہوں نے ''منہاج القرآن‘‘ کے سامنے لگی رکاوٹ (barriers) ہٹانے کا حکم دیا۔ رپورٹ وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کے بیانِ حلفی کو مسترد کرتی ہے کہ ہنگامہ برپا ہونے پر پولیس کو واپس بلانے کا عالی جناب نے حکم دیا تھا۔ ایک واضح دلیل معزز جج نے دی ہے۔ سانحے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں وزیرِ اعلیٰ نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا تو پولیس افسروں اور دوسرے متعلق لوگوں کے خلاف کارروائی کی جاتی۔ اس کے برعکس اکثر ترقی پا گئے، عنایات کے مستحق ٹھہرے۔ رانا صاحب کی شہرت یہ ہے کہ کوّے کو سفید ثابت کرنے پر تل جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خلقِ خدا کی انہیں پروا ہوتی ہے اور نہ سچ جھوٹ کی۔ اپنی ہی وہ کہے جاتی ہیں، دوسروں کی نہیں سنتیں۔ رانا صاحب پہ یہ قول اور بھی زیادہ صادق آتا ہے۔ ان کی مانی جائے تو ہر بگاڑ کی ذمے دار عسکری قیادت ہے اور اس کے اشارۂ ابرو پر حرکت میں آنے والی خفیہ ایجنسیاں۔ رانا صاحب اور عاصمہ جہانگیر کا بس چلے تو لاہور کی خوفناک فضائی آلودگی کے لیے بھی فوج کو ذمہ دار ٹھہرائیں یا عدالتوں پہ نوازش کریں۔ فرق یہ ہے کہ عاصمہ جہانگیر کا مسئلہ ''نظریاتی‘‘ ہے اور رانا صاحب کا ذاتی۔
عاصمہ جہانگیر مذہب کے نام پر ریاست کے وجود کی مخالف ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان قائم ہی نہ ہونا چاہئے تھا۔ موجودہ حالات میں دہشت گردی سے نبرد آزما فوج ہی ملک کی سب سے بڑی محافظ ہے؛ لہٰذا اس کی مذمت، مخالفت بلکہ کردار کشی لازم ہے۔ رانا صاحب کا دکھ اور ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں وہ گرفتار ہوئے اور ان پر تشدد کیا گیا۔ اس کا وہ بدلہ چاہتے ہیں اور اس بدلے کی کوئی حد مقرر نہیں۔ ملک میں افراتفری پھیلتی ہے تو پھیلتی رہے، زخم لگتے ہیں تو لگتے رہیں۔ انتشار جنم لیتا ہے تو جنم لیتا رہے، بھارتی ٹی وی چینل ان کے بیانات کو پاکستان کے خلاف زہر پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو کرتے رہیں۔ رانا صاحب کی بلا سے۔ اپنی ذات کے گرداب میں گم، وہ شخصی اور ذاتی زندگی کے قائل ہیں۔ شریف خاندان سے ان کی وفاداری بھی اسی ذاتی مفاد اور ترجیح کی پیداوار ہے۔ 1990ء میں، جب وہ پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے‘ تو ایک ممتاز مسلم لیگی خاندان سے متعلق خاتون کی شادی پر ایسا تبصرہ آنجناب نے کیا تھا کہ کوئی شریف آدمی سننا بھی پسند نہ کرے۔ عاصمہ جہانگیر کم از کم اس لحاظ سے قدرے بہتر ہیں کہ ذاتی زندگیوں پر بات نہیں کرتیں۔ شاید یہ تربیت اور ماحول کا فرق ہے۔
پیر حمیدالدین سیالوی کا مؤقف واضح ہے۔ وہ سیاستدانوں کے پاس نہیں پہنچے تھے۔ ارکانِ اسمبلی خود ان کے ہاں آئے اور اپنے استعفے لکھ کر پیش کیے۔ رانا ثناء اللہ سے ان کا بنیادی مطالبہ یہ نہیں کہ لازماً وہ مستعفی ہوں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ رانا ثناء اللہ اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کریں۔ اعلان کریں کہ ختم المرسلینؐ کو وہ ختم المرسلینؐ مانتے ہیں۔ یعنی یہ کہ انؐ کے بعد کوئی نبی نہ آئے گا اور یہ کہ ان کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہر شخص کذب کا مرتکب ہے۔ اس لیے یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ رانا صاحب نے لندن میں قادیانیوں کے چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ان سے اظہارِ ہمدردی کیا اور اس عمل میں بہت آگے چلے گئے۔ پھر ایک پاکستانی چینل پہ بات کرتے ہوئے صاف صاف انہوں نے کہا کہ ان کے نزدیک قادیانی بھی مسلمان ہیں۔ دلیل یہ دی کہ خود کو وہ مسلمان کہتے ہیں؛ لہٰذا انہیں غیر مسلم قرار دینے کا کسی کو کوئی حق نہیں۔ یہ دعویٰ بھی فرمایا کہ علمائِ کرام انہیں مسلمان تسلیم کرتے ہیں۔
قادیانیت ایک عجیب مذہب ہے، جو ایک استعماری قوت کے سائے میں پروان چڑھا۔ جس کے ماننے والے خود کو ایک ایسی امّت کا حصہ قرار دیتے ہیں، جس کے خلاف ایک صدی سے سازشوں میں وہ لگے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے پیشوا کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ان تمام لوگوں کو ہم کافر سمجھتے ہیں، مرزا غلام احمد کو جو نبی نہیں مانتے۔ قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ مذہبی پارٹیوں کے ووٹ تو گنتی کے تھے، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی اکثریت سیکولر پیپلز پارٹی، اے این پی اور دوسری سیاسی جماعتوں سے متعلق تھی۔
41 برس کے بعد نون لیگ کی حکومت کو معلوم نہیں، کیا سوجھی کہ پینڈورا باکس اس نے کھول دیا۔ عام طور پر باور کیا جاتا ہے کہ واشنگٹن کے اشارے پر۔ انکل سام کی خواہش تو یہ ہے توہینِ رسالت کا قانون بھی ختم کر دیا جائے۔ ایک کے بعد دوسری حکومت سے یہ فرمائش وہ کرتے چلے آئے ہیں لیکن جنرل پرویز مشرف کی حکومت سمیت ہر ایک نے آگ میں ہاتھ ڈالنے سے انکار کر دیا۔ یہ توفیق میاں محمد نواز شریف کو ہوئی۔ ظاہر ہے کہ زاہد حامد یہ کارنامہ انجام دینے کے اہل نہ تھے۔ وہ تو حاکم کی اطاعت کرنے والے ایک عام سے آدمی ہیں۔ نتائج و عواقب کا اندازہ ہوتا تو وہ اسمبلی میں ترمیم پیش کرنے سے پہلے ہی پیچھے ہٹ جاتے۔ جس طرح کہ بعد میں نہایت عجلت کے ساتھ اپنا استعفیٰ انہوں نے پیش کر دیا تھا۔
ساری قوم کے برعکس قادیانیوں کے بارے میں رانا صاحب نے جس رائے کا اظہار کیا، وہ ان کی اپنی نہیں ہو سکتی۔ وہ ایک قدامت پسند مذہبی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان پر سپاہِ صحابہ ایسی تنظیموں سے رشتہ و تعلق کا الزام رہا ہے۔ وہ کسی کے ایما پر بروئے کار آئے۔ زاہد حامد سے وہ مختلف ہیں، بالکل بے لچک۔ استعفیٰ تو رانا صاحب کو دینا ہی پڑے گا۔ فارسی میں کہتے ہیں: ہر چہ دانا کنند‘ کنند ناداں لیک بعد از خرابیٔ بسیار۔
آسکر وائلڈ نے کہا تھا: پتھروں کے سوا دنیا میں ہر چیز کبھی نہ کبھی اپنی تردید کرتی ہے۔ اس میں اضافہ کرنا چاہئے... اور رانا ثناء اللہ کے سوا۔