ایک پوری قوم جب سطحیت میں مبتلا ہو تو شاطر کیوں اسے الّو نہ بنائیں؟ غضب خدا کا، دو لاکھ مسافروں کی اورنج ٹرین کے لیے 250 ارب اور چار کروڑ بچوں کی تعلیم کے لیے چالیس ارب روپے؟
بحث کا رخ بنیادی طور پر درست ہے۔ ایک شخص نہیں، صحافت کا پورا ماحول۔ ایک ضابطۂ اخلاق اور پیشہ ورانہ تقاضوں کو برلانے کی ضرورت۔ مکالمے کا دائرہ شاید کچھ اور وسیع ہونا چاہیے۔ ایک شخص اور ایک شعبے نہیں بلکہ یہ پورے معاشرے کا المیہ ہے۔
ارضی حقائق سے دور، ہم سپنوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ جیسی ہماری صحافت ہے، ویسی ہی سیاست، تجارت، صنعت اور مذہبی افکار کی دنیا بھی۔ ایک مشہور واعظ کل بتا رہے تھے کہ رسولِ اکرمؐ خواب سے بیدار ہوئے تو اپنے ایک صحابی کو دیکھ کر چونکے۔ ایک خالی بوتل جنہوں نے حضورؐ کے گھٹنے سے لگا رکھی تھی کہ پسینہ جمع کریں۔ 1400 برس پہلے کے مدینہ میں شیشے کی بنی بوتل کہاں سے آ گئی؟ اس سے بھی زیادہ یہ کہ دوسری اعلیٰ اخلاقی صفات کی طرح سرکارؐ، سب با حیا لوگوں میں سب سے زیادہ صاحبِ حیا تھے۔ خوابِ نیم روز میں انؐ کا گھٹنا برہنہ کیونکر ہو سکتا تھا؟ کہانیاں ہیں اور ہم ان پر اعتبار کرتے ہیں۔ کہانیاں اسی لیے گھڑی جاتی ہیں کہ اعتبار کرنے کو ہم ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ انہی صاحب نے ایک بار ''انکشاف‘‘ کیا تھا کہ معراج سے حضورؐ واپس تشریف لائے تو ہر آسمان پہ حجامے کا اہتمام کیا گیا۔
جس معاشرے میں، ایسے ''مقدسین‘‘ کو ختم المرسلین ؐ پہ داستاں تراشنے میں تامل نہ ہوتا ہو، جہاں حضرت مولانا فضل الرحمن اسلام کا عَلم اٹھائے کھڑے ہوں، جہاں جمہوریت کے چیمپئن کا نام نواز شریف ہو، اس میں ایک ٹی وی میزبان سے کیا امید؟ پرسوں سپریم کورٹ میں چیف جسٹس نے ایک بزرگ صحافی کو خصوصی توجہ کا مستحق سمجھا۔ کہا: افسوس یہاں میں آپ کو چائے نہیں پلا سکتا۔ ایک برس ہوتا ہے، ان صاحب نے ''انکشاف‘‘ کیا کہ مسلمان اوّل روز سے علم دشمن ہیں۔ حضرت عمر فاروقِ اعظمؓ کے عہد میں‘ سکندریہ کی لائبریری انہوں نے جلا دی تھی۔ بار بار یاد دہانی کے باوجود معذرت کی توفیق نہ ہوئی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں، ایک پادری نے یہ افسانہ تراشا تو شبلی نعمانی نے تفصیل سے لکھا اور بحث تمام ہو گئی۔ محض شریف حکومت پہ چیخنے چلانے کی وجہ سے ان صاحب کو درخورِ اعتنا سمجھا جاتا ہے، یہ دعویٰ جنہوں نے کیا تھا کہ آنحضورؐ اس کے پاس تشریف لائے۔ میزبانی کا شرف اسے بخشا۔ اسی طرح کی کہانیوں سے نیم خواندہ طبقات میں ان صاحب کی پذیرائی کا آغاز ہوا۔ ایک عدد مذہبی سیاسی پارٹی کے علاوہ اب وہ اربوں کی جائیداد کے مالک ہیں۔ اس جائیداد اور تنظیم کے بل پر وہ امام خمینی بننے کے آرزومند بھی ہیں۔ ابتدائی طور پر شریف خاندان کی عنایات سے نمائش اور تونگری کا آغاز ہوا تھا۔ تین عشرے ہوتے ہیں، اس شخص کو میاں محمد نواز شریف اپنے کندھوں پر اٹھا کر غارِ حرا تک لے گئے تھے۔ اس مقدس مقام کی ایک تصویر ان دنوں سوشل میڈیا پہ گردش میں ہے۔ وہی مقبول نعرہ ''گو نواز گو‘‘۔ عمرے کی عبادت کے دوران بھی اگر کسی کا دردِ سر وہ حکمران ہے، عدالت سے جو نا اہل ہو چکا تو کیا کہیے۔ یہ تو وہ وقت اور وہ مقامات ہوتے ہیں، جس میں دل کا سب غبار دھل جاتا ہے۔ دعا کو آدمی ہاتھ اٹھاتا ہے تو دشمن بھی دوست لگتا ہے... مگر خوئے غلامی اور جہالت کے مارے ایک معاشرے کا چڑچڑا پن!
جڑانوالہ کے جلسۂ عام میں، میاں محمد نواز شریف نے اعلان کیا کہ چوتھی بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہوئے تو ہر بے گھر پاکستانی کو وہ ایک گھر عنایت کریں گے۔ 22 کروڑ کی آبادی میں 70 فیصد لوگ افلاس میں جیتے ہیں۔ ایک کروڑ مکانوں کی کمی ہے۔ اس دعوے کی تکمیل تبھی ممکن ہے، کئی سال کے لیے اگر امریکہ اور چین اپنے تمام تر ترقیاتی فنڈز میاں محمد شریف مرحوم کے فرزند کو سونپ دیں، چار ہزار بلین ڈالر۔
''روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ ذوالفقار علی بھٹو نے وعدہ کیا تھاکہ ہر پاکستانی کو وہ چھت، لباس اور خوراک مہیا کریں گے۔ آٹھ برس تک وہ فیلڈ مارشل ایوب خاں کے سب سے پرجوش وکیل رہے تھے۔ ایک عام وفاقی وزیر نہیں، فوجی خنجر سے کاٹ کر بنائی گئی کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل۔ 2 جنوری 1965ء کو منعقد ہونے والے صدارتی انتخاب میں متبادل صدارتی امیدوار۔ ایوب خان کو وہ ڈیڈی کہا کرتے اور... اپنے ڈیڈی کو کبھی بیسویں صدی کا صلاح الدین ایوبی اور کبھی ایشیا کا ڈیگال قرار دیتے۔ نہایت سنجیدگی سے یہ تجویز انہوں نے پیش کی تھی کہ ملک میں یک جماعتی نظام قائم کر دیا جائے۔ ہر ضلعے میں ڈپٹی کمشنر اس کا مقامی صدر اور سپریٹنڈنٹ پولیس اس کا سیکرٹری جنرل ہو۔ اقتدار میں آئے تو چین اور کوریا کی طرح، اپنے وزرا کو ایک خاص وردی انہوں نے پہنا دی، طنازعبد الولی خاں نے اسی بنا پر اس گروہ کو بینڈ ماسٹروں کا ٹولہ کہا تھا۔
عام آدمی کی بات دوسری ہے۔ عوام کو' کالانعام‘ کہا جاتا ہے یعنی ریوڑوں کی طرح۔ آج بھی ایسے کتنے ہی دانشور موجود ہیں جو اس مرحوم لیڈر کو دانائوں کا دانا سمجھتے ہیں۔ اس بات میں کتنی دانائی تھی کہ ربع صدی میں بھارت کے مقابلے میں تین گنا تیز رفتاری سے ترقی کرتے ہوئے پاکستان نے جو صنعتی بنیاد فراہم کی تھی، بھٹو نے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ ذہانت نے ہجرت کی اور ہزاروں لاکھوں لائق پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ منی لانڈرنگ کے دوسرے اسباب بھی ہیں لیکن ایک وجہ قومیانے کی بھٹو پالیسی بھی تھی۔ اپنے مخالفین کو مستقل طور پر انہوں نے خوفزدہ رکھا۔ ان کے جلسوں پر گولیاں برسائیں، انہیں جیلوں میں ڈالا۔ 1970ء میں الیکشن کا مرحلہ آیا تو ڈٹ کر دھاندلی کی۔ تحریک چلی تو لاہور، کراچی اور راولپنڈی اسلام آباد سمیت کئی شہر فوج کے حوالے کر نا پڑے۔ اس کے باوجود تحریک تھم نہ سکی تو ملک بھر میں تین، ساڑھے تین سو مظاہرین کو قتل کر ڈالا۔ احتجاج اس کے باوجود بے قابو رہا تو اچانک ایک دن راولپنڈی کے راجہ بازار میں نمودار ہوئے اور ایک کاغذ لہراتے ہوئے انکشاف کیا کہ انکل سام ان کے خون کا پیاسا ہے۔ آج بھی بہت سے مفکرینِ کرام ان کے اس دعوے پر یقین رکھتے ہیں۔
گیارہ سو برس ہوتے ہیں، بغداد کے ایک کشادہ مکان میں، ایک شخص نے خانہ کعبہ ایسا مستطیل کمرہ بنا رکھا تھا۔ وہ اس کا طواف کیا کرتا تھا۔ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتا۔ اس آدمی کا نام حسین تھا۔ حسین بن منصور حلّاج۔ آج بھی بہت سے عالم فاضل لوگ حسین کو صوفی مانتے ہیں۔ عہدِ عالمگیری کے اس شاعرکو بھی، جس نے کہا تھا
عمریست کہ آوازۂ منصور کہن شد
من از سر نو جلوہ دہم دار و رسن را
صرف جنیدِ بغدادؒ ہی نہیں، آنے والے زمانوں میں بھی کبھی کسی نے حسین کو صوفی نہ مانا۔ اردو اور فارسی کے شاعر مگر مانتے ہیں اور شاعر ہی نہیں، ایک عظیم عارف بھی۔ اس پہ ہمیشہ جنیدؒ یاد آتے ہیں، جنہوں نے کہا تھا: ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ ایک آدمی اور ایک شعبے کا کیا رونا۔
ایک پوری قوم جب سطحیت میں مبتلا ہو تو شاطر کیوں اسے الّو نہ بنائیں؟ غضب خدا کا، دو لاکھ مسافروں کی اورنج ٹرین کے لیے 250 ارب اور چار کروڑ بچوں کی تعلیم کے لیے چالیس ارب روپے؟