حالات کون سے سانچے میں ڈھلیں گے۔ابھی حکم لگایا نہیں جا سکتا۔ راستہ بارودی سرنگوں سے پٹا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا کل کیا لائے گا۔
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا
اتنی گرد لشکروں نے اڑائی ہے کہ صداقت کی تلاش میں دشواری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سچائی میدانِ جنگ کی پہلی مقتول ہوتی ہے۔ ملک میں اب سیاست نہیں‘ محاذ آرائی اور کشیدگی بھی ہے‘ بلکہ معرکہ آرائی۔ جان بوجھ کر‘ سوچ سمجھ کرجھوٹ بولا جاتا ہے۔ حریف کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ناراضی اور برہمی تو پہلے بھی تھی‘ اب اشتعال کی بھڑکتی ہوئی آگ ہے اور ڈھٹائی بھی۔ وہ صاحب سطوت و تدبیر قائداعظم محمد علی جناح‘ ایک اصطلاح استعمال کیا کرتے‘ Pure Politics۔ خالص اور کھری سیاست!اس کا کہیں نام و نشان تک نہیں۔
1995ء میں عمران خاں شش و پنج کے دور سے گزر رہے تھے تو ان سے عرض کیا تھا: سیاست میںرسوائی تب ہوتی ہے‘ آدمی جب اصولوں کو نظرانداز کر دے۔ وگرنہ محمد علی جناح ہی نہیں‘ محمد علی جوہر اور حسرت موہانی بھی ہو گزرے ہیں۔ یہ مضبوط اعصاب‘ دیرپا منصوبہ بندی اور حکمت و تدبیر کا کھیل ہے۔ ایک تو عربوں کا وہی محاورہ ''لکلِّ فنَّ رِجال‘‘ ہر کام کے مخصوص لوگ ہوتے ہیں۔ ثانیاً‘ کردار کی کمزوری اور خوبی‘ جیسی سیاست میں ظاہر ہوتی ہے‘ شاید ہی کسی اور میدان میں۔ حالات میں آئے دن اٹھتے ہوئے طوفان‘ اقتدار کی بے تاب تمنا اور معاشرے کا اخلاقی بگاڑ۔ بڑے بڑے اس راہ میں پھسلتے ہیں۔ جو نہ پھسلیں وہ تاریخ کے دوام میں ابدیت پا لیتے ہیں۔ دنیا سے اٹھ جانے کے بعد بھی عظمت ان پہ ٹوٹ ٹوٹ کے برستی رہتی ہے۔افسوس کہ ایسا کوئی لیڈر ہمیں میسر نہیں...اور اس کی ایک بالکل سادہ سی وجہ ہے۔ جیسا کہ سیدابوالاعلیٰ مودودی نے کہا تھا‘ معاشرہ دودھ کی طرح ہوتا ہے اور لیڈر شپ اس کا مکھن۔ کبھی کبھار استثنیٰ کے طور پر ایسے رہنما بھی پیدا ہوتے ہیں‘ معاشرے کو جو اخلاقی بالیدگی عطا کرتے ہیں۔ اکثر ورنہ تاجروں کی طرح ہوتے ہیں‘ جو سوسائٹی کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔
مریم نواز صاحبہ کے اس بیان کو یاد کیجیے: میری تو پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں۔ آپ نے لندن میں میری اور میرے بھائیوں کی پراپرٹی کہاں سے تلاش کر لی؟ عمران خاں بھی کوئی نمونۂ اوّل نہیں۔ ان کے تضادات آشکار ہیں۔ اقتدار ہی ان کی تمنا ہے۔ اس مغالطے میں وہ مبتلا ہیںکہ محض حکومت کاری (Governance) بہتر بنا کر صدیوں سے بگڑے سماج کو انقلاب سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔ جی نہیں‘ علم اور اخلاقی تربیت سے۔ خود اپنی مثال سے‘ رہنما کی صداقت شعاری اور ایثار کیشی سے۔ سینکڑوں اور ہزاروں کارکنوں کی تربیت سے۔ دوسروں کو کیا کہیے‘ خود علماء کرام تک نے بھلا دیا کہ سرکارؐ نے اپنا سارا وقت سکھانے اور اخلاقی ارتقا پیدا کرنے میں صرف کیا۔ ایک تنہا آدمی بھی بات کرتا تو پوری توجہ سے سنتے اور کچھ نہ کچھ جان کر ہی وہ رخصت ہوتا۔ اب علماء بھی سیاست کے ہوئے۔ وہ بھی ماحول کے سانچے میں ڈھل گئے۔عمران خاں سے اگر کچھ امید ہے تو یہ کہ لوٹ مار کریں گے اور نہ اس کی حوصلہ افزائی۔ پولیس اور سول سروسز کو کام کرنے دیں گے۔ یہ ان کی تربیت کا ثمر ہے۔ شوکت خانم کی تاریخ اگر کبھی لکھی گئی تو ان واقعات کا ذکر بھی ہوگا‘ جب انہوں نے ٹھوکر کھائی اور اپنی اصلاح کی۔ نمل یونیورسٹی میں خان کی کارکردگی نسبتاً بہتر رہی؛ اگرچہ غلطیاں اس میں بھی سرزد ہوئیں۔ یاد ہے کہ بریڈفورڈیونیورسٹی کی طرف سے‘چانسلر کا منصب قبول کرنے سے آنجناب نے انکار کر دیا تھا۔ پوچھا: یہ آپ نے کیا کیا۔ بولے: فرصت کہاں سے لائوں۔ عرض کیا: کتنا وقت یونیورسٹی والے مانگتے ہیں۔ کہا: یہ تو میں نے پوچھا نہیں۔ پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ سالانہ کانووکیشن کے سوا‘ جو ایک دن میں نمٹ جایا کرے گا‘ کچھ بھی نہیں۔ تب ان سے گزارش کی کہ موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ اساتذہ کی تربیت اور نصاب کی تشکیل میں رہنمائی میسر آ سکے گی۔ اللہ کو بہتری منظور تھی۔اس ایک اقدام نے یونیورسٹی کا رخ متعین کر دیا‘ مستقبل منور کر دیا۔ رہی سیاست تو دوسروں کی طرح وہ بھی خوشامدیوں میں گھرے ہیں۔پی ٹی آئی پوٹھوہار کے نگران عامر کیانی دھڑلے سے‘ چندے کے نام پر تاوان وصول کرتے ہیں۔ دھڑلے سے اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرتے ہیں۔ ڈٹ کر غلط بیانی کرتے اور من مانی کا ارتکاب فرماتے ہیں۔ فرض کیجیے‘چکوال کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف ناکام رہی تو اس کی وجہ یہ نہ ہوگی کہ پارٹی نامقبول ہے۔ سرکاری رسوخ اور نون لیگ کے روایتی حربوں کے علاوہ بڑا سبب‘ امیدوار کا انتخاب ہوگا...اوروہ بھی غلط طریقے سے۔شریف آدمی ہے مگر دور دراز کے گائوں میں رہتا ہے۔ کپتان سے کہا: اس اللہ کے بند ے سے کہو کہ اپنی رہائش چکوال شہر میں منتقل کرے۔
سعودی عرب سے موصول ہونے والی اطلاعات متضاد ہیں۔ آسانی سے ان کی تصدیق یا تردید نہیں ہوتی۔ مثلاً آج ہی موصول ہونے والی یہ ''خبر‘‘ کہ میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے ایک عرب ملک کی شہریت حاصل کرنے کا ڈول ڈال دیا ہے۔ یہ بات البتہ وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ عدلیہ اور فوج کو بلیک میل کرنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد‘ متبادل منصوبہ میاں صاحب بنا رہے ہیں۔ اس امکان کو اب مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ سعودی عرب کے توسط سے‘ مفاہمت کے بعد وہ ملک سے باہر جا بسیں‘ خاموشی اختیار کر لیں یا طے شدہ حدود میں سیاست کریں۔
بہت پسپائی کی گنجائش تو نہیں کہ اگر ایسا ہوا تو ظاہر ہے زد شہباز شریف پہ پڑے گی‘ فی الحال جو ایک مضبوط امیدوار ہیں۔ سیاست کے چھتیس سالہ تجربے کے علاوہ‘ تحریک انصاف کی کمزوریاں ان کا اثاثہ ہیں۔ عامر کیانی جیسے لوگ اپنے مناصب پہ برقرار رہیں گے۔ پارٹی کی تنظیم بہتر ہونے کا امکان دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور نذر گوندل سمیت ایسے کئی امیدوار ٹکٹیں لے اڑیں گے‘اثاثہ نہیں جو پارٹی کے لئے بوجھ ثابت ہوں گے۔ بلیک میلنگ کی بجائے‘ شائستہ حدود میں نواز شریف سیاست کریں تو اب بھی ان کی فتح کا امکان موجود ہے۔ خطرہ دوسرا ہے کہ عدالت انہیں جیل بھیج دے۔ خاندان کے دوسرے افراد کو بھی۔ اسی لئے ان کے دونوں صاحبزادوں نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا ہے۔ شریف خاندان کی دولت ہی اس کے لئے سب سے بڑی آزمائش بن گئی ہے۔ اس دولت سے وہ دستبردار نہیں ہو سکتے‘ اس کا حساب نہیں دے سکتے‘ اسے جائز ثابت نہیں کر سکتے۔ پروردگار بے نیاز ہے اور اللہ کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ارشاد یہ ہے کہ آدمی اپنی راہ چلتا رہتا ہے۔ آخرکار اس میں وہ تھکا دیا جاتا ہے۔ ہوتا بالآخر وہی ہے جو خالقِ کون و مکاں کو منظور ہو۔ فتح بالآخر سچائی اور تدبر کی ہوتی ہے۔ چالاکی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ ذہانت ہی زندگی کی سب سے بڑی متاع ہوتی تو دنیا کی کوئی طاقت ممتاز احمد خان دولتانہ کو وزیراعظم بننے سے روک نہ سکتی۔ ذوالفقار علی بھٹو تاریخ کے افق پر قائداعظم کی طرح جگمگاتے۔ قدرتِ کاملہ کے قوانین ہیں اور ان میں کوئی استثنیٰ نہیں۔
شریف خاندان ژولیدہ فکری(Frustration) کا شکار ہے۔ ادراک ایسے میں رخصت ہوجاتا ہے اور غصہ بے قابو۔ہر چیز کے لئے آدمی اپنے حریف کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ خودتنقیدی کی استعداد مرجھا کے مر جاتی ہے۔ اس بنیادی اصول کو آدمی بھلا دیتا ہے کہ انسان کی تمام کامیابیاں اور تمام ناکامیاں اس کے داخل سے جنم لیتی ہیں‘ خارج سے نہیں۔
حالات کون سے سانچے میں ڈھلیں گے۔ابھی حکم لگایا نہیں جا سکتا۔ راستہ بارودی سرنگوں سے پٹا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا کل کیا لائے گا۔
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا