نون لیگ نادانی کے راستے پر ہے۔ تمام انسانوں کو کوئی دھوکہ دے سکتا ہے اور نہ بلیک میل کر سکتا ہے۔ مخالفین ہی نہیں وہ تو ججوں اور جنرلوں کو پامال کرنے کا خواب بھی دیکھ رہے ہیں۔ اللہ ان پہ رحم کرے۔
پوری زندگی میں جو سب سے زیادہ شفیق اور مہربان آدمی دیکھا ہے‘ اس کی موجودگی میں ایک صاحب سے بحث ہو گئی... اور تلخی کے مرحلے میں داخل۔ عرض کیا: کسی کو ثالث بنا لیجئے۔ میرے کان میں انہوں نے کہا: مجھے نہ بنائیے گا۔ اس جملے کا مطلب محض یہ نہ تھا کہ رعایت نہ کریں گے بلکہ یہ کہ ان کا مخاطب غلطی پر ہے۔ کچھ دن کے بعد‘ ایک موزوں ساعت میں اس نے کہا: علم کی دنیا میں کوئی رو رعایت نہیں ہوتی۔ کوئی مقدس ہوتا ہے اور نہ کوئی مخالف۔ ایک برق سی چمکی: عدل کی دنیا میں بھی نہیں۔
چوری کا مرتکب سیدنا فاروقِ اعظمؓ کی بارگاہ میں لایا گیا۔ مقدمہ سنا، بحث کی اور سزا کا حکم صادر کیا۔ کسی نے کہا: پہلی بار خطا کی ہے‘ معاف کر دیجئے۔ فرمایا: بالکل نہیں، انسانوں کا پروردگار ان سے کہیں زیادہ مہربان ہے۔ پہلی بار خطا کی ہوتی تو ''اسے‘‘ ڈھانپ دیتا۔
شہباز شریف کے نہلے پر‘ جسٹس جاوید اقبال نے دہلا پھینک دیا ہے۔ ترجمان نے اس پر کہا کہ تمام متعلقہ کاغذات حکومت پنجاب فراہم کرنے کے لئے تیار ہے‘ کاغذات سے لدے ہوئے ٹرک‘ نیب والے مگر غیر متعلق دستاویزات طلب کر رہے ہیں۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ ایسا وہ کیوں کریں گے؟ جسٹس جاوید اقبال ایک منجھے ہوئے جج ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور خورشید شاہ نے ان کا انتخاب کیا ہے۔ اس لیے کہ جسٹس افتخار چوہدری کی طرح وہ کوئی مہم جو نہیں سمجھے جاتے بلکہ اعتدال پسند۔ سرگوشیوں میں اسلام آباد میں جج حضرات کے بارے میں اسی طرح چہ میگوئیاں سننے میں آتی ہیں‘ جس طرح سیاستدانوں اور جنرلوں کے بارے میں۔ جسٹس جاوید اقبال کو جسٹس کیانی یا جسٹس کارنیلیس کبھی نہیں سمجھا گیا مگر کوئی بری بات ان کے بارے میں کبھی نہیں سنی گئی۔ شہباز شریف کو ایسے شخص کے خلاف بات کرنے‘ فریق قرار دینے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیے۔ خیر یہ ایسا کام ہے، جس کے وہ قائل نہیں۔ زندگی میں غور و فکر کی فرصت اگر کبھی ملی ہوتی تو وہ ایک مختلف آدمی ہوتے۔
میاں محمد شہباز شریف سمیت ایک نکتہ سب سیاستدانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے؛ اگرچہ سول سروس پہ اب حکمرانوں کی گرفت مضبوط ہے مگر وہ دن چلے گئے۔ وہ دن چلے گئے‘ جب سرکاری افسر آپ کے گھریلو ملازم ہوا کرتے تھے۔
اندرون سندھ سے باخبر‘ باریک بینی سے حالات اور سرزمینوں کا جائزہ لینے والے ایک دانا آدمی سے پوچھا: دیہی سندھ کے آئندہ انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی کیا اسی طرح حریفوں کو روند کر نکلے گی۔ اس کا جواب یہ تھا: خوف کا حصار اگر باقی رہا۔ میرے محترم دوست پیر صاحب پگاڑا شریف‘ ارباب رحیم اور مصطفی کمال اگر ادراک کر لیں تو اسٹیبلشمنٹ سے ڈھیل پانے والی‘ من مانی پر تلی‘ پیپلز پارٹی کو شکست فاش سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔ پیر صاحب پگاڑا شریف کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے‘ ایک بار ان سے عرض کیا تھا: جنؐ کے نام نامی اسم گرامی کا‘ آپ اور ہم سب کھاتے ہیں‘ وہ ابوجہل کے دروازے پر گئے تھے... اور یاللعجب گونجتی آندھی میں‘ تاکہ اسے ایمان کی دعوت دیں۔ غیر حاضر زمیندار بھی آخری تجزیے میں خائب و خاسر ہی ہوتے ہیں۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا: لوگوں کے اندر ان کے رجحانات کی طرف سے داخل ہونے کی کوشش کرو۔
قائداعظمؒ کی خیرہ کن کامیابیوں کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ چترال سے ڈھاکہ تک‘ ہر کہیں پہنچ جایا کرتے۔ ایک ایک سے مشورہ کرتے‘ خاص طور پر نوجوانوں‘ پارٹی کے کارکنوں اور وکلاء سے۔ مولوی حضرات سے کم کم ہاں! مگر علمائے کرام سے!
شعیب بن عزیز کا وہی شعر: بینر پہ لکھے حرفِ خوشامد پہ جو خوش ہے/ دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر بھی دیکھے۔ موسم بدل رہا ہے‘ حضور! موسم بدل رہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو مافیازکی طرح چلانا اب ممکن نہ رہے گا۔
بلوچستان میں اس کا نتیجہ سبھی نے دیکھ لیا۔ آصف علی زرداری میاں محمد نواز شریف کی ساری کمائی لے اڑے۔ اس لیے کہ ارکان اسمبلی کی کوئی پروا وزیراعلیٰ کو تھی اور نہ پارٹی کے سربراہ کو۔ زرداری نے نقب لگائی‘ روپیہ خرچ کیا اور بساط الٹ دی۔ پشاور اور کراچی میں وہی کھیل اب وہ کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ رسوائی ہے‘ اُس خدا کی قسم‘ جس کے قبضۂ قدرت میں انسانوں کی جان اور آبرو ہے‘ زرداری کی قسمت میں رسوائی لکھی ہے۔ اس کا انجام عزیر بلوچ‘ رائو انوار اور عابد باکسر سے مختلف نہیں ہو گا۔ اس کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں‘ جو انسانوں کو مہلت دیتا اور ان کی تقدیروں کے فیصلے کرتا ہے۔
شریف خاندان کا طریقِ واردات مختلف ہے۔ وہ صرف خوف کا حربہ استعمال نہیں کرتے۔ عنایات بھی کرتے ہیں۔ ثانیاً میڈیا کم و بیش ان کی جیب میں ہے۔ بدلے ہوئے موسم کا مگر انہیں ادارک نہیں۔ ابصار عالم کہاں ہیں؟ عطاء الحق قاسمی کس حال میں ہے۔ بادشاہت کا زمانہ لد گیا۔ لوہے کی زنجیریں‘ موم کے کھلونے بنتی جا رہی ہیں۔ افسر شاہی تو خوف کے حصار سے نکلتے نکلتے ہی نکلے گی مگر جج آزاد ہیں۔ اب ایک جج کی اپنی کم کوشی ہی اس کی راہ روک سکتی ہے‘ دوسرے اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔
حکمران اور منصب دار ہوں یا عامی‘ دو باتیں جس نے سمجھ لیں‘ اس نے رہائی پائی۔ ایک یہ کہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وما من دابۃ فی الارض اِلّا علی اللہ رزقھا۔ زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں‘ جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ تعز من تشاء و تذل من تشاء۔ جسے چاہتا ہے وہ عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا رسوا کرتا ہے۔ عطاء الحق قاسمی‘ ابصار عالم سمیت سبھی کو اللہ محفوظ رکھے۔ برسبیل تذکرہ یہ کہ مالک سے مجھے معذرت کرنی ہے۔ غلطیاں اس نے ضرور کی ہوں گی اور اس پر فیصلہ صادر کرنا میرا کام نہیں‘ مگر پی ٹی وی میں جو منصب اسے سونپا گیا‘ اس کی قابلیت وہ یقینا رکھتا تھا‘ قاسمی یا ابصار عالم وہ نہیں تھا۔
خوف ایک ہتھیار ہے‘ جو سلیقہ مندی سے استعمال کرنا چاہیے۔ جرم کے انسداد اور کمزور کو تحفظ عطا کرنے کے لیے۔ 1964ء میں یومِ حمید نظامی سے خطاب کرتے ہوئے‘ مولانا عبدالستار خان نیازی نے کہا: انسانوں کے نطق بند نہ کرو ایوب خاں‘ اللہ تمہارا نطق بند کر دے گا۔ فریاد دل کی گہرائیوں سے نکلی تھی۔ برسوں کے لئے اللہ نے کر دیا۔ ایوب خان کا انتقال اس عالم میں ہوا کہ خبر اخبارات کے اندرونی صفحات پر چھپی۔ خلق خدا کو خوف زدہ رکھ کر کوس لمن الملک بجانے والے حکمرانوں کا انجام کیا ہوا؟ بنگالیوں پر فوج چڑھا دینے والے یحییٰ خان، مخالفین کے جلسوں پر گولیاں برسانے والے فخر ایشیا‘ قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو‘ اخبار نویسوں کو کوڑے مارنے والے جنرل محمد ضیاء الحق۔ افسوس کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے: انسان ظالم ہے اور جاہل بھی‘ اکثریت۔
وزیراعلیٰ نے نیب کو بلیک میل کرنے کا ارادہ کیا تھا اب وہ حیرت زدہ کھڑے ہیں۔ فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰ اور ان کے رب پر ایمان لانے والے جادوگروں کی طرح‘ جسٹس جاوید اقبال نے کہہ دیا ہے: بگاڑ لو جو کچھ بگاڑ سکتے ہو۔ مہلت کی ایک آخری شکل ہوتی ہے، انتباہ۔ اس سے بھی آدمی فائدہ نہ اٹھائے تو پھر کوئی گہری کھائی۔ میری دعا ہے کہ شہباز شریف اس کھائی سے بچ جائیں۔
نون لیگ نادانی کے راستے پر ہے۔ تمام انسانوں کو کوئی دھوکہ دے سکتا ہے اور نہ بلیک میل کر سکتا ہے۔ مخالفین ہی نہیں وہ تو ججوں اور جنرلوں کو پامال کرنے کا خواب بھی دیکھ رہے ہیں۔ اللہ ان پہ رحم کرے۔