قدرت کی منشا یہ لگتی ہے کہ پوری آزادی کی طرف ہم پیش رفت کریں۔ سہمے ہوئے لوگ کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا کرتے۔ ہوش مندی کے ساتھ بہترین تجزیہ ہی‘ موزوں ترین راہِ عمل کی بنیاد ہوتا ہے۔
امریکی اہداف واضح ہیں اور یہ بھی واضح ہے کہ ان اہداف کو ہم قبول نہیں کر سکتے۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات ہم محدود کر دیں‘ بھارت کی تھانیداری قبول کر لیں، اپنے ایٹمی پروگرام پر امریکہ بہادر کی نگرانی تسلیم کر لیں‘ اور جنگجو پشتون قبائل پر پاکستان دبائو ڈالے۔ دوسرے الفاظ میں سکّم اور بھوٹان یا زیادہ سے زیادہ بنگلہ دیش بن جائیں۔
فوجی افسروںکا ماہانہ اجلاس‘ پہلے ہفتے میں منعقد ہوتا ہے۔ کابینہ کے ہنگامی اجلاس کی طرح‘ منگل کو یہ وقت سے پہلے طلب کیا گیا۔ کابینہ میں نہیں‘ فیصلے اس اجلاس میں صادر ہوں گے؛ اگرچہ سول اور ملٹری قیادت میں بنیادی اختلاف کوئی نہیں۔ سیاسی لیڈرشپ کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ایک مربوط حکمتِ عملی کے نقوش جلد اجاگر ہوں گے ۔
امریکی رسوخ کافی گہرا ہے۔ کم از کم دو میڈیا گروپ سی آئی اے کے زیر اثر ہیں۔ مغرب کی مالی امداد سے بروئے کار این جی اوز کا ایک جال بچھا ہے۔ سیاست اور صحافت میں بھاڑے کے ٹٹو‘ جو زندگی کو اپنی آنکھ سے نہیں دیکھتے اور مایوسی پھیلانے میں لگے رہتے ہیں۔ اقتدار کے بھوکے‘ بڑی تصویر جو دیکھ نہیں سکتے۔ وہ نام نہاد دانشور جو آسودہ زندگیوں کے آرزومند ہیں۔ سیفما ایسی تنظیمیں‘ جس کی قیادت پاکستان سے زیادہ مغرب اور بھارت کے مفادات کو ملحوظ رکھتی ہے۔ اے پی این ایس اور سی پی این ای‘ جنہیں برادری عزیز ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے پہاڑ ایسی کئی غلطیاں کیں۔ ایک یہ کہ میڈیا کو مادر پدر آزادی بخشی۔ آزادی ہمیشہ ڈسپلن اور اخلاقی اقدار کے ساتھ ہوتی ہے۔ پاکستان ایک عجیب ملک ہے‘ جہاں لیڈر اور اخبار نویس‘ قومی سلامتی کے تقاضوں کو نظرانداز کرکے بھی سرسبز رہ سکتے ہیں۔ تاریخ کے چوراہے پر سوئی پڑی ایک قوم‘ جس کے جہل سے فائدہ اٹھا کر‘ ژولیدہ فکری کو فروغ دینا سہل ہے۔ احتساب نام کی کوئی چیز پائی ہی نہیں جاتی۔ ریاست کمزور ہے اور اس قدر کہ میڈیا میں قومی دفاع کو سبوتاژ کرنے والوں کی باز پرس کرنا بھی چاہے تو کر نہیں سکتی۔ کبھی کبھی تو حکومتیںحوصلہ افزائی بھی کرتی ہیں۔ ڈان لیکس‘ نمایاں مثال ہے۔ سرکاری شخصیات نے خفیہ اجلاس کی روداد‘ رپورٹر کو بتائی‘ بھارت سے جس کے رابطے ہیں۔ مسخ کرکے ایسے اخبار میں کہانی چھاپی گئی‘ جو قومی مفادات سے بے نیاز ہے... اور مستقل طور پر!
ڈان لیکس قومی فوج کو زک پہنچانے کی ایک بھرپور کوشش تھی۔ تفتیش کرنے والوں نے مجھے بتایا کہ دو تین سرکاری شخصیات ذمہ دار ہیں۔ کسی احمق قبیلے کی طرح‘ سوچے سمجھے بغیر جو اپنے سردار کی پشت پر آ کھڑا ہو‘ صحافتی برادری اخبار کی محافظ بن بیٹھی۔ ''ہم صحافیوں کی ناراضی کے تصور سے پریشان ہیں‘‘۔ معاملے سے متعلق ممتاز فوجی افسروں نے مجھے بتایا۔ آزادی بہت قیمتی ہے۔ انسانی صلاحیت اسی میں بروئے کار آتی اور اقوام کو سرخرو کرتی ہے۔ اس کے مگر کچھ تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ علم اور اخلاقی احساس سے محروم گروہوں کو مگر کیا ادراک اور کیا پرواہ۔
آزادی تو بہرحال برقرار رہنی چاہئے اور انشاء اللہ باقی رہے گی۔ ریاست کا جبر کوئی راستہ نہیں۔ کوئی ڈھنگ کی حکومت آئے تو خود میڈیا کی مدد سے نگرانی کا ایک نظام قائم کرنا چاہیے ۔ شاعر منیر نیازیؔ کہا کرتے تھے: جس قبیلے کے سارے لوگ بہادر ہوں‘ تباہ ہو کر وہ رہے گا۔
یہ المناک پیچیدگیاں یاد دلاتی ہیں کہ آمرانہ فوجی حکومت کیسی خطرناک ہوتی ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے افغانستان میں روسیوں کی مزاحمت کا ایمان افروز جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔ نہ کرتے تو پاکستان سوویت یونین کے رحم و کرم پر ہوتا۔ ہاں! مگر فرقہ پرست مذہبی گروہوں کی سرپرستی سے‘ انہوں نے ملک کے مستقبل میں بارودی سرنگیں بچھا دیں۔ جنرل پرویز مشرف نے نجی چینل کھولنے کی اجازت دی مگر بھول گئے کہ ان میں پرلے درجے کے غیر ذمہ دار لوگ موجود ہیں۔ ادنیٰ قسم کے مفاد پرست‘ جنہیں کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے۔ ان میں سے ایک کو برطانیہ اور امریکہ سے مستقل طور پر مدد ملتی ہے۔ کوئی آدمی عقل کل نہیں ہوتا۔ آخری تجزیے میں ایک مضبوط جمہوری نظام ہی قومی سلامتی کے تحفظ کا طریق ہے۔ شرط یہ ہے کہ قوم کی تربیت کی جائے۔ اسے تعلیم دی جائے۔
امریکی مدد بند ہو جائے گی۔ یہ کوئی زخم نہ ہو گا۔ یہ محدود سی رقم ہوتی ہے، جس کا بڑا حصہ واپس چلا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب کے کھیتوں میں ڈرون طیاروں سے جراثیم کش ادویات چھڑکنے کا احمقانہ فیصلہ۔ اسی پر وہ اکتفا نہ کرے گا۔ جاپان‘ آسٹریلیا‘ ویت نام‘ بھارت‘ فلپائن اور آسٹریا کی مدد سے چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے والا انکل سام‘ افغانستان میں مستقل قیام کا آرزومند ہے۔ جنگ وہ جیت نہیں سکتا۔ اس سے بھی زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ افغان سرزمین میں قیام امن اس کا مقصود ہی نہیں۔ ایسا ہوتا تو پاکستان کی طرف سے‘ سرحد پر باڑ لگانے کے منصوبے کی وہ تائید کرتا۔ افغانستان میں بھارت کو اہم کردار سونپنے کی کوشش نہ کرتا۔ اسلام آباد پر دبائو ڈال کر وہ اسے ایک زیادہ سے زیادہ انحصار پذیر ملک بنانے پر تلا ہے۔ نواز شریف اس پر رضامند تھے۔ اسی لئے ہر قیمت پر بھارت سے مراسم بحال کرنے پہ وہ تیار تھے۔ فوج نے انکار کر دیا۔ آزادی بچانی ہے تو اس پالیسی کی حد تک‘ پوری قوم کو عسکری قیادت کی پشت پناہی کرنا ہو گی۔ خطرہ یہ ہے کہ انکل سام‘ بھارت کو پاکستان کے خلاف محدود جنگی کارروائی کے لئے اکسا سکتا ہے۔ تجارتی پابندیاں عائد کر سکتا ہے، خاص طور پر ٹیکسٹائل کے شعبے میں۔ پاکستان سے درآمدات کو محدود کر سکتا ہے۔ بھارتی رویہ اور بھی جارحانہ ہوتا جائے گا۔ قومی اتحاد ہی سے مزاحمت ممکن ہے۔ ایک مضبوط جمہوری حکومت کی تشکیل‘ جو قومی دفاع کو ملحوظ رکھے۔ جبر نہیں‘ آگاہی کے بل پر۔ اللہ کا شکر ہے کہ نواز شریف سے جان چھوٹی۔ شہباز شریف یا عمران خان غیر مشروط طور پر بھارت سے مراسم بڑھانے کے لیے بے تاب نہیں ہوں گے۔
دنیا بدل گئی ہے۔ آزاد اور جدید معیشت کے بغیر کوئی قوم اپنے پائوں پر کھڑی نہیں رہ سکتی۔ ہاتھ میں کشکول تھام کر‘ آپ آزاد روی اختیار نہیں کر سکتے۔ فوجی دماغوں نے قومی معیشت کا ایک تجزیہ کیا ہے۔ اس کے مطابق ہر سال 30 ارب ڈالر کا ٹیکس چرا لیا جاتا ہے۔ ہم لوگ تو پہلے سے جانتے تھے۔ فوجیوں کو اب خبر ہوئی۔
سفارتی محاذ پر اعتدال اور ہوش مندی، خارجی محاذ پر‘ ترکی‘ چین اور روس کے ساتھ اور بھی زیادہ قریبی مراسم۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو من مانی سے ہم روک نہیں سکتے۔ بالآخر امریکی عوام روکیں گے۔ مزاحمت کے عمل میں مگر ہمیں جذباتیت اور دیوانگی کا شکار نہ ہونا چاہئے۔ دنیا کو بتانا ہو گا، قصوروار وہ ملک نہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں‘ جس نے ساٹھ‘ ستر ہزار زندگیاں نذر کیں۔ 120 بلین ڈالر کا نقصان اٹھایا۔
قومی معیشت کی تعمیر نو اور ٹیکس اصلاحات کے لئے طویل المیعاد منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو‘ آئندہ ایک برس میں ٹیکس وصولی میں اضافے کا ہدف 1500 ارب ہونا چاہیے۔ درآمدات میں کم از کم پانچ ارب ڈالر کی کمی ممکن ہے۔ پرانی کاروں اور تھائی لینڈ کے گھٹیا چاول کی ہمیں کیا ضرورت؟ میک اپ کا سامان کیا ملک میں نہیں بن سکتا؟ ہر طرح کا بہترین کپڑا تیار کرنے کے باوجود‘ ملبوسات ہم کیوں منگواتے ہیں؟ ملک سے سرمائے کا فرار روک دینا ہو گا۔ یہ بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے سے ہی ممکن ہو گا۔
سمندر پار پاکستانی بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ روپیہ مگر وہاں آتا ہے‘ جہاں امن اور استحکام ہو۔ وقت سے پہلے نہیں تو عین وقت پر الیکشن ضروری ہیں۔
قدرت کی منشا یہ لگتی ہے کہ پوری آزادی کی طرف ہم پیش رفت کریں۔ سہمے ہوئے لوگ کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا کرتے۔ ہوش مندی کے ساتھ بہترین تجزیہ ہی‘ موزوں ترین راہِ عمل کی بنیاد ہوتا ہے۔